۲۴ مئی کو برطانیہ پہنچا ہوں اور ۷ جون کو واپسی کی فلائیٹ ہے۔ اس دوران ساؤتھال براڈوے کی ابوبکر مسجد میں جمعۃ المبارک کے بیان کے بعد شام کو نوٹنگھم پہنچ گیا جبکہ جمعرات کو ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین مولانا محمد عیسیٰ منصوری سے ملاقات ہوئی جو اسی روز انڈیا اور بنگلہ دیش کے سفر سے واپس پہنچے تھے۔ دن کا بیشتر حصہ ابراہیم کمیونٹی کالج میں گزرا اور میرے لیے یہ بات نعمت غیر مترقبہ ثابت ہوئی کہ اسی روز مدینہ منورہ سے تشریف لانے والے ایک محترم بزرگ حضرت قاری بشیر احمد صاحب نے کالج میں آنا تھا۔
قاری صاحب محترم کا تعلق پاکستان کے علاقہ کروڑ لعل حسین سے ہے، کم و بیش اکتالیس سال سے مدینہ منورہ میں مقیم ہیں اور حفظ و تجوید میں ہزاروں قراء اور حفاظ کے استاد ہیں، اس سے قبل دارالعلوم کراچی کورنگی میں چند سال استاذ رہے ہیں اور تجوید و قراءت کے ممتاز اساتذہ میں سے ہیں۔ میرے استاذ محترم قاری محمد انور صاحب بھی ایک عرصہ سے مدینہ منورہ میں ہیں۔ میں نے محترم قاری محمد بشیر صاحب سے ذکر کیا تو کہا ہاں! ہم دونوں ایک ہی استاذ کے شاگرد ہیں۔ دو تین گھنٹے ان کے ساتھ بہت اچھے ماحول میں گزرے۔ محترم قاری محمد بشیر صاحب جتنی دیر وہاں رہے قراءت و تجوید کے حوالہ سے ہی گفتگو رہی جو اس علم کے ساتھ ان کی گہری دلچسپی کی علامت ہے۔ انہیں اس بات کا شکوہ ہے کہ اس علم کے حوالہ سے کتابی تعلیم تو بہت وسیع ہوتی جا رہی ہے لیکن عملی تربیت و مشق کا ذوق کم ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ الفاظ کے مخارج اور صفات پر پوری توجہ نہیں ہے اور بہت سے رسمی علم اور اسناد سے بہرہ ور حضرات بھی فن تجوید کے لحاظ سے قرآن کریم صحیح نہیں پڑھ سکتے، انہوں نے اس سلسلہ متعدد واقعات سنائے ۔ قاری صاحب نے ابراہیم کالج کے اساتذہ اور طلبہ سے قرآن کریم سنا، انہیں مشورے دیے اور پیش کش کی کہ اگر اساتذہ کا گروپ کچھ عرصہ کے لیے ان کے پاس مدینہ آسکے تو وہ ان کی مشق و تربیت کے ساتھ ساتھ ان کی میزبانی کے لیے بھی تیار ہیں۔
نوٹنگھم سے ہفتہ کے روز شیفیلڈ جانا ہوا جہاں جامعہ الہدٰی میں اگلے روز اتوار کو سالانہ کانفرنس تھی۔ جامعہ الہدٰی کا طالبات کا شعبہ ٹوٹنگھم میں جبکہ طلبہ کا شعبہ شیفیلڈ میں ہے اور مدنی ٹرسٹ ان دونوں اداروں کا منتظم ہے۔ میر پور آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والے ہمارے محترم دوست مولانا حکیم اختر الزمان غوری مدنی ٹرسٹ کے چیئرمین اور میر پور ہی کے علاقہ سیاکھ سے تعلق رکھنے والے مولانا ضیاء الحق سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے مدنی ٹرسٹ کے روح رواں ہیں اور دونوں تعلیمی اداروں کے پرنسپل ہیں۔ مشاورت کے حوالہ سے میرا تعلق ان اداروں کے ساتھ شروع سے ہے۔ اس سال جامعہ الہدٰی شیفیلڈ کی سالانہ کانفرنس میں شرکت کے لیے میرے علاوہ آزاد کشمیر سے مولانا سعید یوسف خان اور جھلم سے مولانا قاری خبیب احمد عمر بھی تشریف لائے ہیں جبکہ برطانیہ کے بہت سے سرکردہ علماء کرام اور دینی راہنماؤں نے اس کانفرنس میں شرکت کی۔
آکسفورڈ سے مولانا محمد اکرم ندوی بھی تشریف لائے۔ اس خیال سے ہم ہفتہ کی شام کو پہنچ گئے تھے کہ کانفرنس کے ہجوم سے قبل اطمینان سے بات چیت کا موقع مل جائے گا، چنانچہ مختلف دینی و تعلیمی امور پر ان سے گفتگو رہی۔ انہوں نے اپنی نئی تصنیفات سے آگاہ کیا جن میں عربی میں حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ کی سوانح و خدمات پر ایک ضخیم کتاب بھی شامل ہے۔ مولانا محمد اکرم ندوی تصنیف و تالیف کے کام میں ہمہ وقت مشغول رہتے ہیں مگر ان کے ایک تحقیقی کام سے مجھے بہت دلچسپی ہے جو وہ امت کی خاتون محدثات کے حالات و خدمات کی جمع و ترتیب کے لیے ایک عرصہ سے جاری رکھے ہوئے ہیں اور میں ہر ملاقات میں ان سے اس میں پیشرفت کے بارے میں دریافت کرتا رہتا ہوں۔ اس ملاقات میں انہوں نے بتایا کہ وہ اب تک آٹھ ہزار سے زائد محدثات کے سوانح و تراجم جمع کر کے انہیں ترتیب دے چکے ہیں اور چالیس جلدوں پر مشتمل ایک ضخیم کتاب ’’الوفاء فی اخبار النساء‘‘ کے نام سے مرتب ہو گئی ہے جو طباعت کے مراحل میں ہے اور بیروت کے ایک ادارے نے اس کی اشاعت کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔
جامعہ الہدٰی کی سالانہ کانفرنس ۲۹ مئی اتوار کو ظہر تا عصر رہی۔ یہاں گرمیوں میں ظہر سے عصر تک خاصا وقت ہوتا ہے کیونکہ ڈیڑھ دو بجے کے لگ بھگ ظہر کی نماز ہوتی ہے اور ساڑھے سات پونے آٹھ بجے عصر کی نماز ادا کی جاتی ہے۔ ان دنوں نو بجے کے قریب غروب ہو رہا ہے اس لیے کم و بیش پانچ ساڑھے پانچ گھنٹے کا وقت مل جاتا ہے جو ایک کانفرنس کے لیے خاصا وقت ہوتا ہے۔ مذکورہ بالا حضرات کے خطبات کے علاوہ جو بات خاص دلچسپی کی تھی وہ یہ تھی کہ جامعہ الہدٰی کے مختلف درجوں کے طلبہ نے اردو، عربی اور انگلش میں مختصر خطابات کیے جو ان کے ذوق اور ان کے اساتذہ کے حسن تربیت کی علامت ہیں۔ میرا عجیب حال ہے کہ پاکستان میں کسی دینی مدرسہ کے طالب علم کو عربی یا انگلش میں تقریر کرتے دیکھ کر خوش ہوتا ہوں لیکن یہاں ایک طالب علم کو اردو میں تقریر کرتے دیکھ کر سب سے زیادہ خوشی ہوئی اس لیے کہ برطانیہ میں پیدا ہونے والے اور تعلیم و تربیت پانے والے بچے اردو سے بالکل بے بہرہ ہوتے ہیں اور اس طرح وہ پاکستان کے ان بزرگوں اور اکابر کی تعلیمات اور لٹریچر سے بالکل کٹ جاتے ہیں جو ہمارا بہت بڑا علمی ورثہ اور اثاثہ ہے۔ اس لیے میں برطانیہ اور مغرب کے دینی تعلیمی اداروں کو یہ تلقین کرتا رہتا ہوں کہ وہ اپنے طلبہ اور طالبات کو اردو سے لاتعلق نہ ہونے دیں کیونکہ اس طرح وہ اپنے ماضی قریب کے بزرگوں اور اردو زبان کے دینی لٹریچر سے استفادہ نہیں کر پائیں گے جو بہت محرومی کی بات ہوگی۔
منگل کو جمعیت علماء برطانیہ کے راہنما مولانا حافظ محمد اکرام صاحب کی فرمائش پر رچڈیل کی جامع مسجد میں عصر کے بعد بیان ہوا اور اپنے ایک پرانے بزرگ حضرت مولانا عبد المجید انور مدظلہ آف ساہیوال سے بھی ملاقات ہو گئی جو گزشتہ چند سالوں سے وہاں مقیم ہیں۔ اس موقع پر جمعیت علماء برطانیہ کے سیکرٹری جنرل مولانا مفتی محمد اسلم نے جمعیت کے سرکردہ حضرات کے ساتھ ایک نشست کا اہتمام کر رکھا تھا جس میں پاکستان اور برطانیہ کے حوالہ سے بہت سے جماعتی امور پر تبادلہ خیال ہوا۔ مجھ سے ان دوستوں کا ہمیشہ اصرار رہتا ہے کہ میں جمعیت علماء اسلام میں پہلے کی طرح پھر متحرک کردار ادا کروں مگر پہلے کی طرح اب بھی میں نے یہی گزارش کی کہ میں حسب سابق جمعیت علماء اسلام میں شامل ہوں اور علمی، فکری اور مشاورتی دائرہ میں مجھے کسی خدمت سے کبھی انکار نہیں رہا لیکن تدریسی مصروفیات اور عمر و صحت کے حوالہ سے اب کسی متحرک کردار کی پوزیشن میں نہیں ہوں۔
بہت سے دیگر دوستوں کی طرح یہ حضرات بھی تحفظات کا شکار ہیں، میں نے ان سے عرض کیا کہ ’’پاکستان شریعت کونسل‘‘ کوئی باقاعدہ جماعت یا تنظیم نہیں ہے بلکہ ایک علمی و فکری فورم ہے جس کا انتخابی سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ عملی اور انتخابی سیاست میں ہم جمعیت علماء اسلام اور متحدہ مجلس عمل کے ساتھ ہیں۔ ایک دوست نے پوچھا کہ پھر اس سے الگ فورم کے قیام کی ضرورت کیوں سمجھی گئی؟ میں نے عرض کیا کہ علمی و فکری کام بہت سے حوالوں سے غیر سیاسی ماحول کا متقاضی ہوتا ہے اور اس میں ایسے دوستوں کی علمی خدمات کی ضرورت بھی پڑھ جاتی ہے جو انتخابی اور عملی سیاست میں فریق بننے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے۔ میں نے جمعیت علماء برطانیہ کے دوستوں سے عرض کیا کہ ہماری سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ ہم عالمی صورتحال اور اردگرد کے ماحول سے پوری طرح باخبر رہیں، ہماری بے خبری میرے نزدیک ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ جب تک ہم اس کا تدارک نہیں کرتے کسی جگہ بھی صحیح کردار ادا نہیں کر سکتے، ہم اگر حالات اور مسائل سے پوری طرح باخبر ہوں گے تبہی اپنے کام کی ترجیحات صحیح طور پر طے کر سکیں گے۔
مولانا مفتی محمد اسلم صاحب کے ساتھ جمعیت علماء برطانیہ کے ایک اور سرگرم راہنما مولانا سید اسلام علی شاہ ہیں جو بٹل ہزارہ سے تعلق رکھتے ہیں اور ویکفیلڈ میں مقیم ہیں۔ یہ قصبہ بریڈفورڈ سے بارہ چودہ میل کے فاصلے پر ہے اور مولانا سید اسلام شاہ کی جولانگاہ ہے۔ باذوق ساتھی ہیں اور جماعتی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ اچھا تعلیمی ذوق بھی رکھتے ہیں۔ رچڈیل سے میں ان کے ساتھ ویکفیلڈ چلا آیا اور رات ان کے مرکز میں قیام کیا۔ ویکفیلڈ جمعیت علماء برطانیہ کی سرگرمیوں کا اہم مرکز ہے اور مولانا سید اسلام علی شاہ نے جماعتی سرگرمیوں کی اشاعت کے لیے ’’الجمعیۃ‘‘ کے نام سے ماہوار خبر نامہ کی اشاعت کا سلسلہ بھی شروع کر رکھا ہے جس کا پہلا شمارہ انہوں نے مجھے دکھایا اور میں نے اس کے لیے کچھ مشورے دیے۔ انہوں نے جمعیت علماء برطانیہ کی ویب سائٹ بھی شروع کی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ وہ اس میں قارئین و ناظرین کو خاصی معلومات فراہم کر رہے ہیں۔
ویکفیلڈ میں ایک اور ساتھی مولانا محمد قاسم سے ملاقات ہوئی جو ہزارہ سے تعلق رکھتے ہیں، ان کے ساتھ اس علاقے کا ایک پرانا قلعہ دیکھا جو اب تو کھنڈر بن چکا ہے لیکن اس کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ تاریخی طور پر خاصی اہمیت کا حامل ہے اور صدیوں یہاں کی خانہ جنگی کا بڑا مورچہ رہا ہے۔ مفتی محمد قاسم نے ہی مجھے اس کے بعد باٹلی میں تبلیغی جماعت کے بزرگ حاجی بوستان صاحب کے ہاں پہنچایا جن کے ساتھ کھانے اور ایک فکری نوعیت کی نشست کا پروگرام طے تھا اور مولانا قاری خبیب احمد عمر وہیں میرے منتظر تھے۔
تبلیغی جماعت کے حضرات کے بارے عام تاثر یہ ہے کہ انہیں اپنے دائرہ کار کے علاوہ دوسرے دینی کاموں سے دلچسپی نہیں ہوتی بلکہ بعض سادہ دل دوست تو تبلیغی کام سے ہٹ کر دوسرے دینی شعبوں کی افادیت کی نفی بھی کر دیتے ہیں۔ لیکن حاجی بوستان صاحب تبلیغی جماعت کے سرکردہ اور ذمہ دار بزرگ ہونے کے ساتھ ساتھ دینی مدارس کی اصلاح و ترقی اور ملی و قومی مسائل کے لیے جدوجہد کے حوالے سے جس قدر متفکر اور متحرک رہتے ہیں وہ یقیناً قابل رشک ہے۔ انہیں دیکھ کر مجھے حضرت مولانا مفتی عبد الواحدؒ یاد آ جاتے ہیں جو تبلیغی جماعت، جمعیت علماء اسلام، دینی مدارس اور ملی تحریکات کے حوالوں سے یکساں متحرک رہتے تھے۔ حاجی صاحب موصوف میر پور آزاد کشمیر میں جامعۃ العلوم الاسلامیہ کے نام سے ایک معیاری دینی درسگاہ چلا رہے ہیں جہاں میری حاضری ہوتی رہتی ہے۔ ان کے ساتھ دینی مدارس کے نصاب و نظام کے حوالے سے تفصیلی نشست کے بعد رات کو میں نوٹنگھم واپس پہنچ گیا۔