سعودی عالمی اردو نشریات کا انٹرویو

   
سوشل میڈیا
مئی ۲۰۱۹ء

میزبان: السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، ہمارے ساتھ مکہ مکرمہ میں اس وقت معروف عالم دین جناب ابو عمار زاہد الراشدی سیکریٹری جنرل پاکستان شریعت کونسل، خطیب مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ اور رئیس الشریعہ اکیڈمی گوجرانوالہ موجود ہیں، میں اپنی طرف سے اور اپنے تمام سامعین و سامعات کی جانب سے ابو عمار زاہد الراشدی صاحب کا خیر مقدم کرتا ہوں السلام علیکم۔

جواب: وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ، بہت شکریہ، جزاکم اللہ۔

سوال: مولانا زاہد الراشدی صاحب! آپ رابطہ عالم اسلامی کے زیر انتظام ہونے والی عالمی کانفرنس میں شریک ہیں۔ یہ کانفرنس قرآن و سنت کے تناظر میں اعتدال پسندی اور میانہ روی کی اقدار کو اجاگر کرنے کے لیے منعقد کی جا رہی ہے۔ اس کانفرنس کا مقصد مکہ مکرمہ منشور کا اجرا بھی ہے۔ سامعین یہ جاننا چاہیں گے کہ نفاذ شریعت کی جو مہم اور مشن آپ لوگ چلاتے رہے ہیں، اس میں آپ کو کہاں تک کامیابی ملی؟

جواب: گزارش یہ ہے کہ جہاں تک کانفرنس کا تعلق ہے تو یہ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے، وسطیت، اعتدال اور توازن ہمیشہ ہی انسانی سوسائٹی کی ضرورت رہی ہے اور اسلام کی تو بنیاد ہی وسطیت، اعتدال اور توازن پر ہے۔ اسلامی تعلیمات اور اسلامی قوانین اعتدال اور توازن ہی کی بات کرتے ہیں زندگی کے ہر شعبے میں، سیاست میں بھی، معیشت میں بھی، معاشرت میں بھی، خاندان میں بھی۔ اس کی تفصیلات کا موقع نہیں ہے، لیکن اسلام تو نام ہی وسطیت اور اعتدال کا ہے اور آج کے دور میں جبکہ عالمی سطح پر پوری دنیا میں فکری اور تہذیبی انتشار، تشدد اور باہمی محاذ آرائی اور کشمکش پھیل رہی ہے تو اس وقت وسطیت اور اعتدال کو واضح کرنے کی ضرورت ہے جو اسلام پیش کرتا ہے اور جس کی بہترین مثال جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دس سالہ نبوی دور، خلافت راشدہ کا تیس سالہ دور اور ہمارا قرن اول اور خیر القرون ہے، جس نے دنیا کو تہذیب،حقوق اور انسانی روایات و اقدار سے متعارف کروایا۔ آج اس دور کی بنیاد پر اسلام کو دوبارہ دنیا میں پیش کرنے کی ضرورت ہے۔

ہم جو نفاذ شریعت کی کوشش کر رہے ہیں اس میں فکری اور عملی طور پر تو الحمدللہ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے ہم اس میں اپنے موقف پر قائم ہیں اور پیشرفت بھی ہوتی رہتی ہے، لیکن عملی دشواریاں درپیش ہیں عالمی ماحول کے حوالے سے بھی، ملکی مسائل کے حوالے سے بھی اور علاقائی صورتحال کے تناظر میں بھی، لیکن ہماری جدوجہد جاری ہے اور ہم تمام مکاتب فکر کے علماء پاکستان میں۔ الحمدللہ پاکستان کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ پاکستان کے قیام سے لے کر آج تک جو بھی دینی، ملی یا قومی مسئلہ آیا ہے تو تمام مکاتب فکر کے علماء نے اجتماعی طور پر امت کی اور قوم کی قیادت کی ہے اور آج بھی کر رہے ہیں۔ ہم اس میں پیشرفت دیکھ رہے ہیں، جو ان شاءاللہ تعالیٰ جاری رہے گی۔

سوال: نفاذ شریعت کے حوالے سے سامعین آپ سے یہ سمجھنا چاہیں گے کہ یہ جو نفاذ شریعت کا مشن ہے اور ابھی تک اپنے منطقی انجام کو نہیں پہنچ سکا ہے، کیا اس کی وجہ مختلف مکاتب فکر، مختلف نظریات اور مسالک اور فرقوں سے منسوب رہنماؤں کے رویوں کے درمیان عدم توازن تو نہیں ہے؟

جواب: میرے خیال میں نفاذ شریعت کے حوالے سے وہ رویے کار فرما نہیں ہیں، اس لیے کہ قرارداد مقاصد سے لے کر آج تک جہاں نفاذ شریعت کے مسائل ہیں اور قرآن و سنت کے احکام کے نفاذ کی بات ہے، تمام مکاتب فکر کے رویوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ ہاں عملی تطبیق میں اور سیاسی جماعتوں کی ترجیحات میں ضرور فرق آتا ہے، لیکن جہاں تک موقف کا تعلق ہے، دائرے کا تعلق ہے اور مسائل کے تعین کا تعلق ہے، ستر سال میں ایک بھی موقع ایسا نہیں آیا کہ قومی، دینی اور سیاسی طور پر کوئی دینی اور ملی مسئلہ پیش آیا ہو تو علماء کرام نے الگ الگ راستے اختیار کیے ہوں۔ وہ رکاوٹ نہیں ہے، میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے راستے میں رکاوٹ بین الاقوامی معاہدات، عالمی ورلڈ اسٹیبلشمنٹ اور عالمی جکڑبندی ہے جس نے پوری دنیا کو جکڑ رکھا ہے۔ سب سے بڑی رکاوٹ یہ ہے، جس کو فیس کرنے کے لیے حکمت اور تدبر کے ساتھ آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ علماء کے رویے رکاوٹ نہیں ہیں۔ جب بھی موقع آیا ہے ختم نبوت کا مسئلہ ہو، نظامِ مصطفی کا مسئلہ ہو یا ناموس رسالت کا مسئلہ ہو، آپ ہر جگہ تمام علماء کو اکٹھا دیکھتے ہیں، اکٹھے ہیں اور اکٹھے رہیں گے ان شاءاللہ العزیز۔ اصل رکاوٹ وہ نہیں ہے، میں دو رکاوٹیں عرض کروں گا۔ ایک رکاوٹ تو بین الاقوامی معاہدات ہیں اور دوسری رکاوٹ ہماری لوکل قومی اسٹیبلشمنٹ کا طرز عمل ہے۔ میں اس کو بھی ساتھ شامل کروں گا، اس کی وجہ سے رکاوٹیں پیش آ رہی ہیں، ورنہ دستور تو سب کا متفقہ ہے اور دستور میں جو باتیں طے ہیں، ادھر ادھر کچھ دیکھنے کی ضرورت نہیں، جو باتیں دستور نے ۱۹۷۳ء سے طے کر رکھی ہیں، انہی پر عمل کر لیا جائے تو نفاذ اسلام میں نہ کوئی رکاوٹ رہتی ہے اور نہ کوئی کمی رہتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ دستور پر عمل کرنے کی ضرورت ہے اور علماء اور دینی مکاتب فکر متفقہ طور پر جو بات کہتے ہیں اس کو تطبیق میں لانے کی ضرورت ہے۔ ہم تو یہی کہتے ہیں کہ جس پر سب متفق ہیں وہ نافذ کر دیں۔

سوال: بین الاقوامی معاہدوں کے حوالے سے کوئی نظیر پیش کرنا پسند کریں گے؟

جواب: میں سمجھتا ہوں کہ ختم نبوت کے حوالے سے، حدود شرعیہ کے نفاذ کے حوالے سے، ناموس رسالت کے حوالے سے اور دیگر شرعی قوانین کے حوالے سے جتنی رکاوٹیں ہیں وہ بین الاقوامی معاہدات کی بنیاد پر ہیں۔ جو انسانی حقوق کا معاہدہ ہے، اس کے تحت ہمارے قوانین کی مخالفت کی جا رہی ہے۔ تحفظ ختم نبوت کا مسئلہ، ناموس رسالت کا مسئلہ، قصاص اور دیت کا مسئلہ، حدود آرڈیننس کا مسئلہ اور دوسرے مسائل، ان سب میں جو عالمی مخالفت ہوتی ہے اس کی بنیاد بین الاقوامی معاہدات ہی ہیں۔ میں نے یہ بات کئی دفعہ عرض کی ہے، یہاں بھی دوستوں سے عرض کیا ہے کہ بین الاقوامی معاہدات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے اور ان کے ساتھ گفتگو کرنے کی ضرورت ہے۔ میں یاد دلانا چاہوں گا کہ اس گفتگوکا آغاز مہاتیر محمد نے کیا تھا جب وہ او آئی سی کے صدر تھے، انہوں نے یہ مسئلہ اٹھایا تھا کہ بین الاقوامی معاہدات پر نظر ثانی کی جائے کہ اس پر ہمارے تہذیبی اور اعتقادی تحفظات ہیں۔ میرے خیال میں اس پوائنٹ سے دوبارہ بات کرنی چاہیے۔

سوال: ابوعمار زاہد الراشدی صاحب! سامعین یہ بھی جاننا چاہیں گے کہ جو مسلمانانِ عالم کو،خاص طور پر سعودی عرب کی قیادت کو اسلام میں اعتدال پسندی اور میانہ روی کے حوالے سے اسلامی نقطہ نظر اجاگر کرنے کی ضرورت پیش آ رہی ہے، یہ کیوں پیش آرہی ہے، اس کی کیا وجہ ہے؟

جواب: اس کی سب سے بڑی وجہ میرے نزدیک یہ ہے کہ ہماری مرکزیت نہیں ہے۔ جس زمانے میں خلافت ہوتی تھی، مرکزیت تھی تو لوگ مرکزیت کی طرف رجوع کرتے تھے۔ اب چونکہ ہماری کوئی فکری اور سیاسی مرکزیت نہیں ہے، اس لیے جو گروہ جہاں بھی کوئی کام کرنا چاہتا ہے تو اپنی ترجیحات خود طے کرتا ہے اور اس سے تشدد اور انتشار پیدا ہوتا ہے۔ اصل وجہ عدمِ مرکزیت ہے، مرکزیت کا خلا موجود ہے، اگر سعودی عرب اس کو پر کرنے کی کوشش کرتا ہے تو بہت اچھی بات ہے کہ یہ ہمارا مرکز ہے، حرمین شریفین اور سعودی عرب کی حکومت ہمارا مرکز ہے، لیکن اصل جو خلا ہے وہ سیاسی، فکری اور تہذیبی مرکزیت کا ہے، جو خلافت کے خاتمے کے بعد ہمیں مسلسل درپیش ہے۔ اس خلا کے پر ہونے تک میرے خیال میں یہ کوششیں بہت اچھی ہیں اور اس کو پر کرنے کی کسی بھی سطح پر کوشش ہو، اس کا خیر مقدم کرنا چاہیے۔

سوال: مسلمانوں کی سطح پر یہ بات اختلاف سے بالاتر ہے کہ اسلام اعتدال پسندی اور میانہ روی کا علمبردار مذہب ہے، اسلام انتہا پسندی، شدت پسندی اور دہشت گردی کا مخالف مذہب ہے، لیکن زمینی حقائق یہ ہیں کہ بعض سر پھرے نوجوانوں نے کچھ ایسی حرکتیں کی ہیں، جن کی وجہ سے غیر مسلم میڈیا نے انہیں اچھالا اور انہیں بنیاد بنا کر پوری دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کی ایک مکروہ اور ایسی تصویر پیش کی جسے پسند نہیں کیا جاتا، بلکہ اسے نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، اسلام فوبیا کا مسئلہ کھڑا کیا گیا۔ سامعین یہ جاننا چاہیں گے کہ یہ جو نوجوانوں کے اندر فکری انتشار اور فکری انحراف آیا اور وہ فکر و نظر اور عمل کے حوالے سے انتہا پسندی کی طرف گئے، کیا اس میں ہمارے علماء کرام کی غفلت، لاپرواہی اور اپنی ذمہ داری کو صحیح طریقے سے بروقت نہ سمجھنے اور نہ ادا کرنے کا بھی کوئی دخل ہے؟

جواب: میرے خیال میں ساری ذمہ داری علماء پر ڈال دینا ٹھیک نہیں ہے، دراصل یہ ری ایکشن ہے، یہ جو موجودہ تشدد عالم اسلام کو نظر آ رہا ہے، آپ جس تشدد پر بھی بات کریں گے، اس کے پیچھے کوئی ایسا ایکشن ہوگا جس کا یہ ری ایکشن ہے۔ مثلاً زیادتی ہوئی ہے، اسلام کی مخالفت ہوئی ہے، اسلامی احکام کو روکنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور مختلف مقامات پر مسلمانوں پر جو مظالم ہوئے ہیں اور ہو رہے ہیں، ان کو کوئی صحیح راستہ نہ ملنے کی وجہ سے ری ایکشن ہے۔ جب آپ ایک مظلومیت کو صحیح راستہ نہیں دیں گے تو تشدد کا راستہ اختیار کیا جائے گا۔ یہ تشدد غلط ہے، جو نوجوان اور جو گروہ تشدد اور عسکریت کا راستہ اختیار کیے ہوئے ہیں، قطعی طور پر غلط ہے، نہ اسلام اس کی اجازت دیتا ہے اور نہ حالات اجازت دیتے ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ انہوں نےایسا کیوں کیا ہے؟ ان کے پیچھے کون سے حالات ہیں جنہوں نے اس ری ایکشن پر مجبور کیا ہے؟ ہمیں ان اسباب پر نظر رکھنی چاہیے۔ ایسا کرنے والوں کو بھی سمجھانا اور باز رکھنا چاہیے، لیکن جن اسباب نے انہیں اس تشدد پر مجبور کیا ہے کہ وہ ری ایکشن پر آئے ہیں، ان اسباب کو دور کرنے کی کوشش بھی کرنی چاہیے۔ میرے خیال میں ہم اسباب کو نظر انداز کر کے ان نوجوانوں کو ہی کوستے چلے جائیں اور ساری ذمہ داری علماء پر ڈال دیں تو یہ حقائق کے خلاف بات ہوگی۔

سوال: معاملہ یہ نہیں ہے، اگرچہ بعض لوگ علماء کو اور بعض لوگ دینی مدارس کو بھی ذمہ دار ٹھہراتے ہیں، جبکہ زمینی حقائق یہ بھی بتاتے ہیں کہ ایسی جامعات سے، ایسے اسکولوں اور کالجوں سے فارغ لوگ اور صرف اسلام سے تعلق رکھنے والے نہیں، بلکہ مختلف مذاہب کے لوگ شدت پسندی اور انتہا پسندی کی طرف گئے ہیں، جنہیں پوری دنیا بڑے اعتبار کی نظر سے دیکھتی ہے۔ ایسے لوگوں کے شاگرد اس عمل میں مبتلا ہوئے ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ عصر حاضر میں اعتدال پسندی کی علامتیں ہیں۔ یہ ایک الگ چیز ہے، لیکن جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ غلطیاں ہوئی ہیں اور ہو رہی ہیں، کیسے انکار ممکن ہے؟

جواب: میں اس سے انکار نہیں کر رہا، غلطیاں تو ہوئی ہیں بلکہ شدید اور سنگین غلطیاں ہوئی ہیں، لیکن غلطیاں کیوں ہوئی ہیں؟ میرا فوکس اس پر ہے کہ جو اس کے اسباب ہیں اور جس کے ری ایکشن میں یہ ہو رہا ہے، اِس کو بھی روکیں اور ُاس عمل کو بھی روکیں۔ جب تک آپ سرچشمے کو نہیں روکیں گے پانی کے بہاؤ کو روکنا آپ کے بس میں نہیں ہوگا۔ میں کہتا ہوں کہ یہ غلط ہے، ان کو سمجھائیں، اگر نہیں سمجھتے تو انہیں قابو بھی کریں …… میں عرض کرتا ہوں کہ پچھلی ایک صدی میں مسلمانوں کے ساتھ عالمی سطح پر جو طرز عمل کیا گیا وہ بالکل جانبدارانہ رویہ ہے۔ میں اقوام متحدہ کو ٹارگٹ کروں گا کہ اقوام متحدہ کا طرز عمل فلسطین، کشمیر سمیت دوسرے مسائل میں جانبدارانہ ہے تو اس کے ری ایکشن میں مختلف مقام پر (یہ ہوا ہے) جیسے اقوام متحدہ کے ٹائٹل پر عراق میں جو کچھ ہوا اور افغانستان میں جو کچھ ہوا ہے، کیا اس کا ری ایکشن نہیں ہوگا؟ اگر آپ ایک ملک میں دس لاکھ آدمی مار دیں گے تو اس کا ری ایکشن تو ہوگا۔ میں کہتا ہوں کہ ری ایکشن کو بھی روکیں اور ایکشن کو بھی روکیں۔ جامع وسطیت کی ضرورت ہے اور اعتدال کی ضرورت ہے۔ ہم جس اعتدال اور وسطیت کا سبق دنیا کو دے رہے ہیں وہ اعتدال اور وسطیت اس معاملے میں بھی ہم اختیار کریں۔ اسباب کا جائزہ لے کر اسباب کو بھی روکیں اور اس کے ری ایکشن کو بھی روکیں تب ہم امن قائم کر سکیں گے۔

سوال: ایک مسئلہ اور ہے کہ بعض نوجوان انتہا پسندی، دہشت گردی اور شدت پسندی کا جواز قرآنی آیات اور احادیث مبارکہ میں تلاش کر کے انہیں پیش کرتے ہیں اور انہیں بنیاد بناتے ہیں، جس سے اسلام کی بدنامی ہو رہی ہے۔ بدنامی کے اس سلسلے کو ختم کرنے اور اس پر قابو پانے کے لیے علماء کی کیا ذمہ داری ہے؟

جواب: علماء کرام کی ذمہ داری ہے کہ وہ صحیح تعلیمات کو سامنے لائیں۔ جہاں تک قرآن پاک کی آیات سے اور احادیث نبویہ سے استدلال کی بات ہے میں عرض کروں گا کہ انفرادی آیات سے استدلال درست نہیں ہے، کسی بھی موضوع پر قرآن پاک کی جتنی آیات ہیں اور قرآن پاک نے جو مجموعی تعلیم دی ہے اس کو بنیاد بنا کر بات کرنا ہوگی۔ یوں ہی جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس مسئلے پر بھی رہنمائی کی ہے، تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سارے ارشادات کے سامنے رکھ کر بات کی جائے گی۔ انفرادی طور پر کسی ایک آیت یا ایک حدیث پر بات کریں گے تو ہر گروہ اپنا مطلب نکال سکتا ہے۔ لہٰذا علماء کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسلام کی اجتماعی تعلیمات، جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ، خلفائے راشدین کے طرز عمل اور خیر القرون کے دور کو سامنے رکھ کر امت کی رہنمائی کریں اور امت کو بتائیں کہ صحیح اعتدال کا راستہ کیا ہے؟

سوال: مکہ کانفرنس سے آپ کی کیا توقعات ہیں، اس سے کیا اثرات مرتب ہوں گے؟

جواب: میں سمجھتا ہوں کہ اس سے دنیا کو اور مسلم امہ کو ایک میسج جائے گا اور میں سب سے بڑی بات یہ سمجھتا ہوں کہ چونکہ یہ بات مکہ مکرمہ سے جا رہی ہے تو اس سے مسلمانوں کو حوصلہ بھی ہوگا کہ ہماری رہنمائی کرنے والے، ہماری بات کرنے والے اور ہمارے سر پر ہاتھ رکھنے والے موجود ہیں۔ چونکہ مکہ مکرمہ ویسے بھی عقیدتوں کا مرکز ہےتو یہاں سے پیغام جائے گا، اعتماد اور حوصلہ بھی پیدا ہوگا۔

میزبان: ابو عمار زاہد الراشدی صاحب! سعودی عالمی اردو نشریات کے سامعین کو قیمتی وقت دینے کے لیے بہت بہت شکریہ۔

ابو عمار زاہد الراشدی : جزاکم اللہ خیرا، اللہ پاک آپ کو جزائے خیر دے کہ آپ نے یہ موقع عنایت کیا کہ میں اپنے مسلمان بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ بات کر سکوں، شکریہ۔

میزبان: سامعین کرام! یہ تھے سیکرٹری جنرل پاکستان شریعت کونسل، خطیب مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ ابو عمار زاہد الراشدی صاحب، جو مکہ کانفرنس میں شرکت کے لیے تشریف لائے ہوئے ہیں۔ اسی پر اجازت دیجیے اللہ حافظ۔

2016ء سے
Flag Counter