گزشتہ ہفتے کے دوران برطانیہ میں ندوۃ العلماء لکھنو کے استاذ الحدیث مولانا سید سلمان حسنی ندوی کے ساتھ جن اداروں میں جانے کا اتفاق ہوا ان میں سے چند کا تذکرہ قارئین کی معلومات کے لیے مناسب معلوم ہوتا ہے۔
جامعہ الہدٰی نوٹنگھم میں ہمارا قیام تھا اور اس کے پرنسپل مولانا رضاء الحق سیاکھوی ہمارے میزبان تھے۔ یہ ادارہ نوٹنگھم کے وسط میں ’’فارسٹ ہاؤس‘‘ نامی ایک بڑی بلڈنگ خریدکر قائم کیا گیا ہے جہاں پہلے محکمہ صحت کے دفاتر تھے۔ خوبصورت اور مضبوط بلڈنگ ہے، چار منزلہ عمارت میں اڑھائی سو کے لگ بھگ کمرے ہیں اور اس کے چاروں طرف ہاؤس کی اپنی زمین میں سرسبز پارک ہیں۔ جامعہ الہدٰی کے انتظامات مدنی ٹرسٹ کے ہاتھ میں ہیں جس کے تین بڑے ذمہ دار ڈاکٹر اختر الزمان غوری، مولانا رضاء الحق سیاکھوی اور بھائی محمد امین آزاد کشمیر کے علاقہ میرپور سے تعلق رکھتے ہیں۔ مولانا رضاء الحق آزاد کشمیر کے بزرگ عالم دین مولانا محمد ابراہیم سیاکھویؒ کے پوتے ہیں اور جامعہ کے پرنسپل ہیں۔
جامعہ میں بچیوں کی دینی تعلیم کے دو کورس جاری ہیں۔ ایک کورس گیارہ سال سے زائد عمر کی طالبات کے لیے سات سال کا ہے جس میں سکول کی مروجہ سرکاری تعلیم کے ساتھ ساتھ قرآن و حدیث، فقہ اور عربی و اردو زبانوں کی تعلیم دی جاتی ہے۔ دوسرا کورس سولہ سال سے زائد عمر کی طالبات کے لیے دو سال کا ہے جس میں انہی مضامین کو اختصار کے ساتھ سمو دیا گیا ہے۔ طالبات کی رہائش جامعہ میں ہی ہوتی ہے۔ اس وقت تین کلاسیں چل رہی ہیں جن میں مجموعی طور پر پچاس سے زائد طالبات ہیں جبکہ اس سال ستمبر سے دو کلاسیں اور شامل ہو رہی ہیں۔
جامعہ الہدٰی میں ’’اسلامک ہوم اسٹڈی کورس‘‘ کے نام سے دینی تعلیم کا خط و کتابت کورس بھی جاری ہے جو اسلام آباد کی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے شعبہ دعوہ اکیڈمی کے تعاون سے ورلڈ اسلامک فورم کی رہنمائی میں شروع کیا گیا ہے۔ یہ دو سالہ کورس ہے جو اردو اور انگلش دو زبانوں میں کرایا جاتا ہے اور اسلامی عقائد ، عبادات، معاملات، اخلاق، سیرت نبویؐ اور تاریخ اسلام جیسے اہم امور پر مشتمل ہے۔ اس وقت اس کورس میں برطانیہ اور یورپ کے دوسرے ممالک سے اڑھائی ہزار کے قریب طلبہ اور طالبات شریک ہیں جبکہ ضلع گوجرانوالہ سے تعلق رکھنے والے مولانا اورنگزیب خان اس کورس کے ڈائریکٹر ہیں۔
جامعہ الہدٰی کے سرپرست مفکر اسلام مولانا سید ابوالحسن علی ندوی ہیں اور جامعہ کا تعلیمی نظام ندوۃ العلماء لکھنو کی طرز پر چلایا جا رہا ہے۔ جبکہ اس کے تعلیمی مشاورتی بورڈ میں مولانا سید سلمان حسنی ندوی (لکھنوء)، ڈاکٹر محمود احمد غازی (اسلام آباد)، ڈاکٹر محمد طفیل ہاشمی (اسلام آباد)، راقم الحروف ابوعمار زاہد الراشدی (گوجرانوالہ) اور مولانا عیسیٰ منصوری (لندن) شامل ہیں۔
نوٹنگھم شہر سے کچھ فاصلے پر فلنتھم کے مقام پر جامعہ اسلامیہ میں جانے کا اتفاق ہوا اور مولانا سید سلمان حسنی نے طلبہ اور اساتذہ کے اجتماع سے وہاں خطاب کیا۔ اس جامعہ کے بانی و مہتمم مولانا کمال خان سوات سے تعلق رکھتے ہیں، تبلیغی جماعت کے اہم حضرات میں سے ہیں اور درس نظامی کی تعلیم کے لیے یہ ادارہ قائم کیے ہوئے ہیں۔ جامعہ اسلامیہ میں درس نظامی کا مکمل کورس پڑھایا جاتا ہے اور اس کے ساتھ حفظ قرآن کریم اور سکول کی مروجہ ضروری تعلیم بھی دی جاتی ہے۔ اس وقت جامعہ میں پونے دو سو کے لگ بھگ طلبہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں، رہائشی تعلیمی ادارہ ہے اور مولانا محمد کمال خان کے ساتھ تجربہ کار اساتذہ کی ایک ٹیم مصروف کار ہے۔
نوٹنگھم ہی سے کچھ فاصلے پر بریڈ فورڈ میں جامعۃ الکرم میں جانے کا موقع ملا اور وہاں کے تعلیمی نظام کا جائزہ لیا۔ یہ ادارہ حضرت مولانا پیر محمد کرم شاہ الازہریؒ کی سرپرستی اور راہنمائی میں قائم کیا گیا تھا اور ضلع جھنگ سے تعلق رکھنے والے پیرزادہ محمد امداد حسین صاحب اس کے منتظم اور پرنسپل ہیں۔ یہ جامعہ جس بلڈنگ میں قائم کیا گیا ہے وہ برٹش فضائیہ کے آفیسرز کے لیے اکیڈمی کے طور پر تعمیر کی گئی تھی اور جامعہ الکرم کی انتظامیہ نے نیلامی میں اسے خرید کر دینی تعلیم کا ادارہ قائم کر دیا ہے۔ خوبصورت، وسیع اور مضبوط بلڈنگ ہے جس کے ساتھ ایک کھلا سرسبز میدان بھی ہے۔ جامعۃ الکرم میں پیر محمد کرم شاہ صاحب کے بھیرہ والے دارالعلوم کی طرز پر درس نظامی کا نصاب پڑھایا جاتا ہے اور یہاں کے فارغ التحصیل طلبہ جامعہ ازہر قاہرہ میں تعلیم کی تکمیل کے لیے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ سکول کی مروجہ تعلیم کی کلاسیں بھی ہیں جس کے تعلیمی نصاب میں ضروری دینی تعلیم کو سمو دیا گیا ہے اور اس وقت ڈیڑھ سو کے قریب طلبہ مجموعی طور پر زیر تعلیم ہیں۔
برمنگھم میں چار ادارے دیکھنے کا موقع ملا، تین مسلمانوں کے اور ایک غیر مسلموں کا۔ مسلم اداروں میں یمن سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کا تعلیمی ادارہ معاذ ویلفیئر سوسائٹی، بنگلہ دیش کے مسلمانوں کا دارالعلوم اور جمعیۃ اہل حدیث برطانیہ کا مرکزی دفتر شامل ہیں۔ جبکہ ان کے علاوہ ہم نے برمنگھم میں سوہو روڈ پر واقع سکھوں کا بہت بڑا گوردوارہ بھی دیکھا اور سکھ کمیونٹی کی مذہبی سرگرمیوں سے آگاہی حاصل کی۔
معاذ ٹرسٹ ایک تعلیمی اور رفاہی ادارہ ہے جہاں مسلمانوں اور خاص طور پر عربوں کی دینی تعلیم اور ان کی رفاہی خدمات کا اہتمام کیا جاتا ہے، اور طالبات کے لیے شام کا سکول جاری ہے جس میں اس وقت سات سو کے لگ بھگ طالبات شریک ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف کورسز کا اہتمام کیا جاتا ہے اور عرب کمیونٹی کی راہنمائی کی جاتی ہے تاکہ وہ اپنے دینی عقائد اور ثقافت کے ساتھ وابستہ رہیں۔ اس ادارے کا اہتمام یمن سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کے ہاتھ میں ہے لیکن تعلیمی اور رفاہی پروگرام میں دوسرے ممالک کے مسلمان بھی شریک ہوتے ہیں اور انہیں متعلقہ سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔ ہم نے اتنا منظم تعلیمی کام اور کہیں نہیں دیکھا، درس نظامی کے مکمل نصاب کے علاوہ سکول کی مروجہ تعلیم کا بھی انتظام ہے اور دارالعلوم کے مہتمم مولانا عبد الرحیم نے دارالعلوم کی سند کو بہت سی یونیورسٹیوں سے تسلیم کرا رکھا ہے جس سے طلبہ استفادہ کر رہے ہیں۔ ہم نے ایک چھوٹے سے کمرہ میں سائنس کی کلاس اٹینڈ کی جس میں ایک مقامی یعنی انگریز استاد مصروف تدریس تھا۔ ہمیں بتایا گیا کہ گزشتہ سال دارالعلوم سے فارغ ہونے والی پوری کلاس اس وقت جامعہ ازہر قاہرہ میں تعلیم حاصل کر رہی ہے۔
جمعیۃ اہل حدیث برطانیہ کے ہیڈ آفس میں جمعیۃ کے امیر مولانا عبد الہادی العمری اور ان کے رفقاء کار مولانا حفیظ اللہ خان اور مولانا محمد شعیب میرپوری سے ملاقات ہوئی۔ اول الذکر دونوں حضرات حیدر آباد (بھارت) سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ آخر الذکر کا تعلق میرپور (آزادکشمیر) سے ہے۔ یہ دفتر پورے برطانیہ میں اہل حدیث جماعت کی سرگرمیوں کی نگرانی اور راہنمائی کرتا ہے اور دینی اجتماعات اور روابط کا اہتمام کرتا ہے۔ جمعیۃ اہل حدیث کی طرف سے اردو اور انگلش میں صراط مستقیم کے نام سے ایک مجلہ بھی شائع ہوتا ہے اور اس کے علاوہ بھی لٹریچر کی اشاعت و تقسیم کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔
برمنگھم میں ہمیں سکھوں کا گوردوارہ بھی دیکھنے کا موقع ملا جو سوھو روڈ پر واقع ہے اور برطانیہ کے بڑے گوردواروں میں شمار ہوتا ہے۔ گوردوارہ میں مسجد کی طرز پر ماحول کو مقدس رکھنے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ جوتے اتار کر اور سر ڈھانپ کر اندر جا سکتے ہیں۔ عبادت کے ہال میں قالین پر دھلی ہوئی چادریں بچھی ہوتی ہیں جن پر بڑے ادب کے ساتھ بیٹھ کر لوگ گرنتھ صاحب سنتے ہیں۔ گرنتھ صاحب سکھوں کی مذہبی کتاب ہے جو بابا گورونانک سے لے کر دسویں اور آخری گرد گوبند سنگھ کی تعلیمات پر مشتمل ہے اور اس کے بارے میں سکھوں کا عقیدہ ہے کہ یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ان گروؤں پر نازل ہوئی تھی۔ اس گوردوارے میں شب و روز گرنتھ صاحب پڑھی جاتی رہتی ہے۔ بڑے ہال میں ایک تخت پر مذہبی راہنما باری باری اسے تسلسل کے ساتھ پڑھتے ہیں اور لوگ سامنے بیٹھے اسے ادب کے ساتھ سنتے ہیں۔ ہمیں بتایا گیا کہ اڑتالیس گھنٹے میں ایک بار گرنتھ صاحب مکمل ہوتی ہے اور اس کے ساتھ ہی اسے دوبارہ پڑھنا شروع کر دیا جاتا ہے۔
گرنتھ صاحب کی مسلسل قراءت کے علاوہ دوسرا بڑا کام جو ہم نے وہاں دیکھا وہ لنگر کا ہے جس کے لیے بہت سے کمرے وقف ہیں اور لوگ کچھ نہ کچھ کھا پی رہے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہ عمل بھی مسلسل جاری رہتا ہے اور ہر شخص وہاں آکر کھا پی سکتا ہے جس کا کوئی معاوضہ نہیں لیا جاتا، البتہ اپنی طرف سے خوشی کے ساتھ جو چاہے حصہ ڈال سکتا ہے۔
سکھ مذہب کے بانی بابا گورونانک ہندوؤں کی بت پرستی اور طبقاتی تقسیم سے باغی ہو کر توحید کے علمبردار ہوگئے تھے اور انہوں نے مسلمان صوفیاء بالخصوص بابا فریدؒ سے بھی استفادہ کیا تھا۔ لگتا ہے کہ انہوں نے نئے مذہب میں صوفیاء کرام کے اس خانقاہی نظام کی پیروی کی ہے کیونکہ مسلسل ذکر اور لنگر کا یہ امتزاج خانقاہی نظام ہی کی خصوصیت ہے۔