روزنامہ نوائے وقت کی ۱۷ اپریل کی اشاعتِ ملی میں ’’کمیونزم اور سوشلزم کے سبز باغ‘‘ کے عنوان سے منشی عبد الرحمان خان صاحب کا مضمون نظر سے گزرا جس میں بعض باتیں اگرچہ مبالغہ آمیز ہیں، مثلاً مصر کے صدر ناصر مرحوم کے بارے میں یہ لکھا گیا ہے کہ انہوں نے سوشلزم کے خلاف فتوے دینے سے علماء ازہر کو حکماً روک دیا، جبکہ امر واقعہ یہ ہے کہ ناصر مرحوم کے دورِ حکومت میں مصر میں ’’کمیونسٹ پارٹی‘‘ مسلسل خلاف قانون رہی اور روسی وزیراعظم مسٹر خروشچیف اپنے دورۂ مصر کے موقع پر بار بار اصرار کے باوجود ناصر مرحوم کو کمیونسٹ پارٹی پر عائد پابندی ہٹانے پر آمادہ نہ کر سکے۔ تاہم اس مبالغہ آمیزی کے باوجود مذکورہ مضمون کمیونسٹوں کے طریق کار، عزائم اور مقاصد کو سمجھنے میں کسی حد تک مدد دیتا ہے۔
مجھے اپنی گزارشات میں مذکورہ مضمون کو زیربحث لانے کی بجائے اس کی مناسبت سے کمیونزم کے بڑھتے ہوئے خطرات، اس کے اسباب و محرکات اور اس ضمن میں مسلمانوں کی اجتماعی ذمہ داریوں کے بارے میں کچھ عرض کرنا ہے تاکہ اس بحث کے تمام پہلو قارئین کے سامنے آسکیں۔
کمیونزم کے بارے میں غور کرتے وقت ہم یہ حقیقت اکثر نظر انداز کر جاتے ہیں کہ کمیونزم کے خطرہ کی حیثیت خارجی کم اور داخلی زیادہ ہے۔ اور اگرچہ خارجی عوامل اس فتنہ کو بھڑکانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں لیکن فتنہ کا اصل منبع کمیونزم کا شکار ہونے والے معاشرے کی داخلی صورتحال ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں اس فتنہ کو خارجی سمجھ کر اس کی داخلی حیثیت سے چشم پوشی کی گئی وہاں کمیونزم کا اثر و نفوذ بڑھتا چلا گیا اور یورپی ممالک کی طرح جس معاشرہ میں کمیونزم کے داخلی سرچشمہ کو بند کرنے کی حکمت عملی اختیار کی گئی وہاں کمیونزم کا خطرہ ہمیشہ کے لیے ٹل گیا۔
آج مسلم ممالک کمیونزم کی جارحانہ یلغار کی زد میں ہیں اور مسلم حکومتیں، ادارے اور مسلمانوں کی نظریاتی تحریکیں کمیونزم کی مسلح پیش رفت سے پیدا شدہ صورتحال کا جائزہ لے رہی ہیں۔ اگر آج بھی کمیونزم کے داخلی محرکات و اسباب کو دور کرنے کی بجائے صرف خارجی یلغار سے محاذ آرائی کو ہی کافی سمجھ لیا گیا تو یہ حکمت عملی کمیونزم کی راہ روکنے کی بجائے اس کی منزل کو اور قریب لانے کا باعث بنے گی۔ اس لیے ہمیں ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ اس مسئلہ کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لینا چاہیے۔
کمیونزم کے جراثیم ہمیشہ معاشرہ میں مختلف طبقات کے درمیان معیار زندگی کے ہوشربا تفاوت، اور سرمایہ دارانہ و جاگیردارانہ نظام کے تحت گنے چنے افراد پر مشتمل طبقے کی طرف سے آبادی کی اکثریت کے استحصال کے نتیجہ میں جنم لیتے ہیں۔ اور معاشرہ کی طبقاتی تقسیم کمیونزم کے جراثیم کے لیے پیدائش اور افزائش کا باعث بنتی ہے۔ یہ امر واقعہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں طبقاتی تقسیم نہ صرف اپنی تمام تر فتنہ سامانیوں سمیت موجود ہے بلکہ کمیونزم کے خطرہ کو قریب لانے کا سب سے بڑا داخلی محرک یہی ہے۔ پاکستانی معاشرہ کمیونزم کی یلغار کا براہ راست ہدف ہے اور یہاں معاشرہ کی طبقاتی تقسیم کی فتنہ خیزیوں کا جائزہ لینے کے لیے زیادہ تفصیلات کو کریدنے کی بجائے ایک طرف ڈیفنس کالونی، شادمان کالونی اور گلبرگ کے معیار زندگی کو دیکھ لیں اور دوسری طرف کچی آبادیوں میں قیام پذیر لوگوں کے معیار زندگی پر ایک نظر ڈال لیں۔ اگر آپ ان دونوں کے درمیان فرق کا فاصلہ ماپنے میں کامیاب ہو جائیں تو اس تفاوت سے پیدا شدہ غلاظت کے ڈھیر پر پلنے والے کمیونزم کے وہ جراثیم بھی نظر آجائیں گے جنہیں ’’کرم کش ادویات‘‘ کے ذریعے ہلاک کرنے کی تمام تر کوششیں ناکام ہو چکی ہیں اور اب اس کے سوا کوئی چارہ کار باقی نہیں رہا کہ ایک ہی معاشرہ کے مختلف طبقوں کے درمیان معیار زندگی کے ہوشربا تفاوت اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے غلاظت کے ڈھیر کو بلاتاخیر اٹھا دیا جائے تاکہ کمیونزم کے جراثیم پورے معاشرہ کو اپنی لپیٹ میں لینے سے قبل ہی اپنی پناہ گاہ اور کمین گاہ سے محروم ہو جائیں۔
ہمارا موجودہ معاشی اور معاشرتی ڈھانچہ نوآبادیاتی دور کی یادگار ہے جس کا اسلام کے ساتھ دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ مگر بدقسمتی سے اس وقت صورتحال یہ ہے کہ اس نوآبادیاتی نظام کے خلاف کمیونزم کی جنگ میں اسلام کے نام پر کام کرنے والی تحریکوں نے توازن اور حکمت عملی کا دامن چھوڑ دیا ہے۔ اسلامی نظام عدل جہاں کمیونزم کو ایک لمحہ کے لیے قبول کرنے کو تیار نہیں ہے وہاں وہ موجودہ معاشی و معاشرتی ڈھانچہ کی موافقت بھی نہیں کرتا۔ اس صورتحال میں حکمت عملی کا تقاضا تو یہ تھا کہ موجودہ نوآبادیاتی نظام کے خلاف جدوجہد میں اسلام اور کمیونزم کے درمیان مسابقت کی فضا پیدا کر دی جاتی اور اسلامی عناصر جو یہاں کمیونسٹ عناصر سے کہیں زیادہ مؤثر، طاقتور اور مستحکم ہیں اسی مسابقت کے ساتھ آنے والے انقلاب کی زمام کار کو اپنے ہاتھ میں لے لیتے جیسا کہ پڑوسی ملک ایران میں ہوا ہے۔ لیکن یہاں بدقسمتی سے نہ صرف یہ کہ اسلام کو نوآبادیاتی نظام کے خلاف جدوجہد کا سالار بنانے کی بجائے اس نظام کے حمایتی اور پناہ گاہ کے طور پر پیش کیا گیا بلکہ نوآبادیاتی نظام کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز پر ’’سوشلسٹ‘‘ اور ’’کمیونسٹ‘‘ کی پھبتی کس کر کمیونزم کے دائرہ اثر کو وسیع کرنے اور نوآبادیاتی نظام کے مخالفین کو ’’کمیونسٹ کیمپ‘‘ میں زبردستی دھکیلنے کی ناعاقبت اندیشانہ مساعی روا رکھی گئیں۔
اور اس کے ساتھ ساتھ پاکستانی عوام کی عظیم قربانیوں کے بعد گزشتہ سال اسلامی قوانین کے نفاذ کے جس عمل کا آغاز ہوا اسے مصلحتوں، گروہی نزاکتوں اور بے تدبیری کے شکنجے میں اس بری طرح جکڑ دیا گیا کہ اسلامی نظام کے نفاذ سے وابستہ خوش فہمیوں اور آرزوؤں کا محل شگاف آشنا ہو چکا ہے۔ آج صورتحال یہ ہے کہ اسلام اور نظریۂ پاکستان کی بات کرنے والے لوگوں کے چہرے معذرت و خجالت کی جھریوں سے سجے ہوئے ہیں جبکہ لادینیت اور اخلاقی انارکی کے علمبردار اپنے چہروں سے جھجھک کے نقاب اتار کر دور پھینک چکے ہیں۔ اسلام اور اسلامی نظام کے بارے میں عوامی اعتماد سے بہرہ ور طبقہ صرف علماء کا طبقہ تھا اور کسی حد تک آج بھی ہے لیکن علماء کرام نے فرقہ بندی کے عنوان سے قوم کو وہ تگنی کا ناچ نچایا ہے کہ لادینیت کے پرچارک آج زیرلب یہ گنگناتے پھر رہے ہیں کہ
پھر علماء کرام سے معذرت کے ساتھ اس حقیقت کا اظہار بھی ضروری ہے کہ علماء کی اکثریت اس معاشرے کے پسے ہوئے اور معاشی ناہمواری کے ستائے ہوئے طبقوں کے مسائل معلوم کرنے، ان کی مشکلات کا جائزہ لینے، ان سے میل جول رکھنے اور انہیں اپنی رفاقت کا احساس دلانے سے گریزاں ہے۔ حالانکہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت خود کو محنت کشوں اور معاشرہ کے مظلوم طبقوں کے ساتھ وابستہ رکھنا ہے، لیکن آج علماء کرام سہل پسندی کے ہاتھوں اس سنت نبویؐ سے محروم ہوتے جا رہے ہیں۔
ان حالات میں کمیونزم کا مقابلہ اور سدباب خالی خولی محاذ آرائی کی فضا قائم کرکے نہیں بلکہ تکنیکی اور منطقی طرز عمل اختیار کر کے ہی کیا جا سکتا ہے۔ اور اس سلسلہ میں سب سے زیادہ اور نازک ذمہ داری علماء کرام پر عائد ہوتی ہے کہ وہ مروجہ نوآبادیاتی معاشی اور معاشرتی نظام کی غیر اسلامی حیثیت کی دوٹوک وضاحت کریں اور اس غلط فہمی کو جرأت اور استقامت کے ساتھ دور کرنے کی کوشش کریں کہ موجودہ نظام کو اسلام یا علماء کرام کی پشت پناہی حاصل ہے۔ کیونکہ اس امر کی عملی اور دوٹوک وضاحت کے بغیر کمیونزم کی کسی بھی عنوان سے مخالفت نوآبادیاتی نظام کی حمایت سمجھی جائے گی جو نہ صرف علماء کرام بلکہ اسلام کے عادلانہ نظام کے بارے میں خطرناک منفی نتائج پیدا کر سکتی ہے۔
ہمارا موجودہ معاشرتی اور معاشی ڈھانچہ طبقاتی تقسیم اور دولت کے سرکاری ذرائع کی ترجیحانہ تقسیم کی بنیاد پر استوار ہے اور یہ دونوں اصول اسلامی تعلیمات کے سراسر منافی ہیں۔ اس لیے کہ اسلام معاشرہ میں طبقات کے وجود کو تسلیم نہیں کرتا، نہ رنگ و نسل کے اعتبار سے، نہ مال و دولت کے اعتبار سے، نہ قوت و اختیار کے لحاظ سے اور نہ ہی کسی اور نقطۂ نظر سے۔ اسلام سے قبل یہ تقسیم اور ترجیحات موجود تھیں لیکن اسلام نے اسے یکسر مٹا دیا۔ اسلام نے جائز ذرائع سے دولت کمانے کی اجازت ضرور دی اور حلال دولت کا ذخیرہ کرنے سے بھی نہیں روکا لیکن دولت کی ایسی نمائش اور معیار زندگی کو معاشرہ کے عام معیار سے مختلف اور بلند کرنے کی اجازت نہیں دی کہ اسی سے طبقاتی تقسیم جنم لیتی ہے۔
خلافت راشدہ اسلامی نظام کا آئیڈیل معاشرہ ہے، اس پر ایک نظر ڈالیے کہ معاشرے میں امیر المومنین، گورنر، عمال اور دیگر ارباب اختیار موجود تھے۔ حضرت عبد الرحمان بن عوفؓ، حضرت طلحہؓ، حضرت زبیرؓ اور حضرت عثمانؓ جیسے اصحابِ ثروت بھی موجود تھے۔ حضرت بلالؓ اور حضرت ابو ہریرہؓ جیسے مفلس بھی موجود تھے۔ لیکن نہ حکمران طبقہ نے اپنے لیے امتیازی معیار زندگی کا تقاضا کیا اور نہ ہی اصحاب ثروت نے الگ بستیاں بسانے کو پسند کیا بلکہ معاشرہ کے تمام افراد کے درمیان معیار زندگی کی یکسانیت نے ایسی بہار پیدا کر دی جو خلاف راشدہ کی اصل روح ہے۔ یہاں یہ ذکر بے محل نہ ہوگا کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے محنت کشوں کے سب سے نچلے طبقہ غلاموں کے بارے میں حکم دیا کہ
’’یہ تمہارے بھائی ہیں جنہیں خدا نے تمہارا ماتحت کر دیا ہے۔ پس تم میں سے جس شخص کے تحت اس کا بھائی ہو تو اسے وہی کھلائے جو خود کھاتا ہے، وہ پہنائے جو خود پہنتا ہے اور اس کی طاقت سے زیادہ کام اس پر نہ ڈالے۔‘‘ (بخاری ص ۱ ج ۱)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مالک اور غلام کے درمیان معیار زندگی کی یکسانیت کی ہدایت فرمائی اور صحابہ کرامؓ نے اس پر عمل کر کے دکھایا۔ سوال یہ ہے کہ اگر مالک اور اس کے زرخرید غلام میں معیار زندگی کی برابری اسلام کا ایک روشن اصول ہے تو آج کا کارخانہ دار اپنے آزاد مزدور اور اپنے درمیان معیار زندگی کی مساوات کا اصول قبول کرنے سے کیوں جھجھکتا ہے؟ اور اگر خلافت راشدہ میں معیار زندگی کے لحاظ سے طبقاتی تقسیم کا کوئی وجود نہیں ہے بلکہ پہلے سے موجود طبقاتی تقسیم کی عمارت ڈھا کر اس کے کھنڈرات پر خلافت راشدہ کا غیر طبقاتی معاشرہ استوار کیا گیا ہے تو آج ایک ہی معاشرہ کے مختلف طبقات کے درمیان اس ہوشربا تفاوت کا کیا جواز ہے جس کا اندازہ شادمان کالونی اور کچی آبادی کے مکینوں کے درمیان معیار زندگی کے تفاوت پر ایک نظر ڈالنے سے بآسانی ہو سکتا ہے۔
اسی طرح دولت اور اس کے قومی ذرائع کی ترجیحانہ تقسیم بھی اسلام کے سراسر منافی ہے۔ انسان انفرادی طور پر جائز ذرائع سے جس قدر چاہے دولت کما لے لیکن دولت کے قومی ذرائع پر معاشرہ کے تمام افراد کا حق یکساں ہے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے خلیفہ بننے کے بعد جب بحرین وغیرہ سے آئے ہوئے مال کو مدینہ منورہ کے شہریوں میں برابر تقسیم کر دیا تو کچھ لوگوں نے اعتراض کیا کہ آپؓ نے فضیلت والے حضرات اور غیر فضیلت والے حضرات کو مساوی حصہ دیا ہے۔ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا کہ فضیلت کا معاملہ اللہ کے ساتھ ہے، اس کا ثواب وہ دیں گے وھذا معاش فالاسوۃ فیہ خیر من الاثرۃ (کتاب الخراج ص ۵۰) اور یہ معیشت ہے اس میں برابری کا اصول ترجیح سے بہتر ہے۔ اور خود جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے معیشت میں مساوات کی بنیاد پر دولت کی تقسیم کو صحیح اصول قرار دیا ہے۔ حضرت ابوسعید خدریؓ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہؐ نے قیامت سے پہلے امام مہدیؓ کے ظہور کا ذکر کیا اور فرمایا کہ جب وہ ظاہر ہوں گے خدا کی زمین ظلم و جور سے پر ہوگی اور امام مہدیؓ اسے عدل و انصاف سے بھر دیں گے۔ پھر آپؐ نے فرمایا کہ
و یقسم المال صحاحاً قال رجل ما صحاحاً قال بالسویۃ بین الناس رواہ احمد و ابو یعلی ورجالھما ثقات (مجمع الزوائد ص ۳۱۳ ج ۷)
امام مہدیؓ دولت کو صحیح طریقہ سے تقسیم کریں گے، ایک شخص نے پوچھا کہ صحیح طریقہ کیا ہے؟ فرمایا کہ لوگوں کے درمیان مساوات کی بنیاد پر۔
الغرض خلافت راشدہ کی طرز پر غیر طبقاتی معاشرہ کی تشکیل اور دولت کے قومی ذرائع کی مساویانہ تقسیم اسلام کے نظام عدل کی مستحکم بنیادیں ہے جس کے بغیر اسلامی نظام کے حقیقی نفاذ کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اور اسلامی نظام کی یہی بنیاد کمیونزم کے راستہ میں ناقابل شکست رکاوٹ بن سکتی ہے۔ ورنہ نوآبادیاتی دور کی یادگار موجودہ معاشرتی و معاشی ڈھانچہ کمیونزم کے چیلنج کا سامنا کرنے کی سکت نہیں رکھتا۔ ارباب اختیار، علماء کرام اورا سلامی نظام کے نفاذ کی دلی خواہش رکھنے والے عناصر اس حقیقت کا جتنی جلدی ادراک و اعتراف کر لیں ملک و قوم کے حق میں اتنا ہی بہتر ہوگا۔