گزشتہ سال اکتوبر ۱۹۷۵ء میں جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے زیراہتمام مسجد نور گوجرانوالہ میں منعقد ہونے والے ’’کل پاکستان نظام شریعت کنونشن‘‘ کی آخری نشست میں قراردادیں پڑھ کر سنانے کے جرم میں گوجرانوالہ پولیس کی مہربانی سے دسمبر ۱۹۷۵ء میں تحفظ امن عامہ آرڈیننس کی دفعہ ۱۶ کے تحت پہلی بار جیل یاترا کا موقع ملا، لیکن صرف ۹ دن ڈسٹرکٹ جیل گوجرانوالہ میں رہنے کے بعد ضمانت پر رہائی ہوگئی۔
اس سال اسی کنونشن کے انعقاد کی اجازت دینے کی پاداش میں محکمہ اوقاف پنجاب نے مسجد نور اور اس کے ساتھ مدرسہ نصرۃ العلوم کو اپنی تحویل میں لینے کا اعلان کیا تو گوجرانوالہ کے دینی و سیاسی حلقوں نے اسے سیاسی انتقام کی کاروائی قرار دیتے ہوئے شدید احتجاج کیا۔ اور مختلف مکاتب فکر کے نوجوانوں نے معروف طالب علم راہنما جناب نوید انور نوید کی قیادت میں ’’عوامی مجلس تحفظ مساجد و مدارس‘‘ قائم کر کے احتجاجی تحریک کا آغاز کر دیا جس کے تحت ڈیڑھ سو سے زائد کارکن گرفتار ہوئے اور بالآخر صوبائی وزیر اوقاف کی طرف سے مسجد نور کی واگزاری کے وعدہ پر تحریک روک دی گئی۔ اس تحریک کے دوران ۹ جولائی ۱۹۷۶ء کو عوامی مجلس کے زیراہتمام جامع مسجد شیرانوالہ باغ گوجرانوالہ میں احتجاجی جلسہ عام سے خطاب کرنے کے جرم میں گوجرانوالہ پولیس نے تحفظ امن عامہ آرڈیننس کی دفعہ ۱۶ کے تحت ۱۰ جولائی کو میری رہائش گاہ گکھڑ سے مجھے گرفتار کر کے ۱۱ جولائی کو ڈسٹرکٹ جیل میں عوامی مجلس کے اسیر کارکنوں کے پاس پہنچا دیا۔ اس دفعہ بحمد اللہ تعالیٰ جیل کی اندرونی زندگی کا جائزہ لینے اور جرم و سزا کے ماحول میں بسنے والے انسانوں کا مطالعہ کرنے کا کافی موقع ملا اور بالآخر تین ماہ اٹھارہ دن جیل میں گزارنے کے بعد ۲۸ اکتوبر ۱۹۷۶ء کو اپنی انتیسویں سالگرہ کے دن ضمانت پر جیل سے رہا ہوا۔
اس دوران جیل کے اندر کی زندگی کو جس طرح دیکھا اور اس کے بارے میں جو کچھ محسوس کیا اس کی داستان تو بہت طویل ہے لیکن چند اہم امور کی طرف حکومت وقت اور رائے عامہ کو توجہ دلانا ضروری سمجھتا ہوں۔ کیونکہ ایسے معاملات میں خاموش رہنا اور ضمیر کی آواز کو اربابِ حل و عقد تک نہ پہنچانا اسلامی تعلیمات کی رو سے دینی و ملی جرم شمار ہوتا ہے۔
جرائم کی بیخ کنی اور اسلامی قوانین
ایک بات جو سب سے زیادہ محسوس ہوئی اور جس نے اسلام کے عادلانہ نظام پر یقین و ایمان کو مزید استحکام بخشا، یہ ہے کہ ہماری جیلوں کی چہل پہل اور رونق اسلامی نظام عدل و انصاف سے گریز اور مروجہ نظام عدل و انصاف کی سست روی اور پیچیدگی کے باعث ہے۔ اور مروجہ قوانین کی پیچیدگیاں ہی معاشرے میں جرائم کے اضافہ کا سب سے بڑا سبب ہیں۔ اگر ان کی جگہ اسلامی قوانین کا نفاذ عمل میں لایا جائے تو جرائم کی رفتار کو بڑی حد تک کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔
مثلاً قتل کو ہی لیجئے، یہ جرم ہمارے معاشرے میں سے زیادہ ہوتا ہے اور جیلوں کی چار دیواری کے اندر جھانک کر دیکھئے آپ کو قتل کے ملزم دوسروں سے زیادہ نظر آئیں گے۔ اور اس قبیح جرم کے محرکات میں پہلے نمبر پر انتقامی جذبات، دوسرے نمبر پر زمینوں وغیرہ کے جھگڑے، اور تیسرے نمبر پر عصمت و غیرت کا سوال دکھائی دیتا ہے۔ اور تینوں صورتوں میں اس قدر قبیح جرم کا ارتکاب کرنے والے افراد یہ سوچ کر انتہائی قدم اٹھاتے ہیں کہ مروجہ نظامِ قانون میں ان کے دلی اطمینان اور مشتعل جذبات کی تسکین کی ضمانت نہیں ہے۔ اس لیے وہ قانون کی پیچیدگیوں کے باعث پیدا ہوجانے والے خلاء کو قانون کو ہاتھ میں لے کر پر کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس کے نتیجے میں رفتہ رفتہ معاشرہ اخلاقی انارکی کے جہنم کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اس کی بجائے اگر اسلام کے سادہ اور ٹھوس نظام انصاف کے ذریعہ ایک مقتول کے وارثوں کو ان کا انتقامی حق دلوا دیا جائے اور انہیں یقین ہو جائے کہ نظام قانون میں ان کی دادرسی کی مکمل ضمانت موجود ہے تو یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ انتقامی قتل کا سلسلہ کافی حد تک رک سکتا ہے۔
اسی طرح اگر زمینوں کی تقسیم شرعی اصولوں کے مطابق ہو، اس تقسیم کی پشت پر قانون کی قوت کے ساتھ ساتھ نظریاتی وابستگی اور اخلاقی قوت بھی فراہم ہو جائے اور ہر شخص کو یقین ہو کہ ٹھوس اور مستحکم نظام قانون کی وجہ سے کوئی شخص اس کا حق نہیں دبا سکتا تو زمین کے جھگڑوں اور ان کے نتیجے میں قتل و غارت کو روکا جا سکتا ہے۔
اور اگر بدکاری کا شرعی قوانین کے مطابق سدباب کر دیا جائے، زنا و شراب وغیرہ کی شرعی سزائیں نافذ ہو جائیں اور بے پردگی کو ممنوع قرار دے دیا جائے تو غیرت کے سوال پر ہونے والے قتلوں کا سلسلہ بھی روکا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ سب کچھ اسی صورت میں ممکن ہے جب موجودہ قوانین اور سست رو اور پیچیدہ نظام انصاف کی جگہ مکمل اسلامی قوانین اور اسلامی نظام انصاف نافذ کر دیا جائے، اس کے بغیر معاشرہ کو قتل اور اس جیسے دیگر جرائم سے پاک نہیں کیا جا سکتا۔
جیل میں اخلاقی تربیت
جیل کے بارے میں عام طور پر یہ تصور پایا جاتا ہے کہ مجرم کو مزید جرم سے روکنے اور اس کی اصلاح و تربیت کے لیے اسے جیل میں بند کیا جاتا ہے۔ یہ بات ٹھیک ہے لیکن اصلاح و تربیت والی بات جیل میں کہیں نظر نہیں آتی۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا کہ جیل میں ہم پیشہ مجرموں کو باہمی ملاقات، ایک دوسرے کے طریقہ ہائے واردات سے آگاہی اور جرائم کی مزید تربیت کا کافی موقع مل جاتا ہے۔ اور ایک مجرم جب جیل سے باہر آتا ہے تو پہلے سے زیادہ مجرمانہ ذہن اور خوداعتمادی سے بہرہ ور ہوتا ہے۔ حالانکہ جیل میں مجرمانہ ذہن کی حوصلہ شکنی اور اخلاقی تربیت کا معقول انتظام ہونا چاہیے۔ اور اصلاح و تربیت کے نقطۂ نظر سے یہ ضروری ہے کہ ہر جیل میں ایک مسجد ہو جس میں باجماعت نماز کی ادائیگی کا اہتمام ہو اور جیل حکام قیدیوں اور حوالاتیوں سے نماز کی پابندی کروائیں۔ اس مسجد کے ساتھ ایک درسگاہ ہو جس میں قرآن و حدیث کی تعلیم کا بندوبست کیا جائے۔ حوالاتیوں اور قیدیوں کو، جن کے پاس وافر وقت ہوتا ہے، قرآن کریم کا ترجمہ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے مقدس اصحاب کرام رضی اللہ عنہم کے حالات زندگی، اخلاقی تعلیمات پر مشتمل مختصر رسالے، اور خصوصاً جرائم کے بارے میں قرآن و حدیث کے ارشادات اہتمام کے ساتھ پڑھائے جائیں۔ تاکہ ان کے ذہنوں میں جرائم سے نفرت پیدا ہو اور وہ شریف شہری کی حیثیت سے اپنے فرائض سرانجام دینے کے لیے ذہنی طور پر تیار ہوں۔
اس کے علاوہ جو افراد پڑھنا لکھنا نہیں جانتے، انہیں پڑھنا لکھنا سکھایا جائے اور وقتاً فوقتاً دینی و اخلاقی تعلیمات پر ہلکا پھلکا لٹریچر جیلوں میں تقسیم کیا جاتا رہے۔ بالخصوص بچوں کی تعلیم و تربیت سے غفلت تو انتہائی دکھ کی بات ہے۔ بعض معصوم بچے خارجی اثرات کے تحت جرائم کر کے جیلوں میں چلے جاتے ہیں جہاں ان کی اصلاح کی بجائے ان کے معصوم ذہنوں پر جرم و بدکرداری کے اثرات و نشانات قائم ہو جاتے ہیں اور ہمیشہ کے لیے ان کی زندگی تباہ ہو جاتی ہے۔ گوجرانوالہ جیل میں بچوں کی گنتی عموماً سو سوا سو کے لگ بھگ رہتی ہے، دوسری جیلوں کو اس پر قیاس کیجئے اور اندازہ لگائیے کہ ملک میں اس وقت جیلوں کی چار دیواری کے اندر کتنے معصوم بچے ہوں گے جن کی زندگیوں کی مستقل تباہی کا انتظام کیا جا رہا ہے۔ اس لیے بچوں کی دینی تعلیم، اخلاقی تربیت اور لکھنا پڑھنا سکھانے کے علاوہ انہیں مختلف ہنر سکھانے کی طرف بھی توجہ دینی چاہیے۔ جیلوں میں چھوٹی چھوٹی صنعتیں قائم کر کے ان بچوں اور دوسرے حوالاتیوں کو کوئی نہ کوئی ہنر سکھانے کا انتظام ہونا چاہیے تاکہ وہ جیل سے رہائی کے بعد خوداعتمادی کے ساتھ شریفانہ زندگی کا آغاز کر سکیں۔
مدتِ حوالات کس شمار میں؟
مروجہ نظام قانون کی سست روی اور پیچیدگی کے باعث بے شمار لوگ مقدمات کے فیصلوں کے انتظار میں طویل عرصہ حوالاتی کی حیثیت سے جیل میں بلاوجہ محبوس رہتے ہیں اور جیلوں میں زیادہ تعداد حوالاتیوں کی ہوتی ہے۔ گوجرانوالہ کی جیل میں ۱۱۰۰ سے ۱۳۰۰ کی نارمل گنتی میں سزا یافتہ قیدیوں کی تعداد ۲۰۰ سے زیادہ نہیں ہوتی، جبکہ باقی سب حوالاتی ہوتے ہیں جو تین تین چار چار سال تک مقدمات کے فیصلوں کے انتظار میں محبوس رہتے ہیں۔ اور حوالاتی کی حیثیت سے گزاری ہوئی قید کسی کھاتے میں شمار نہیں ہوتی بلکہ سزا ہونے پر مجرم کو ازسرنو پوری سزا بھگتنا ہوتی ہے۔ بسا اوقات تو حوالات کی مدت اصل سزا سے بڑھ جاتی ہے۔ ہمارے سامنے ایک ملزم کو چوری کے الزام میں تین ماہ قید کی سزا سنائی گئی جبکہ وہ مقدمہ کے فیصلہ کے انتظار میں سات ماہ تک قید بھگت چکا تھا، لیکن اسے ازسرنو تین ماہ سزا بھگتنا پڑی۔
سوال یہ ہے کہ یہ حوالات کس کھاتے میں شمار ہوگی؟ اور اگر نظام قانون سست روی اور پیچیدگی کے باعث مقدمات جلد نمٹانے پر قادر نہیں ہے تو اس کی سزا ملزم کو کیوں دی جاتی ہے؟ اس مسئلہ کا صحیح حل تو وہی ہے جو اوپر ذکر کیا جا چکا ہے کہ اسلام کا عادلانہ نظامِ قانون نافذ کیا جائے، لیکن مروجہ قانون کے تحت بھی مندرجہ ذیل طریقہ سے اس مسئلہ کی سنگینی کو کافی حد تک کم کیا جا سکتا ہے۔
- مقدمات کی درجہ بندی کر کے ان کے فیصلوں کے لیے مدت متعین کی جائے اور اس وقت تک فیصلہ نہ ہونے کی صورت میں اسی بنیاد پر ملزم کی ضمانت منظور کر لی جائے۔
- حوالات کی حیثیت سے بھگتی ہوئی قید کی مدت کو باضابطہ حساب کر کے اسے باضابطہ سزا میں شمار کیا جائے۔
- اگر کوئی ملزم عائد شدہ الزام کے تحت حوالاتی کی حیثیت سے پوری مدتِ سزا جیل میں گزار لے تو اسے رہا کر دیا جائے اور جیل حکام کو اس کے اختیارات دیے جائیں۔
بارکوں میں گنتی کا مسئلہ
بارکوں میں گنجائش سے زیادہ گنتی کا مسئلہ بھی پریشان کن ہے اور اس سے متعدد اخلاقی و باطنی مسائل جنم لیتے ہیں۔ اس مسئلہ کی سنگینی کا اندازہ اس امر سے کیجئے کہ قانوناً صرف ۱۲ افراد کے لیے منظور شدہ ایک چھوٹی سی بارک میں ۳۵ سے ۴۰ افراد کی گنتی بالکل نارمل سمجھی جاتی ہے۔ شدید گرمی کے موسم میں ایک بارک میں ۶۵ تک افراد بھی گھسیڑ دیے جاتے ہیں۔ بسا اوقات تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ان بارکوں میں انسانوں کو نہیں، بھیڑ بکریوں کو بند کیا جا رہا ہے۔ اور زیادہ افراد کی صورت میں کئی لوگوں کو رات بیٹھ کر گزارنا پڑتی ہے اور جو لیٹتے ہیں ان کے لیے بھی کروٹ بدلنے کی گنجائش نہیں ہوتی۔
اس لیے یہ ضروری ہے کہ ہر بارک کے لیے زیادہ سے زیادہ گنتی کی حد متعین کر کے اس سے زیادہ افراد بارک میں بند کرنے کی ممانعت کر دی جائے اور باقی ماندہ افراد کے لیے متبادل انتظامات کیے جائیں۔
حوالاتیوں سے بے گار نہ لی جائے
ایک بات اور دیکھنے میں آئی ہے کہ جیل میں عموماً حوالاتیوں سے بے گار لی جاتی ہے اور جیل کی اصطلاح میں اسے ’’فٹیک‘‘ کہا جاتا ہے جس میں دیواروں کی چنائی و مرمت، نالیوں کی صفائی، کچے راستوں پر پوچا پھیرنا اور اس نوعیت کے دوسرے کام شامل ہیں۔ حالانکہ مشقت صرف قیدی سے لی جا سکتی ہے حوالاتی سے نہیں، لیکن یہاں فٹیک حوالاتیوں ہی سے لی جاتی ہے۔ اور ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ جو شخص انچارج ہیڈوارڈ کی مٹھی میں چپکے سے دس روپے پکڑا دے گا وہ بے گار سے بچ جائے گا۔ آج کل اس کا ریٹ یہی ہے۔ اور جو دس روپے دینے کی طاقت نہیں رکھتا اس سے زبردستی بے گار لی جاتی ہے۔
سوال یہ ہےکہ جب قانوناً حوالاتی مشقت کا پابند نہیں ہے تو اس سے جبراً فٹیک کیوں لی جاتی ہے؟ اس سے انکار نہیں کہ بے کار حوالاتیوں سے کچھ نہ کچھ کام ضرور لینا چاہیے لیکن اس میں جبر کے عنصر کو شامل نہ کیا جائے اور اس فٹیک کو رضاکارانہ شکل دے کر اس کے عوض کام کرنے والوں کو کچھ سہولتیں فراہم کر دی جائیں تو معاملات خوش اسلوبی کے ساتھ چل سکتے ہیں۔ اس کے برعکس اگر حوالاتیوں کو چھوٹے چھوٹے ہنر سکھانے کے لیے ہلکی سی انڈسٹری قائم کی جائے اور کام کرنے والوں کو تھوڑا بہت معاوضہ دے دیا جائے تو جیل کی آمدنی میں اضافہ ہوگا اور حوالاتی بھی بے کار بیٹھنے کی بجائے خوشی خوشی کام کریں گے۔
پھر جیل کے اندر رشوت کا عمل دخل تو ستم ظریفی کی انتہا ہے۔ اور جب ہر شخص سے گیٹ پر تلاشی لے کر اس سے رقم لے لی جاتی ہے کہ جیل میں رقم لے جانے کی ممانعت ہے تو ایسی صورت میں جیل کے اندر رشوت کا تقاضہ انتہائی ستم اور ظلم کی بات ہے۔ ممکن ہے بعض ملازمین مہنگائی اور اخراجات سے تنگ آکر مجبورًا ایسا کرتے ہوں لیکن اس کا حل یہ نہیں ہے۔ بلکہ حکومت کو چاہیے کہ جیل میں ملازمین کو معقول مشاہرے اور سہولتیں دی جائیں تاکہ حوالاتی اور قیدی ان کی دستبرد سے محفوظ رہ سکیں۔
قیدیوں کی مشقت
قانوناً بعض سخت مجرموں کی سزا میں مشقت بھی شمار ہوتی ہے لیکن مشقت کے طریقے فرسودہ اور فرنگی دور کی یادگار ہیں۔ مثلاً مونج کوٹنا اور بان بٹنا وغیرہ۔ اس کی جگہ اگر مشقت کے نئے طریقے اختیار کر لیے جائیں تو زیادہ بہتر ہوگا اور اس کی صورت انڈسٹری ہے۔ قیدیوں سے اگر صنعتی مشقت لی جائے تو جیل کی آمدنی میں بھی اضافہ ہوگا اور مشقت کرنے والے کو بھی زیادہ دقت نہیں ہوگی۔
بہتر کلاس کا استحقاق
جیل میں بہتر کلاس کے حصول کا مسئلہ بھی خاصا تعجب خیز ہے۔ اول تو یہ مختلف کلاسوں کا سلسلہ ہی اسلامی تعلیمات کی رو سے غیر ضروری ہے۔ اور اگر مروجہ قانون کے تحت اس کی گنجائش ہے تو بہتر کلاس کے حصول کا طریق کار قطعی نامناسب ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر ایک شخص قانون کی رو سے بہتر کلاس کا مستحق ہے تو کیا اس حق کے حصول کے لیے خود اس کا درخواست دینا ضروری ہے؟ جب پولیس کے ریکارڈ میں ملزم کے تمام کوائف اور اس کے بارے میں تفصیلات موجود ہوتی ہیں تو عدالت میں اسے پیش کرتے وقت خود پولیس کو یہ رپورٹ دینی چاہیے کہ یہ ملزم کون سی کلاس کا مستحق ہے۔ تاکہ مجسٹریٹ متعلقہ جیل کے سپرد کرتے وقت ہی ملزم کی حیثیت کے مطابق کلاس کا تعین کر دے۔
مجھے اس دفعہ بہت سے احباب نے مشورہ دیا کہ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کو درخواست دے کر جمعیۃ علماء اسلام کے مرکزی عہدہ دار کی حیثیت سے اپنے لیے بہتر کلاس کی منظوری حاصل کر لوں۔ لیکن کچھ تو اسیر ساتھیوں کی رفاقت کے خیال سے، اور کچھ اس خیال سے درخواست دینے سے گریز کیا کہ اگر بہتر کلاس قانوناً میرا حق ہے تو قانون کو از خود میرے طلب کیے بغیر مجھے یہ حق دینا چاہیے کہ یہی شریفانہ طریقہ ہے۔
کھیلوں کا انتظام
آخر میں ایک اور بات کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ جیل میں اگر نوجوانوں اور بچوں کے لیے مناسب کھیلوں کا انتظام کیا جائے تو یہ بہت مفید بات ہوگی۔ جیل کے گھٹے گھٹے ماحول میں ذہنی و جسمانی مشقت اور تفریح بہت ضروری ہے اور کھیل اس کا بہترین ذریعہ ہے۔
الغرض مذکورہ تمام معروضات کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ جیل کو اصلاح و تربیت اور ذہنی و فکری نشوونما کا ایک ایسا مرکز ہونا چاہیے جہاں مجرمانہ ذہن کی حوصلہ شکنی ہو اور حوالاتیوں و قیدیوں کے ذہنوں سے مجرمانہ خیالات و تصورات کو نکال کر انہیں پاکیزہ خیالات کا گہوارہ بنایا جائے۔ تاکہ لاکھوں شہری جو اس وقت جیلوں کے اندر بند ہیں، باہر آ کراخلاقی انارکی کا سامان پیدا کرنے کی بجائے معزز اور شریف شہریوں کی سی زندگی بسر کر سکیں۔