تحفظ ختم نبوت کا بحران اور قدرت کا سبق!

   
۶ دسمبر ۲۰۱۷ء

تحریک لبیک یا رسول اللہؐ کے دھرنے ختم ہوگئے ہیں لیکن اس کے مختلف پہلوؤں پر بحث و تمحیص کا سلسلہ جاری ہے جو شاید خاصی دیر تک جاری رہے گا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھی اس صورت حال کا نوٹس لیا ہے اور چیف جسٹس جناب شوکت عزیز صدیقی کے ریمارکس دوستوں کی نظر سے گزر چکے ہیں۔ ہائی کورٹ میں اٹھائے گئے نکات پر عدالت عظمٰی ہی کوئی فیصلہ کرے گی مگر اس سے ہٹ کر کچھ عمومی نوعیت کے سوالات پر چند گزارشات قارئین کی خدمت میں پیش کی جا رہی ہیں۔

ہمارے گزشتہ کالم پر ایک دوست نے کہا ہے کہ جس ترمیمی بل کے ذریعے ختم نبوت کے بارے میں قانونی دفعات کو دوبارہ پہلی پوزیشن پر بحال کیا گیا ہے وہ پارلیمنٹ میں اس وقت کے وزیرقانون جناب زاہد حامد نے پیش کیا تھا، اسے جمعیۃ علماء اسلام کے پارلیمانی گروپ سے ہم نے کیسے منسوب کر دیا ہے؟ اس حوالہ سے عرض ہے کہ پارلیمنٹ میں یہ بل قواعد و ضوابط کے مطابق وزیرقانون نے ہی پیش کرنا تھا مگر ہماری معلومات کے مطابق اس بل کا مسودہ جمعیۃ علماء اسلام کے پارلیمانی گروپ نے تیار کیا تھا جسے وزیرقانون نے ایوان میں پیش کیا تھا۔

ایک اور دوست نے کہا ہے کہ ایوان میں متنازعہ بل پر بحث کے دوران سینیٹر حافظ حمد اللہ کے ساتھ جماعت اسلامی کے ایم این اے صاحبزادہ طارق اللہ جان نے بھی آواز اٹھائی تھی اور ایک ترمیمی تجویز پر محترم جناب سینیٹر سراج الحق کے دستخط بھی بتائے جاتے ہیں ان کا ہمارے کالم میں ذکر نہیں ہے۔ یہ بات درست ہے اور ہم اس فروگزاشت پر صاحبزادہ موصوف اور ان کے ساتھیوں سے معذرت خواہ ہیں۔

ایک صاحب نے سوال اٹھایا ہے کہ اس مسئلہ میں دھرنوں کا اہتمام بریلوی مکتب فکر کے حضرات نے کیوں کیا ہے اور دیوبندی حضرات ایسا کیوں نہیں کر سکے اس لیے کہ روایتی طور پر یہ کام دیوبندی حضرات کا تھا ؟ میں نے عرض کیا کہ یہ سوال بریلوی حضرات سے کرنا تو درست نہیں ہے کہ انہوں نے ایسا کیوں کیا ہے اس لیے کہ میدان خالی دیکھ کر کسی نہ کسی نے تو آنا ہی تھا۔ البتہ دیوبندی حلقوں کو اس سوال کا جواب تلاش کرنا چاہیے کہ وہ اس بار یہ ذمہ داری کیوں نہیں اٹھا سکے، بالخصوص اس احساس کے تناظر میں یہ سوال زیادہ اہمیت اختیار کر جاتا ہے کہ وہ اگر ایسا کرتے تو یہ صرف مسلکی مورچہ نہ ہوتا بلکہ ان کے ساتھ دیگر مکاتب فکر بھی میدان میں آتے اور تحریک ختم نبوت کی اجتماعیت کا تاثر مجروح نہ ہوتا۔

ہمارے خیال میں اس پہلو پر خاصے عرصہ سے بہت اعلیٰ سطح پر کوشش ہو رہی ہے کہ مختلف مذہبی مکاتب فکر کے درمیان مسلکی کشمکش کو اس قدر بڑھایا جائے کہ اگر وہ آپس میں کھلے بندوں برسرِ پیکار نہیں ہوتے تو کم از کم اتنا ضرور ہو جائے کہ مشترکہ دینی و قومی مقاصد مثلاً نظام مصطفٰیؐ، ناموس رسالتؐ اور تحفظ ختم نبوتؐ جیسے معاملات میں یہ سب مکاتب فکر ضرورت کے وقت جو اکٹھے ہو جاتے ہیں اور ایک مضبوط اجتماعی قوت کی حیثیت اختیار کر لیتے ہیں اس کا ماحول ختم ہو جائے۔ اور قومی و ملی اجتماعی مسائل کے بارے میں بھی ان کی جدوجہد الگ الگ مسلکی دائروں میں بٹ کر رہ جائے تاکہ ان میں سے ہر ایک کے ساتھ الگ طور پر نمٹا جا سکے۔ ہمارے ہاں مسلکی لڑائیوں اور فرقہ وارانہ انتہاپسندی کا ڈھنڈورا بہت پیٹا جاتا ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ تمام تر مسلکی اختلافات اور تنازعات کے باوجود اجتماعی معاملات میں یہ سب اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ ہم آپس میں لڑتے بھی ہیں حتیٰ کہ بعض معاملات میں باہمی فتویٰ بازی پریشان کن صورتحال پیدا کر دیتی ہے لیکن دنیا کئی بار یہ منظر دیکھ چکی ہے کہ جب بھی نظام مصطفٰیؐ، تحفظ ختم نبوتؐ اور ناموس رسالتؐ کا کوئی مسئلہ کھڑا ہوتا ہے ہم سب آپس میں لڑتے لڑتے بھی ایک فورم پر جمع ہو جاتے ہیں اور پھر اس متحدہ دینی قوت کا سامنا کرنا کسی کے بس میں نہیں رہتا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اصل ہدف وحدت کے اس ماحول کو کمزور کرنا ہے جس کے لیے انتہائی اعلیٰ اور ذہین دماغ عرصہ سے منصوبہ بندی میں مصروف چلے آرہے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے ایسا ہو نہیں پا رہا اور ہر بار ’’ومکروا ومکر اللہ‘‘ کی کوئی نہ کوئی صورت غیب سے نمودار ہو جاتی ہے اور ان منصوبوں سے کچھ زیادہ کارآمد نتائج برآمد نہیں ہو پاتے۔

گزشتہ روز علماء کرام اور طلبہ کی ایک محفل میں اس پر بات چل نکلی تو میں نے عرض کیا کہ اسے اگر دیوبندی بریلوی تناظر میں بھی دیکھا جائے تو ہم دیوبندی ’’ان تتولوا یستبدل قوماً غیرکم‘‘ کا شکار ہوئے ہیں جبکہ ہمارے بریلوی دوست دھرنوں میں ظاہری کامیابی کے بعد بھی باہمی الزام تراشی اور محاذ آرائی کے باعث ’’کالتی نقضت غزلہا من بعد قوۃ انکاثا‘‘ کا نمونہ بن کر رہ گئے ہیں جو دونوں کے لیے عبرت کا سبق ہے اور اس میں قدرت کا یہ پیغام موجود ہے کہ مشترکہ قومی و ملی مسائل میں الگ الگ نہیں بلکہ اکٹھے مل کر ہی آگے بڑھنا ہوگا، یہ ہماری قومی روایت ہے جس سے انحراف قدرت کو بھی منظور نہیں ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter