بلوچستان کی صورتحال، میاں محمد حسن شاہ کی باتیں

   
۱۵ مارچ ۱۹۷۴ء

۵ مارچ کا قصہ ہے کہ راقم الحروف کو علامہ محمد احمد صاحب لدھیانوی جنرل سیکرٹری متحدہ جمہوری محاذ گوجرانوالہ، قاری محمد یوسف عثمانی صاحب نائب امیر جمعیۃ شہر گوجرانوالہ، اور ڈاکٹر غلام محمد صاحب مبلغ جمعیۃ ضلع گوجرانوالہ کی معیت میں جمعیۃ کے علاقائی تربیتی کنونشن کے لیے فیصلز ہوٹل جی ٹی روڈ گوجرانوالہ کے ہال کی بکنگ کی غرض سے ہوٹل جانے کا اتفاق ہوا۔ ہوٹل کے صدر دروازے پر سیاہ رنگ کی کار اور اس پر قومی پرچم دیکھ کر خیال ہوا کہ شاید اندر کوئی عوامی وزیر ہوٹل کو شرف قدوم سے نوازنے تشریف لائے ہیں۔ ہم ہوٹل کے اندر داخل ہوئے تو دیکھا کہ بلوچستان کے ’’عوامی مولانا‘‘ اور وزیر صحت حضرت مولانا میاں محمد حسن شاہ صاحب دامت برکاتہم اپنے ڈرائیور اور ایک نو عمر بچے کی معیت میں تشریف فرما ہیں اور کھانا تناول کر رہے ہیں۔ ہم کھانے میں خلل اندازی ناپسند کرتے ہوئے ہال کی بکنگ کے سلسلہ میں مینیجر صاحب سے گفتگو کے بعد ایک طرف بیٹھ گئے کہ اختلافات اپنے مقام پر سہی چلو مل تو لیں، آخر مہمان ہیں۔

میاں صاحب کھانے سے فارغ ہوئے تو ہم لوگ قریب آگئے۔ مصافحہ اور سلام دعا کے بعد ہم نے چائے کی دعوت دے دی جو انہوں نے کچھ تامل کے بعد قبول فرما لی۔ ظہر کی نماز کا وقت ہو چکا تھا، میاں صاحب نے چائے سے قبل وضو کر لیا اور ہوٹل والوں نے نماز کے لیے مصلیٰ کا انتظام بھی کر دیا۔ وضو کے بعد میاں صاحب چائے کی میز پر تشریف لائے تو علامہ محمد احمد صاحب لدھیانوی نے بلوچستان کی صورتحال کے بارے میں ایک سوال کے ساتھ گفتگو کا آغاز کر دیا جو بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال کے بارے میں تھا۔ میاں صاحب نے فرمایا کہ بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال ’’قابو‘‘ میں تو ہے مگر فوج کے زور سے۔ فوج کی تعداد میاں صاحب نے پہلے چار ڈویژن اور پھر سات ڈویژن بتائی اور کہا کہ اسی وجہ سے کچھ امن و امان ہے ورنہ مری، مینگل اور بزنجو بڑے تیز قبیلے ہیں، ان کو قابو کرنا مشکل ہے۔

علامہ صاحب نے دوسرا سوال یہ کیا کہ عطاء اللہ خان مینگل، غوث بخش بزنجو اور خیر بخش مری کو کیوں گرفتار کیا گیا ہے؟ میاں صاحب نے بتایا کہ انہوں نے خود جیل پسند کی ہے، ہم نے تو ان سے کہا تھا کہ آؤ ہمارے ساتھ مل کر مخلوط حکومت بنا لو مگر مینگل نے کہا کہ اسمبلی میں ہماری اکثریت ہے اس لیے ہم حکومت بنائیں گے ورنہ پہاڑوں میں رہ کر لڑیں گے۔ اب اس کے بعد انہیں گرفتار کرنے پر ہم مجبور ہیں، ویسے مینگل بہت بہادر اور زور آور ہے، وہ کسی سے نہیں ڈرتا، وہ جیل میں بھی خوش ہے اور جیل کو جیل نہیں سمجھتا اور کہتا ہے کہ مجھے یہاں کوئی تکلیف نہیں۔ میاں صاحب نے گفتگو بڑی احتیاط سے فرمائی مگر آخر سچی بات تھی جسے وہ چھپا نہ سکے اور عطاء اللہ مینگل کو خراج تحسین پیش کیے بغیر نہ رہ سکے۔

اس کے بعد قاری محمد یوسف صاحب نے سوال کیا کہ حضرت سنا تھا کہ بلوچستان میں دو ماہ میں شریعت نافذ ہوگی، اس کا کیا بنا اور کب بلوچستان میں شرعی نظام کے نفاذ کی توقع ہے؟ میاں صاحب نے فرمایا کہ ابھی حالات قابو میں نہیں اور ہنگامی صورتحال ہے اس لیے سرِدست کچھ نہیں ہو سکتا۔ ہم جلدی اس کے لیے کوشش کریں گے اور کوثر نیازی صاحب نے ہم سے شریعت کا وعدہ کر رکھا ہے۔

میاں صاحب نے یہ عذر تو کر دیا مگر انہیں یہ باور نہ رہا کہ اس مجلس میں وہ نیپ جمعیۃ حکومت پر اسلامی اصلاحات نافذ نہ کرنے کی وجہ سے بے دینی کا فتویٰ دے چکے ہیں۔ خیر میاں صاحب نیپ جمعیۃ حکومت پر اعتراض اور اپنی حکومت کی طرف سے عذر پیش کرنے سے فارغ ہوئے تو میں نے سوال کر دیا کہ حضرت یہ ارشاد فرمائیے کہ جمعیۃ کی مرکزی قیادت سے آپ کا کیا جھگڑا ہے؟ میاں صاحب فرمانے لگے کہ مفتی صاحب کسی کی بات نہیں مانتے۔ میں نے عرض کیا کہ مفتی صاحب تو شوریٰ کی بات کرتے ہیں، آپ کو بھی شوریٰ کی بات کرنی چاہیے۔ مگر اس بات کا ان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔

علامہ محمد احمد صاحب نے ایک اور سوال یہ کیا کہ حضرت آپ مینگل حکومت پر تو اعتراض کرتے ہیں کہ اس نے شراب پر پابندی نہیں لگائی، تو کیا آپ کی حکومت نے شراب بند کر دی؟ میاں صاحب نے فرمایا بھئی! ابھی تو قصہ ڈانواں ڈول ہے، میں نے تو ’’اس‘‘ سے کہا تھا مگر ’’اس‘‘ نے کہا کہ ہمیں تو یہ بھی پتہ نہیں کہ شام تک ہماری وزارت رہتی ہے یا نہیں، اس لیے ہم کیا کر سکتے ہیں۔ اس وقت حالات درست نہیں، جب درست ہوں گے اور مینگل سے بات ہو جائے گی تو پھر ہم سب کچھ کریں گے۔

یہ باتیں جاری تھیں کہ شاید چھٹی حس نے میاں صاحب کو خبردار کر دیا، چنانچہ وہ ہوٹل میں نماز ادا کیے بغیر عجلت میں گاڑی پر سوار ہو کر عدم لاہور ہوگئے۔ اور ہم خوش تھے کہ دس روپے کی چائے میں میاں صاحب کے ’’نیاز‘‘ بھی حاصل ہوگئے اور ’’راز‘‘ بھی۔

   
2016ء سے
Flag Counter