رائے ونڈ کے سالانہ تبلیغی اجتماع میں مختصر حاضری

   
۱۶ نومبر ۲۰۲۲ء

اس بار رائے ونڈ کے سالانہ عالمی تبلیغی اجتماع کی ترتیب میں گوجرانوالہ کا حلقہ شامل نہیں تھا مگر غیر حاضری کو جی نہیں چاہا اور ۱۲ نومبر ہفتہ کو مغرب کے بعد تھوڑی دیر کے لیے شرکت کی سعادت حاصل ہو گئی۔ میرا عزیز پوتا حافظ محمد ہلال خان ناصر اور رفیقِ سفر حافظ شاہد الرحمٰن میر ہمراہ تھے۔ چھوٹے پوتے ابدال خان سے چلنے کو کہا تو بولا پچھلے سال آپ کے ساتھ گیا تھا وہاں لوگ آپ کو گھیر لیتے ہیں اس لیے اس سال میں نے نہیں جانا۔

وہاں پہنچ کر کوشش تو یہ تھی کہ خاموشی کے ساتھ کسی حلقہ میں تھوڑی دیر بیٹھ کر جو بیان ہو رہا ہو وہ سن لیں اور پھر واپسی کریں، مگر پنڈال کے ایک حلقہ کے سامنے سے گزرتے ہوئے شنگریلا کے مولانا شاکر اللہ نے دیکھ لیا اور اصرار کیا کہ ہمارے حلقہ میں چلیں، میں نے کہا کہ صرف تھوڑی دیر بیان سننا چاہتا ہوں تو کہنے لگے کہ ہمارے حلقہ میں لاؤڈ اسپیکر کا انتظام اچھا ہے بیان سنا جا سکتا ہے، چنانچہ ان کے حلقہ میں جا کر بیٹھ گئے اور ان کی طرف سے اکرام کا لطف اٹھانے کے ساتھ ساتھ کچھ بیان بھی سن لیا۔ میں نے پوچھا کہ کون بزرگ بیان کر رہے ہیں تو بتایا کہ حضرت مولانا محمد ابراہیم دیولا ہیں۔ مولانا محترم انڈیا کے اکابر علماء کرام میں سے ہیں اور تبلیغی جماعت کے بڑوں میں شمار ہوتے ہیں۔

مولانا محمد ابراہیم دیولا اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی شکرگزاری پر گفتگو فرما رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ بہت قدردان ہیں کہ اعمالِ خیر کے ساتھ ساتھ ان کے اسباب اختیار کرنے پر بھی اجر عطا فرماتے ہیں۔ مثلاً‌ نماز عبادت ہے مگر نماز سے متعلقہ ہر عمل پر ثواب ملتا ہے حتٰی کہ نماز کے لیے مسجد میں جانے پر قدم بھی شمارے ہوتے ہیں اور ہر قدم پر اللہ تعالیٰ اجر عطا فرماتے ہیں۔ اسی طرح خیر کا جو عمل بھی آپ کریں اور اس کے لیے جو اسباب بھی اختیار کریں اللہ تعالیٰ ان سب پر اجر و ثواب عطا فرماتے ہیں جو کہ قدردانی کی انتہا ہے۔ جبکہ ہم بہت ناقدردان لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور احسانات پر ناشکری کرتے ہیں اور اس کے باوجود اللہ رب العزت کی طرف سے نعمتوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔

دعوت و تبلیغ کی محنت کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ امیر التبلیغ حضرت مولانا محمد یوسف رحمہ اللہ تعالیٰ فرمایا کرتے تھے کہ اس محنت کے نتیجے میں سب سے پہلے عبادات کا ماحول زندہ ہو گا اس لیے کہ کلمہ طیبہ کے بعد پہلا نمبر نماز کا ہے جو سب سے بڑی عبادت ہے۔ اور ہم دنیا بھر میں دیکھ رہے ہیں کہ جہاں بھی دعوت و تبلیغ کی محنت ہوتی ہے عبادات کا ماحول بہتر ہو جاتا ہے جو اس کام کی قبولیت کی علامت ہے اور ہم اس پر اللہ تعالیٰ کے شکرگزار ہیں۔

انہوں نے کہا کہ دعوت و تبلیغ کی محنت کا اصل ہدف یہ ہے کہ مسلمانوں کی زندگی کی ترتیب بدل جائے۔ ہمارے ہاں عام طور پر دنیا کو ترجیح ہوتی ہے اور اس کی خاطر دین کے کام موخر ہو جاتے ہیں۔ جبکہ ہماری اصل ترتیب یہ ہے کہ دین کے کاموں کو مقدم رکھا جائے اور دین و دنیا کے معاملات میں دین کو ترجیح دی جائے۔ اگر زندگی کی ترتیب میں یہ تبدیلی آجائے تو ہمارے تمام معاملات صحیح رخ پر آجاتے ہیں اور کامیابی اور نجات کے راستے کھل جاتے ہیں، بلکہ ہم جن مسائل اور مشکلات سے دوچار رہتے ہیں ان کے حل اور ان سے نجات بھی زندگی کی ترتیب میں اسی تبدیلی سے آئے گی۔ اس لیے ہم سب کو اپنی زندگی، اعمال اور معاملات کی ترتیب اور ترجیحات پر نظرثانی کرنی چاہیے کہ دین و دنیا دونوں حوالوں سے ہمارے لیے فلاح کا راستہ یہی ہے۔

ہمارے میزبان مولانا شاکر اللہ نے بتایا کہ وہ جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں پڑھتے رہے ہیں اس لیے انہیں اس اچانک ملاقات پر بے حد خوشی ہوئی ہے۔ ان کے حلقہ کے دیگر حضرات نے بھی بہت احترام و اکرام کیا ۔ اس مختصر حاضری کے بعد واپسی میں جلدی کی کہ کوئی اور ساتھی پہچان کر نہ روک لے جس سے اگلی ترتیب خراب ہونے کا خدشہ تھا۔

میں اکثر عرض کیا کرتا ہوں کہ دین کی جدوجہد کے بہت سے میدان ہیں جو سب صحیح اور ضروری ہیں، جس شعبہ میں بھی کوئی دوست کام کر رہا ہے وہ دین کا کام کر رہا ہے، بشرطیکہ دوسرے شعبوں کے ساتھ تعاون کا مزاج بھی رکھتا ہو یا کم از کم دینی جدوجہد کے کسی دوسرے شعبے اور رجال کار کے بارے میں منفی احساسات سے دور رہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے اپنے دائرہ میں دینی جدوجہد کے لیے کچھ نہ کچھ کرتے رہنے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter