’’لو وہ بھی کہہ رہے ہیں کہ بے ننگ و نام ہے‘‘

   
۲۶ اکتوبر ۲۰۱۳ء

۲۴ اکتوبر کو دنیا بھر میں اقوامِ متحدہ کا یوم تاسیس منایا گیا اور مختلف ممالک میں اس موقع پر تقاریب کا اہتمام ہوا۔ ۲۴ اکتوبر ۱۹۴۵ء کو اقوام متحدہ کا قیام عمل میں لایا گیا تھا اور اس کے بعد سے یہ مسلسل سرگرم عمل ہے۔ اس سے قبل پہلی جنگ عظیم کے خاتمہ پر ’’انجمن اقوام‘‘ کے نام سے ایک عالمی فورم قائم کیا گیا تھا جس کا مقصد ممالک و اقوام کے درمیان تصادم کو روکنا اور ملکوں اور قوموں کے تنازعات کو بات چیت کے ذریعہ حل کرانے کے لیے عالمی سطح پر پلیٹ فارم مہیا کرنا تھا۔ لیکن دوسری جنگ عظیم کی تباہ کاریوں نے ’’انجمن اقوام‘‘ کی ناکامی پر مہر تصدیق ثبت کر دی تو ’’اقوام متحدہ‘‘ کے عنوان سے ایک نیا بین الاقوامی ادارہ وجود میں آیا ، اور اس کا بنیادی مقصد بھی یہی قرار دیا گیا کہ ممالک و اقوام کے درمیان جھگڑوں اور تنازعات کو جنگوں کی بجائے مصالحت کی میز پر حل کرانے کا راستہ ہموار کیا جائے۔ اقوام متحدہ نے اس کے لیے ثالث کا کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا اور بین الاقوامی امن کے لیے معاہدات اور مذاکرات کا نظام طے کر لیا، مگر رفتہ رفتہ اس نے اقوام و ممالک کے باہمی تنازعات میں ثالث اور مذاکرات کار کے کردار پر قناعت نہ کرتے ہوئے انسانی حقوق اور سولائزیشن کے نام پر قوموں کے مذہبی، تہذیبی، تعلیمی اور ثقافتی معاملات کو بھی اپنے دائرہ کار میں لانے کے لیے پیش رفت شروع کر دی۔ اور مختلف شعبوں میں ایسے بین الاقوامی معاہدات کا اہتمام کیا جو آج دنیا بھر کے لیے عملاً ’’ بین الاقوامی دستور و قانون‘‘ کا درجہ اختیار کر چکے ہیں اور ان کے ذریعہ بین الاقوامی اَن دیکھی اسٹیبلیشمنٹ دنیا بھر پر حکومت کر رہی ہے۔

آج کے عالمی منظر کو اس حوالہ سے دیکھا جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ اس وقت دنیا پر صرف معاہدات کی حکومت ہے، کیونکہ کم و بیش سبھی حکومتیں ان معاہدات کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنے اپنے ملکوں میں حکومت کا نظام چلانے کی پابند ہیں۔ ان بین الاقوامی معاہدات کی خلاف ورزی پر حکومتوں کو چارج شیٹ کیا جاتا ہے، ملکوں کی اقتصادی ناکہ بندی ہوتی ہے، ان کا بائیکاٹ کیا جاتا ہے، ان کے خلاف سلامتی کونسل کے فورم پر فیصلے کیے جاتے ہیں اور کوئی ملک ان معاہدات میں سے کسی بات کی خلاف ورزی پر اصرار کرتا دکھائی دے تو اس کے خلاف مختلف ممالک کی فوجوں کو ایک کمان کے تحت متحد کر کے متعلقہ ملک پر عسکری یلغار بھی کر دی جاتی ہے۔ اس طرح دنیا کی کوئی بھی حکومت اپنے ملک میں ان معاہدات کے دائرے سے ہٹ کر کسی بھی معاملہ میں از خود کوئی فیصلہ کرنے کی مجاز نہیں ہے اور نہ ہی کسی ملک میں عوام کے براہ راست ووٹوں سے منتخب ہونے والی پارلیمنٹ کوئی آزادانہ فیصلہ کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔

بین الاقوامی معاہدات کی پابند حکومتیں اور منتخب اسمبلیاں کہنے کو خود مختار سمجھی جاتی ہیں اور ہر ملک میں ان کی خود مختاری اور بالادستی کا ڈھنڈورا بھی پیٹا جاتا ہے لیکن کوئی حکومت یا پارلیمنٹ بین الاقوامی معاہدات کی جکڑ بندی سے آزاد نہیں ہے اور عملاً دنیا کے کم و بیش تمام ممالک میں بین الاقوامی معاہدات کی حکومت ہے اور ان کی عملداری کی ذمہ داری اقوام متحدہ نے اٹھا رکھی ہے۔

اقوام متحدہ اگر خود کو ملکوں اور قوموں کے درمیان تنازعات کے حل کے لیے ثالثی کے کردار تک محدود رکھتی تو بات کسی حد تک سمجھ میں آنے والی تھی لیکن آج ہماری یعنی مسلمانوں کی صورت حال یہ ہے کہ نکاح و طلاق، وراثت، دینی تعلیم، مذہبی اقدار، توہین رسالتؐ، ختم نبوت جیسے بنیادی عقیدہ کی تعبیر و تشریح اور میاں بیوی کے باہمی تعلق جیسے معاملات میں بھی ہم اقوام متحدہ کی ہدایات کے پابند ہیں۔ حتیٰ کہ کسی بھی اسلامی ملک میں قرآن و سنت کے کسی قانون کے نفاذ یا کسی مسلم معاشرہ میں اسلامی تعلیمات کی عملداری کی بات کی جاتی ہے تو یہ بین الاقوامی معاہدات مسلمانوں کی راہ میں رکاوٹ بن جاتے ہیں اور اقوام متحدہ سمیت بہت سے عالمی ادارے بین الاقوامی معاہدات کا ڈنڈا اٹھائے اسلامی تعلیمات پر عمل کے خواہش مند مسلمانوں کے سروں پر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ دنیا کے کسی حصہ میں مسلمان اپنے اکثریتی علاقہ اور خود مختار ملک میں بھی قرآن و سنت کے احکامات پر عمل کرنے میں آزاد نہیں ہیں۔

دوسری طرف ملکوں اور قوموں کے درمیان تنازعات کو حل کرانے میں اقوام متحدہ کی دوغلی پالیسی اور منافقانہ طرز عمل بھی ایک زندہ حقیقت ہے جس کی ایک مثال یہ ہے کہ فلسطین کا مسئلہ حل کرانے میں اقوام متحدہ ابھی تک ناکام ہے جبکہ سوڈان کو دو حصوں میں تقسیم کر کے ایک نئی مسیحی ریاست کا راستہ ہموار کرنے میں اقوام متحدہ کو زیادہ وقت نہیں لگا۔ اسی طرح انڈونیشیا میں ایسٹ تیمور کے نام سے ایک مسیحی ریاست کی تشکیل کو اقوام متحدہ اپنے قابل فخر کارناموں میں شمار کرتی ہے، مگر جموں و کشمیر کے عوام کو آزادانہ رائے شماری کا تسلیم شدہ حق دلوانے میں اقوام متحدہ مسلسل بے بسی کا روپ دھارے ہوئے ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کے مذہبی، تعلیمی اور ثقافتی معاملات میں مسلسل مداخلت اور فلسطین و کشمیر جیسے سنگین مسائل کو حل کرنے میں اس کی ناکامی نے دنیا بھر کے مسلمانوں کے ذہنوں میں اقوام متحدہ کے خلاف شکوک و شبہات کا ایک جنگل آباد کر رکھا ہے اور یہ جذبات نفرت اور غیظ و غضب کی شکل اختیار کرتے جا رہے ہیں۔

عالم اسلام کی طرف سے ملائیشیا کے سابق وزیر اعظم مہاتیر محمد نے اپنے دور میں اقوام عالم کو اس دھاندلی کی طرف توجہ دلائی تھی اور یہ مطالبہ کر کے پوری دنیائے اسلام کے جذبات کی ترجمانی کی تھی کہ بین الاقوامی معاہدات پر نظر ثانی کی جائے اور سلامتی کونسل میں ویٹو پاور رکھنے والے ممالک کی فہرست میں مسلمانوں کی باضابطہ شمولیت کی کوئی عملی صورت نکالی جائے، مگر مہاتیر محمد کے اس جائز اور منصفانہ مطالبے کی طرف بین الاقوامی اسٹیبلیشمنٹ تو کجا خود مسلم حکمرانوں نے بھی توجہ نہیں دی تھی۔

آج اقوام متحدہ کے قیام کو سات عشرے مکمل ہونے کو ہیں مگر اس کے عملی کردار کا جائزہ لیا جائے تو ایک مسلمان کو اس کے سوا کچھ نظر نہیں آتا کہ اس عالمی فورم نے عالم اسلام میں بین الاقوامی معاہدات کے ذریعہ نفاذِ اسلام کا راستہ روک رکھا ہے، فلسطین و کشمیر کے سنگین مسائل کو حل کرانے میں ناکامی بلکہ زیادہ واضح الفاظ میں انہیں ’’حل نہ کرانے میں کامیابی‘‘ کا تمغہ اپنے سینے پر سجایا ہوا ہے۔ اور یہ بین الاقوامی پلیٹ فارم دنیا میں مغربی فکر و فلسفہ کی یلغار اور ویٹو پاور رکھنے والے ملکوں کی سیاسی بالادستی کے لیے سب سے بڑا ہتھیار بن کر رہ گیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس پس منظر میں سعودی عرب کا سلامتی کونسل میں نشست قبول کرنے سے انکار زمینی حقائق کے صحیح ادراک کے ساتھ ساتھ اسلامیان عالم کے جذبات کی ترجمانی بھی ہے اور ہم سعودی عرب کے اس موقف کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے مبارک باد پیش کرتے ہیں کہ:

’’گزشتہ ۶۵ برس سے مسئلہ فلسطین کا کوئی مستقل حل دریافت نہیں کیا جا سکا، اس مسئلہ نے مشرق وسطیٰ میں کئی جنگوں کو جنم دیا اور دنیا بھر کے امن اور سلامتی کے لیے یہ مسئلہ ایک خطرہ بنا رہا۔ سلامتی کونسل اب تک اس کا کوئی ایسا حل نہیں نکال سکی جو عدل و انصاف پر مبنی ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کونسل اپنے اصل فرائض کی ادائیگی میں ناکام رہی ہے۔ سلامتی کونسل میں جس طرح کام ہوتا ہے، اس کے دوہرے معیار جس طرح کے ہیں وہ اس ادارے کو اپنے فرائض ادا کرنے سے روکتے ہیں اور دنیا میں امن قائم رکھنے کی ذمہ داریاں نباہنے نہیں دیتے۔ اس بنا پر ہمارے پاس اور کوئی آپشن نہیں کہ ہم سلامتی کونسل کی اس نشست کو قبول کرنے سے انکار کر دیں اور اس وقت تک اس نشست کو قبول نہ کریں جب تک اس روش کو بدلا نہیں جاتا اور جب تک سلامتی کونسل عالمی امن کے قیام کے لیے اپنی ذمہ داریاں نباہنے کے قابل نہیں ہو جاتی۔‘‘

ہمیں خوشی ہے کہ سعودی عرب کے اس فیصلے پر فرانس نے ہمدردانہ رد عمل کا اظہار کر کے اسے صرف مسلمانوں کا مسئلہ نہیں رہنے دیا۔ روزنامہ دنیا لاہور میں ۲۰ اکتوبر کو شائع ہونے والی خبر کے مطابق فرانس کے دفتر خارجہ کے ترجمان رومین ندال نے کہا ہے کہ وہ سلامتی کونسل سے متعلق سعودی احساسات کو درست اور جائز سمجھتے ہوئے ان کی تائید کرتے ہیں کیونکہ سلامتی کونسل کے عملاً مفلوج ہو کر رہ جانے کے بعد ان احساسات کا پیدا ہو جانا بلا جواز نہیں ہے۔

فرانس کے دفتر خارجہ کے یہ ریمارکس سلامتی کونسل کے حقیقی کردار کی نشاندہی کر رہے ہیں جس پر ہمارے ذہن میں اردو شعر کا یہ مصرعہ گونجنے لگا ہے کہ

لو وہ بھی کہہ رہے ہیں کہ بے ننگ و نام ہے
   
2016ء سے
Flag Counter