یاسر عرفات کی وفات سے فلسطین کی تحریک آزادی کا ایک دور ختم ہوگیا ہے اور اب یہ ان کے سیاسی جانشینوں پر منحصر ہے کہ وہ آزادیٔ فلسطین کی جدوجہد کو کس انداز سے آگے بڑھاتے ہیں۔ یاسر عرفات نے اس دور میں تحریک آزادیٔ فلسطین کا پرچم اٹھایا جب خلافت عثمانیہ کے خاتمہ کے بعد فلسطین پر برطانیہ نے تسلط جما لیا تھا۔ اور برطانوی حکومت یہودیوں کے ساتھ کیے گئے اس وعدہ کی تکمیل کے لیے سرگرم عمل تھی کہ وہ انہیں فلسطین میں آباد ہونے اور اپنا الگ قومی وطن قائم کرنے میں مدد دے گی۔ چنانچہ برطانیہ نے اپنا وعدہ پورا کیا اور برطانوی تسلط کے دور میں نہ صرف دنیا بھر سے آنے والے لاکھوں یہودیوں کو فلسطین میں آباد ہونے کا موقع فراہم کیا بلکہ ان کے الگ وطن کی تشکیل کی راہ ہموار کی۔ حتیٰ کہ برطانیہ نے فلسطین پر اپنا قبضہ اس وقت ختم کیا جب وہاں یہودیوں کا الگ وطن عملاً قائم ہو چکا تھا اور اقوام متحدہ کے فورم پر اسے دنیا سے تسلیم کرایا جا چکا تھا۔ اس وقت فلسطین کے مفتی اعظم الحاج امین الحسینی مرحوم تھے جو فلسطین کی آزادی اور خودمختاری کے تحفظ اور فلسطینیوں کے حقوق کو یہودیوں کی دست برد سے بچانے کے لیے مصروف عمل تھے۔ یاسر عرفات کا تعلق اسی حسینی خاندان سے تھا اور اسی دور میں وہ فلسطین کی آزادی کی جدوجہد میں ایک نوجوان کارکن کی حیثیت سے شریک ہوئے۔
فلسطینیوں کے ساتھ پہلا ظلم تو یہ ہوا کہ ان کی سرزمین پر باہر سے یہودیوں کو لا کر بسایا گیا او رانہیں اپنے ہی گھر میں بے گھر کر دیا گیا۔ دوسرا ظلم یہ ہوا کہ جب اقوام متحدہ نے فلسطین کو تقسیم کر کے یہودیوں کے قومی وطن کے لیے اس کا ایک حصہ مخصوص کر دیا تو ان کی یہودیوں کی حکومت تو عالمی سرپرستی میں قائم کروا دی گئی لیکن جو حصہ فلسطینیوں کے قومی وطن کے لیے مخصوص کیا گیا اس میں فلسطینیوں کی حکومت بنوانے میں کوئی دل چسپی نہ لی گئی۔ بلکہ سرے سے اس کے امکانات ختم کرنے کے لیے فلسطین کے اس خطہ کو اردن، شام اور مصر میں تقسیم کر دیا گیا اور فلسطین کے اپنے باشندوں کی حیثیت امریکہ کے ان ’’ریڈ انڈینز‘‘ کی طرح ہوگئی جو اس براعظم میں یورپی آباد کاروں کی آمد اور ان کے تسلط کے بعد اپنے ہی وطن میں بے گھر اور اجنبی ہو گئے تھے اور ان کا قومی تشخص آہستہ آہستہ تاریخ کے دھندلکوں میں گم ہو کر رہ گیا تھا۔
فلسطین کو تقسیم کر کے اس کے ایک حصے میں یہودیوں کا قومی وطن بنوانے والوں کی بدنیتی اسی سے ظاہر ہوگئی تھی کہ وہ یہودیوں کا وطن بنوانے میں سنجیدہ ہیں لیکن فلسطینیوں کا الگ وطن قائم کروانے کے خواہشمند نہیں ہیں۔ ورنہ اگر اسی وقت یہودیوں کی طرح فلسطینیوں کی بھی کوئی الگ حکومت عالمی سرپرستی میں قائم کرا دی جاتی اور اقوام متحدہ اسے اسرائیل کی طرح تحفظ فراہم کرتی تو اصولی طور پر غلط یا صحیح ہونے کی بحث سے قطع نظر یہ مسئلہ عملی طور پر اسی وقت حل ہو چکا ہوتا۔ لیکن اگر ایسا ہو جاتا تو مڈل ایسٹ کے حوالہ سے امریکہ اور مغرب کے اس ایجنڈے کا کوئی جواز باقی نہ رہ جاتا جس پر گزشتہ نصف صدی سے مسلسل عمل ہو رہا ہے اور جس کی تباہ کاریاں پوری دنیا کے امن کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہیں۔
اس پس منظر میں یاسر عرفات اور اس طرح کے دیگر فلسطینی لیڈروں کی جدوجہد کا سب سے بڑا ہدف فلسطینیوں کے جداگانہ تشخص اور حقوق کو دنیا سے تسلیم کرانا اور فلسطین کو اسرائیل اور دیگر عرب ممالک کی بندر بانٹ میں تحلیل ہونے سے بچانا تھا۔ اور اس بات میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہےکہ اگر اس وقت چند سرفروش اور جانباز فلسطینی اپنی جانوں پر کھیل کر فلسطین کی مسلح تحریک آزادی کا آغاز نہ کرتے تو جس فلسطین کے ایک حصے کو یہودیوں کے قومی وطن کے طور پر اسرائیل کا نام دے دیا گیا تھا اس کا باقی ماندہ حصہ رفتہ رفتہ اردگرد کے عرب ممالک کی جغرافیائی سرحدوں میں گم ہو جاتا اور ریڈ انڈینز کی طرح فلسطینی بھی تاریخ کا ایک گمشدہ باب بن کر رہ جاتے۔
اس وقت کی معروضی صورتحال یہ تھی کہ اسرائیل قائم ہونےکے بعد ترقی و استحکام اور قوت کی طرف تیزی سے بڑھ رہا تھا، فلسطین کے باقی ماندہ حصے اردگرد کے عرب ممالک کے قبضے میں تھے، مسئلہ فلسطین کی فائل عرب حکومتوں کے درمیان فٹ بال بنی ہوئی تھی، جبکہ چند سرفروش اور جانباز فلسطینی مسلح کارروائیوں کے ذریعہ دنیا کو اپنے وجود اور تشخص کا احساس دلانے کی کوشش کر رہے تھے۔ ان میں ایک یاسر عرفات بھی تھے اور ظاہری طور پر یوں محسوس ہو رہا تھا کہ ان سرفروشوں اور جانبازوں کی محنت اپنے جذبات کے اظہار تک ہی محدود رہے گی مگر ۱۹۶۷ء کی جنگ میں اسرائیل کے ہاتھوں مصر، شام اور اردن کی شرمناک شکست اور بیت المقدس پر اسرائیل کے قبضہ نے حالات کا پانسہ پلٹ دیا اور اب عرب حکومتوں کو احساس ہونے لگا کہ یہ جنگ فلسطین کے بغیر نہیں لڑی جا سکتی اور فلسطینیوں کو نظر انداز کر کے اسرائیل کے بڑھتے ہوئے قدموں کو نہیں روکا جا سکتا۔ چنانچہ مسلح کارروائیاں کرنے والے گروپوں کو اکٹھا کرنے کا اہتمام کیا گیا اور یاسر عرفات کی قیادت میں تحریک آزادیٔ فلسطین کو ازسرنو منظم کر کے آزادیٔ فلسطین کی جدوجہد کے ایک نئے دور کا آغاز کر دیا گیا۔
یاسر عرفات بنیادی طور پر ایک قوم پرست فلسطینی لیڈر تھے، ان کا شمار لبرل قسم کے مسلمانوں میں ہوتا تھا اور اس وقت کی عالمی کشمکش میں ان کا رجحان بائیں بازو کی طرف نمایاں تھا۔ اس لیے تحریک آزادی فلسطین انہی خطوط پر آگے بڑھی اور یاسر عرفات اپنی قوم پرستی، جذبۂ حریت اور حوصلہ و جرأت کے حوالہ سے فلسطینیوں کی جدوجہد آزادی کی علامت کی حیثیت اختیار کر گئے۔ انہیں اس دوران نہ صرف مغربی استعمار اور اس کے لے پالک اسرائیل سے سابقہ درپیش تھا بلکہ خود اپنوں کی مزاحمت اور مخالفت کا بھی سامنا تھا۔ چنانچہ انہیں جس طرح اردن اور تیونس میں اپنے مراکز سے پیچھے ہٹنا پڑا اس کا تذکرہ تاریخ میں تحریک آزادیٔ فلسطین کے ایک افسوسناک باب کے طور پر ہی کیا جا سکے گا۔
یاسر عرفات نے نہ صرف اسرائیلی تسلط کے خلاف مسلح مزاحمت کی قیادت کی اور ان کی راہنمائی میں فلسطینی چھاپہ مار گروپوں نے اسرائیل کو مسلسل الجھائے رکھا بلکہ عالمی سیاست کے فورم پر بھی یاسر عرفات نے فلسطین کے کاز کی کامیابی کے ساتھ ترجمانی کی اور بین الاقوامی سیاست میں ان کا نام حوصلہ مند اور مدبر سیاسی رہنماؤں میں شمار ہونے لگا۔ یاسر عرفات کو ایک عرصہ تک فلسطینیوں کے متفقہ قومی لیڈر کی حیثیت حاصل رہی۔ لبرل اور قوم پرست حلقے تو ان کے ساتھ تھے، دینی حلقوں نے بھی اس سلسلہ میں ان کے ساتھ بھرپور تعاون کیا اور وہ یہ سمجھتے رہے کہ قوم پرستی، لبرل ازم اور بائیں بازو کی طرف رجحان تحریک آزادی کے سیاسی تقاضوں میں سے ہیں اور اسرائیل اور امریکہ کے مقابلہ کے لیے انہیں کسی حد تک گوارا کیا جا سکتا ہے۔ لیکن عالمی حالات کے جبر نے جب ریاست عرفات کو امریکہ جانے پر مجبور کر دیا اور انہوں نے فلسطین کے حوالہ سے امریکی ایجنڈے کو ایک حد تک قبول کر لیا تو دینی رجحانات رکھنے والے مسلح فلسطینی گروپوں کے لیے اس صورتحال کو جوں کا توں قبول کرنا ممکن نہ رہا، اس لیے انہوں نے ہتھیار ڈالنےا ور مسلح جدوجہد کا راستہ ترک کرنے سے انکار کر دیا چنانچہ ان کی مسلح کارروائیاں مسلسل جاری ہیں۔
یاسر عرفات کی مجبوری یہ تھی کہ عالمی سطح پر امریکہ کے مقابلہ میں کوئی قوت ایسی موجود نہیں رہی تھی جس کا سہارا لیا جا سکے۔ سوویت یونین بکھر چکا تھا اور غیر جانبدار تحریک یا اسلامی سربراہ کانفرنس تنظیم (او آئی سی) کی حیثیت گپ شپ کے ایک فورم سے زیادہ کچھ نہیں تھی۔ اس لیے اب اس حوالہ سے جو بھی کرنا ہے امریکہ نے ہی کرنا ہے اور فلسطینیوں کو جتنا کچھ بھی ملنا ہے اسی سے ملنا ہے۔ چنانچہ انہوں نے یہ فیصلہ کر لیا کہ معروضی حالات میں فلسطینیوں کے لیے جو کچھ بھی حاصل کیا جا سکتا ہے اس کم ا زکم پر قناعت کر کے اسرائیل کو تسلیم کر لیا جائے اور امریکہ کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا دیا جائے۔ مگر دینی مزاج اور اسلامی ذہن رکھنے والے مسلح گروپوں کا موقف یہ تھا کہ فلسطین کے حوالہ سے امریکی سرپرستی اور اس کے ایجنڈے کو قبول کرنے کا مطلب اپنے وجود اور تشخص سے دست برداری ہے اور فلسطین کی آزادی کے لیے اب تک قربانیاں دینے والوں کی جدوجہد کی نفی ہے، اس لیے اسے کسی صورت میں قبول نہیں کیا جا سکتا۔
یاسر عرفات نے یقیناً یہ سب کچھ پورے خلوص کے ساتھ کیا ہوگا، فلسطینیوں کے مفاد میں کیا ہوگا اور اس کے علاوہ کوئی متبادل راہ نہ پا کر کیا ہوگا۔ لیکن اس کے بعد امریکہ اور اسرائیل نے ان کے ساتھ جو سلوک کیا ہے اور اتنی بڑی قربانی کا جو صلہ دیا ہے وہ بھی تاریخ کا ایک عبرتناک باب ہے۔ انہوں نے فلسطینیوں کو ان کے وطن کے ایک چوتھائی سے بھی کم حصے پر فلسطینی ریاست کے قیام کا مبہم وعدہ کر کے لالی پاپ دے دیا۔ یاسر عرفات کے سینے پر ایک ایسی فلسطینی اتھارٹی کے صدر کا تحقیر آمیز تمغہ سجا دیا جس کا زمین پر کوئی وجود نہیں ہے۔ امریکہ نے یاسر عرفات کے ساتھ آخر میں گفتگو تک کرنے سے انکار کر دیا اور یاسر عرفات کو آخری دو سال اپنے ہیڈکوارٹر میں محصوری کے عالم میں بسر کرنا پڑے۔
ہمیں یاسر عرفات کی اس رائے سے ضرور اختلاف رہا ہے اور اب بھی ہے لیکن ان کی جدوجہد اور قربانیوں سے اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ہم دعاگو ہیں کہ اللہ رب العزت انہیں جوارِ رحمت میں جگہ دیں، ان کی غلطیوں سے درگزر کرتے ہوئے جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازیں ، ان کے جانشینوں کو فلسطینی قوم کی صحیح سمت رہنمائی کی توفیق دیں اور عالم اسلام کے ان لیڈروں کو سبق حاصل کرنے کی توفیق دیں جو خود سپردگی کے عالم میں امریکہ کی چھتری تلے کھڑے بہتر مستقبل کا پرفریب منظر تلاش کر رہے ہیں، آمین یا رب العالمین۔