ایک کہانی اور سہی!

   
۲۷ جنوری ۱۹۹۹ء

گورنر سرحد نے گزشتہ ہفتہ مالاکنڈ ڈویژن اور ضلع کوہستان میں ’’شرعی نظامِ عدل آرڈیننس ۱۹۹۹ء‘‘ کے نفاذ کا اعلان کیا ہے اور مختلف اخبارات میں اس سلسلہ میں شائع ہونے والی تفصیلات کے مطابق اس آرڈیننس کی رو سے ضلع سوات، ضلع دیر، ضلع چترال، ضلع کوہستان اور مالاکنڈ کے وفاق کے زیر اہتمام علاقے پر مشتمل خطے میں عدالتوں کو پابند کر دیا گیا ہے کہ وہ لوگوں کے مقدمات کے فیصلے شریعت اسلامیہ کے مطابق کریں گے جبکہ غیر مسلموں کے خاندانی مقدمات کے فیصلے ان کے مذہبی احکام کے مطابق ہوں گے۔ اس مقصد کے لیے قاضیوں کے تقرر کا اعلان کیا گیا ہے جن کی کوالیفیکیشن یہ بتائی گئی ہے کہ وہ کسی تسلیم شدہ اسلامی یونیورسٹی سے شریعت میں ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کر چکے ہوں یا ایم اے اسلامیات کے ساتھ انہوں نے شریعت کورس بھی کر لیا ہو۔ ان قاضی صاحبان کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ مقدمہ کی سماعت کے دوران کسی مستند عالم دین کو اپنے ساتھ مشاورت میں شریک کریں گے۔ جبکہ علمائے کرام کو مقدمات میں بطور وکیل پیش ہونے کی اجازت ہوگی۔ اس کے علاوہ اس سارے عمل کی نگرانی کے لیے پشاور ہائی کورٹ اور وفاقی شریعت کورٹ میں مالاکنڈ بینچ قائم کیے جائیں گے۔

آرڈیننس کا مکمل اردو متن کسی اخبار میں ہماری نظر سے نہیں گزرا البتہ مختلف قومی اخبارات نے مذکورہ بالا نکات کو بطور خاص شائع کیا ہے اور وزیراعلیٰ سرحد جناب مہتاب عباسی نے اس کے ساتھ ہی قوم کو یہ خوش خبری دی ہے کہ حکومت نے ملک میں نفاذ شریعت کا آغاز کر دیا ہے اور بہت جلد پورے ملک تک یہ سلسلہ وسیع کر دیا جائے گا۔

نفاذِ شریعت کی جدوجہد کے ایک کارکن کے طور پر اس پیشرفت کا خیرمقدم کرنے اور اس پر حکمرانوں کو مبارکباد پیش کرنے کو جی چاہتا ہے لیکن ماضی کے تجربات اور مستقبل کے خدشات نے ذہن میں تحفظات کا کچھ ایسا تانابانا بن رکھا ہے کہ خیرمقدم اور مبارکباد کے الفاظ زبان اور قلم کی نوک پر بار بار آکر رک جاتے ہیں اور انہیں اس سے آگے بڑھنے کا حوصلہ ہی نہیں ہوتا۔ ماضی کے تجربات کا دامن بڑا وسیع ہے اور اس میں ملک گیر سطح پر نافذ ہونے والے نصف درجن کے لگ بھگ آرڈیننسوں کے علاوہ مالاکنڈ کے اسی خطے میں چند سال قبل نافذ ہونے والا شریعت آرڈیننس بھی موجود ہے۔ یہ سب آرڈیننس وقتاً فوقتاً نافذ ہوئے، ان پر شادیانے بجائے گئے، قوم کو اصلاحِ احوال کی خوشخبریاں دی گئیں اور خدمتِ اسلام کے بڑے بڑے تمغے حکمرانوں نے اپنے اپنے سینوں پر سجائے مگر نتیجہ وہی ’’ڈھاک کے تین پات‘‘ کے سوا کچھ نہیں برآمد ہوا اور ان میں سے کوئی آرڈیننس بھی قوم کو نہ امن فراہم کر سکا اور نہ ہی اس کی دیگر مشکلات میں کوئی کمی لا سکا۔

مستقبل کے خدشات بھی ماضی کے انہی تجربات کی کوکھ سے جنم لے رہے ہیں اور ان کو سامنے لائے بغیر گورنر سرحد کے اس اقدام کے بارے میں شرح صدر کے ساتھ کچھ کہنا ممکن ہی نہیں ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ افغانستان میں اسلامی نظام کے نفاذ اور اس کے نتائج و ثمرات کو دیکھتے ہوئے ہماری اسٹیبلشمنٹ نے پیش بندی کا فیصلہ کر لیا ہے اور یہ حکمت عملی اختیار کی ہے کہ نوآبادیاتی سسٹم کو بچانے کے لیے سعودی عرب کی طرز پر صرف عدالتی نظام کو نفاذ شریعت کی تجربہ گاہ بنا دیا جائے اور وہ بھی سارے ملک میں یکبارگی نہیں بلکہ دھیرے دھیرے اس کام کو آگے بڑھایا جائے۔ سعودی عرب میں یہی ہے کہ عدالتی نظام اسلامی ہے مگر اس کے علاوہ معیشت، سیاست اور ایڈمنسٹریشن کے قومی شعبے اسلامی تعلیمات کی پابندی سے آزاد اور فردِ واحد یا زیادہ سے زیادہ ایک خاندان کے تابع فرمان ہیں۔ البتہ عدالتی شعبے میں شرعی قوانین کے نفاذ کا فائدہ یہ ہے کہ جرائم پر کافی حد تک کنٹرول ہے اور سعودی عرب میں جرائم کی شرح دوسرے کئی ممالک سے بہت کم ہے، لگتا ہے کہ ہمارے حکمران اسی تجربہ کو دہرانا چاہتے ہیں جس میں انہیں تین واضح فائدے دکھائی دے رہے ہیں:

  • امن و امان کی صورتحال بہتر ہوگی اور جرائم پر کسی حد تک کنٹرول ہو جائے گا۔
  • علمائے کرام کی ایک بڑی تعداد اس عمل میں کھپ جائے گی اور قومی زندگی کے دیگر شعبوں میں شرعی قوانین پر عملدرآمد کے مطالبات جدوجہد ڈھیلی پڑ جائے گی۔
  • عدالتی شعبے کے سوا باقی تمام امور میں فرنگی دور کا چھوڑا ہوا نوآبادیاتی نظام محفوظ رہے گا اور اس سے مفادات حاصل کرنے والے طبقات کی موجودہ پوزیشن میں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

اس کا ایک بڑا فائدہ عالمی قوتوں کو بھی حاصل ہو سکتا ہے کہ جنوبی ایشیا میں ان کے مفادات پر کوئی زد نہیں پڑے گی اور کاروبار زندگی یوں ہی چلتا رہے گا اور اس کے ساتھ ہی افغانستان میں طالبان کا اسلامی انقلاب بھی اپنے ملک کی حدود سے تجاوز نہیں کر سکے گا جس کا دائرہ وسیع ہونے کا خوف بڑی طاقتوں اور ہمارے ملک کے مراعات یافتہ طبقوں کو مسلسل اضطراب سے دوچار کیے ہوئے ہے۔

یہ سب فوائد ضروری نہیں ہے کہ حاصل ہوں مگر ہماری اسٹیبلشمنٹ کے شہ دماغ یہی سمجھ رہے ہیں کہ وہ عدالتی شعبے میں شرعی قوانین کی دھیرے دھیرے اور ’’کنٹرولڈ‘‘ پیشرفت کے ساتھ وہ نتیجہ حاصل کر لیں گے جسے محاورے کی زبان میں ’’سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی بچ جائے‘‘ کے الفاظ میں بیان کیا جاتا ہے۔ لیکن کیا عملاً ایسا ہوگا؟ اور کیا ان اقدامات کے ذریعے ملک میں امن و امان کے قیام اور جرائم پر کنٹرول کا مقصد حاصل ہو جائے گا؟ ہمارا خیال ہے کہ ایسا نہیں ہوگا اور پاکستان کے حالات کو سعودی عرب پر قیاس کرنا دانشمندی کی بات نہیں ہوگی۔ اس لیے کہ سعودی عرب میں جس وقت یہ نظام طے ہو رہا تھا اسی وقت یہ طے پا گیا تھا قومی زندگی کے مذہبی، عدالتی اور تعلیمی شعبوں پر آل شیخ (شیخ محمد بن عبد الوہاب نجدی کا خاندان) کا کنٹرول ہوگا اور باقی سب امور آل سعود (سعودی شاہی خاندان) کے سپرد ہوں گے اور وہ بادشاہت کے عنوان سے ملک کا نظام چلائیں گے، اس وقت عالم اسلام اور عالم عرب کی شکست و ریخت کا دور تھا، خلافت عثمانیہ بکھر گئی تھی اور مغربی طاقتیں خلیج عرب میں مکمل طور پر براجمان ہو گئی تھیں۔ اس لیے دینی حلقوں نے سب کچھ جاتا دیکھ کر کچھ نہ کچھ باقی رہنے پر قناعت کر لی مگر اب صورت حال بدل چکی ہے۔ خلیج پر امریکہ کے مکمل تسلط کے باوجود خود سعودی عرب کے اندر اس نظام کے خلاف دینی حلقے بغاوت کر چکے ہیں، علماء قربانیاں دے رہے ہیں، متعدد اکابر علماء جیلوں میں ہیں اور بہت سے دانشور جلاوطن ہیں جبکہ سعودی عرب میں مکمل اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے اسامہ بن لادن کی صورت میں ایک جاندار اور توانا آواز عالمی فورم پر موجود ہے، اس لیے آج کے دور میں پاکستان کو سعودی عرب کے پون صدی پہلے کے ماحول پر قیاس کرنا اور خود سعودی عرب میں امریکہ کی عسکری قوت کی بنیاد پر مصنوعی تنفس کے سہارے زندگی کے دن گزارنے والے نظام کا پاکستان میں تجربہ کرنے کی خواہش کرنا کم از کم الفاظ میں حماقت ہی کہلائے گا۔

اس گزارش کے بعد ہم دو عملی الجھنوں کی طرف بھی اس آرڈیننس کے حوالہ سے توجہ دلانا چاہیں گے۔ ایک تو وہی کہ قومی زندگی کے باقی شعبوں مثلاً معیشت، قانون سازی، ایڈمنسٹریشن اور دیگر معاملات میں مروجہ نوآبادیاتی نظام باقی رہے گا تو صرف عدالتی شعبے کے اسلامی نظام کی اس کے ساتھ ایڈجسٹمنٹ کیسے ہوگی؟ یہ تو ایسے لگتا ہے کہ جیسے کسی شوقین مزاج ڈرائیور کو ہنڈا کار کا گیئر بکس اچھا لگا ہے اور وہ اسے فورڈ ٹرک میں فٹ کر کے اسٹیئرنگ سنبھالنے کے لیے بے تاب ہو رہا ہے کہ دیکھوں اب گاڑی کتنی اچھی چلتی ہے۔ یا کسی من چلے نواب کو مس ورلڈ کی ناک بھا گئی ہے اور وہ مچل رہا ہے کہ کسی طرح اسے ناک کا معاوضہ دے کر پلاسٹک سرجری کے ذریعے اس کی ناک اپنے چہرے پر فٹ کرا لے۔ اب انہیں کون سمجھائے کہ ہنڈا کار کا گیئربکس بہت اچھا ہے مگر اس کے صحیح کام کرنے کے لیے باقی مشنری بھی اسی کار کی ضروری ہے ورنہ اس کی اچھائی کسی کام کی نہیں رہے گی اور اسی طرح مس ورلڈ کی ناک بہت خوبصورت ہے مگر اس کی تمام تر خوبصورتی اسی چہرے کے ساتھ ہے اور اسے کسی اور چہرے پر فٹ کرنے سے اس کا سارا حسن خاک میں مل کر رہ جائے گا۔ اس لیے اسلام کا عدالتی نظام فی الواقع بہت اچھا ہے اور بلاشبہ امن کا ضامن ہے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ قومی زندگی کے دیگر سب شعبے بھی اسلامی احکام کی پابندی میں اس کے ساتھ ہم آہنگ ہوں ورنہ صرف عدالتوں کا شرعی نظام قوم کو وہ نتائج نہیں دے سکے گا جس کی خوشخبریاں ہمارے حکمران قوم کو مسلسل سنا رہے ہیں۔

دوسری عملی الجھن یہ ہے کہ مالاکنڈ ڈویژن اور ضلع کوہستان میں الگ طور سے نافذ کیا جانے والا یہ عدالتی نظام جیسا کہ نظر آرہا ہے کہ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے موجودہ نظام کے تابع ہے اور اس سلسلہ میں فائنل اتھارٹی مروجہ نظام کو ہی حاصل ہے۔ اگر یہی بات ہے تو پھر الگ نظام کا فائدہ کیا ہے؟ یہ ناکام تجربہ تو ہم پہلے ہی ملک گیر سطح پر کر چکے ہیں کیونکہ وفاقی شرعی عدالت کے متعدد فیصلے سپریم کورٹ کے فریزر میں منجمد پڑے ہیں اور سپریم کورٹ قرارداد مقاصد کے حوالہ سے اپنے فیصلے میں قطعی طور پر یہ قرار دے چکی ہے کہ وہ قرآن و سنت کی غیر مشروط بالادستی ماننے کو تیار نہیں ہے۔ اس لیے اگر مالاکنڈ ڈویژن اور ضلع کوہستان کی شرعی عدالتوں کے فیصلوں نے بھی اسی ’’ریڈ لائن‘‘ پر جا کر پھڑپھڑا کر رہ جانا ہے تو پھر اس سارے کھیل کا مقصد کیا ہے؟

الغرض شریعت اسلامیہ کا نفاذ کئی حوالوں سے ہماری سب سے اہم قومی ضرورت بن چکا ہے۔ اس لیے بھی کہ ہم مسلمان ہیں اور قرآن و سنت کے احکام کے انفرادی اور اجتماعی زندگی کے تمام شعبوں میں اپنے عقیدہ کے لحاظ سے پابند ہیں، اس لیے بھی کہ پاکستان کا مقصدِ قیام ہی اسلامی معاشرے کا قیام ہے جو مکمل اسلامی نظام کے عملی نفاذ کے بغیر ممکن نہیں ہے، اس لیے بھی کہ امن کے قیام اور قومی وحدت کے بچاؤ کے لیے اسلامی اصولوں اور قوانین کے سوا ہمارے پاس کوئی چارۂ کار باقی نہیں رہا، اور اس لیے بھی کہ شمال مغربی سرحد کے ساتھ ساتھ اسلامی نظام کے عملی نفاذ اور اس کے نتیجہ میں امن کے قیام کا واضح نقشہ سامنے آنے کے بعد اب اسے مزید ٹالنے کی کوئی گنجائش نظر نہیں آرہی۔ مگراسلام

  • جزوی نہیں بلکہ مکمل،
  • دکھاوے کا نہیں بلکہ عملی،
  • اور موجودہ نوآبادیاتی سسٹم کے ساتھ ایڈجسٹمنٹ کی شکل میں نہیں بلکہ اس کے مکمل خاتمے کے بعد اس کی جگہ لینے کی صورت میں

آئے گا تو بات بنے گی۔ ورنہ نفاذ شریعت آرڈیننسوں کی کہانیاں تو ہم ایک عرصہ سے سنتے آرہے ہیں، ایک کہانی اور سہی!

   
2016ء سے
Flag Counter