جامعہ اشرفیہ لاہور کی ساٹھ سالہ تقریبات کا آغاز ہو گیا ہے اور ملک بھر سے مشائخ عظام، علماء کرام، طلبہ اور دینی کارکن ہزاروں کی تعداد میں جمع ہو کر اس عظیم دینی درسگاہ اور روحانی تربیت گاہ کے ساتھ اپنی نسبت اور تعلق کا اظہار کر رہے ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد نیلا گنبد لاہور کی جامع مسجد اور اس کے قریب ایک عمارت میں شروع ہونے والا یہ مدرسہ آج ایک عظیم درسگاہ کی صورت اختیار کر چکا ہے اور مسلم ٹاؤن میں پنجاب یونیورسٹی کے پہلو بہ پہلو نہر کے دوسرے کنارے پر جامعہ اشرفیہ بھی ایک یونیورسٹی کی آب و تاب کے ساتھ دینی علوم کی تدریس و ترویج میں مصروف کار ہے۔
یہ دونوں ’’یونیورسٹیاں‘‘ تھوڑے سے فاصلے کے ساتھ آمنے سامنے ہیں، دیکھنے میں ان کے درمیان ایک نہر حائل ہے لیکن جب اسے تاریخ کے پیمانے سے ماپا جائے تو یہ فاصلہ ڈیڑھ صدی تک طویل ہو جاتا ہے۔ اب سے ڈیڑھ صدی قبل وہ تمام علوم ایک ہی جگہ پڑھائے جاتے تھے جو اب ان دونوں میں الگ الگ طور پر پڑھائے جاتے ہیں، درس نظامی ہی تمام تعلیمی اداروں کا نصاب تعلیم تھا یا اس سے ملتے جلتے دوسرے نصاب زیر درس تھے۔ لیکن ۱۸۵۷ ء کے بعد یہ بساط الٹ دی گئی، دنیا کو دین سے الگ کر دیا گیا اور تعلیم گاہوں میں دنیا کی ضروریات کو مرکزی ہدف قرار دے کر اس سے متعلقہ علوم و فنون تک نصاب تعلیم کو محدود کر لیا گیا، دین ذاتی دلچسپی کی چیز قرار پایا اور وہ بھی بقدر اشک بلبل۔ چنانچہ درس نظامی کے وارثوں نے فیصلہ کیا کہ اسے اس طرح تاریخ سے محو نہیں ہونے دیا جائے گا اور نصاب تعلیم کے دینی مواد اور حصوں کو اس وقت تک باقی رکھنے کی کوشش کی جائے گی جب صرف دنیا پر قناعت کرنے والوں کو اپنی غلطی کا احساس ہوگا اور وہ دین کو بھی ساتھ لے کر چلنے کی ضرورت محسوس کرنے لگیں گے۔ تاکہ ایسا نہ ہو کہ جب انہیں دینی علوم اور فنون کی ضرورت کا احساس ہو تو انہیں تلاش کرنے میں وقت لگ جائے اور ان کا دستیاب ہونا ایک مستقل مسئلہ کی صورت اختیار کر جائے۔
اب سے دو صدیاں قبل جب یہودیوں نے دو ہزار سال تک دربدر کے دھکے کھانے کے بعد صیہونی تحریک کے نام سے یہودی قوم کی نشاۃ ثانیہ کا فیصلہ کیا تو ان کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ توراۃ کی زبان عبرانی تھی اور یہودی مذہب کا زیادہ تر علمی سرمایہ اس زبان میں تھا جو متروک ہو چکی تھی، ناپید تھی اور اسے دنیا کی زندہ زبانوں میں کوئی مقام حاصل نہیں تھا۔ چنانچہ سب سے پہلے عبرانی زبان کو زندہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور اسے دوبارہ زندہ زبانوں کی صف میں لانے کی کوشش کی گئی تاکہ اپنے مذہب کے قدیم علمی ورثہ کے ساتھ یہودیوں کی وابستگی کا احیاء ہو سکے۔ جبکہ برصغیر جنوبی ایشیا کے درس نظامی کے ورثاء نے اس سے سبق حاصل کیا اور یہ طے کر لیا کہ عربی زبان اس خطہ میں زندہ رہے گی اور دینی علوم و فنون کی تدریس بھی باقی رہے گی۔ چنانچہ اس مقصد کے لیے دیوبند، سہارنپور، مراد آباد اور ہاٹ ہزاری میں پرائیویٹ سطح پر جن دینی اور عربی درسگاہوں کا آغاز کیا گیا انہی کے تسلسل کا ایک حصہ جامعہ اشرفیہ لاہور بھی ہے۔ حضرت مولانا مفتی محمد حسن قدس اللہ سرہ العزیز کا تعلق علاقہ چھچھ سے تھا، زندگی کا بیشتر حصہ امرتسر میں گزر گیا، علوم کی تکمیل دیوبند اور سلوک کی تکمیل تھانہ بھون میں کی اور رہتی دنیا تک فیض کا باعث بننے والا صدقہ جاریہ لاہور میں قائم کیا۔
حضرت مفتی صاحبؒ اپنے اکابر کی روایات کے امین تھے، ایک بلند پایا مدرس ہونے کے ساتھ ساتھ حکیم الامت حضرت تھانویؒ سے خلافت کا اعزاز پانے والے عظیم المرتبت صوفی بھی تھے لیکن اس کے علاوہ ایک ملی اور سیاسی راہ نما بھی تھے کہ ان کا حصہ تحریک پاکستان میں بھی نمایاں ہے اور پاکستان بن جانے کے بعد اسے ایک اسلامی ریاست بنانے میں ان کا کردار روشن ہے۔ وہ ان علماء کرام میں سے تھے جنہوں نے حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کی ہدایت پر اور شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمدؒ عثمانی کی قیادت میں جمعیۃ علماء اسلام قائم کر کے تحریک پاکستان کا ساتھ دیا اور اسے کامیابی تک پہنچانے میں سرگرم کردار ادا کیا۔
پاکستان بن جانے کے بعد اسے سیکولر ریاست بننے سے روکنا اور ایک نظریاتی اسلامی ریاست کی شکل دینا تحریک پاکستان سے بھی زیادہ کٹھن مرحلہ تھا اور شیخ الاسلام علامہ شبیر احمدؒ عثمانی کی وفات کے بعد اس درجہ کی قیادت کے خلاء نے اس مسئلہ کو اور زیادہ سنگین بنا دیا تھا۔ اس مرحلہ میں جن شخصیات نے جمعیۃ علماء اسلام کے پلیٹ فارم کو متحرک رکھنے کی کوشش کی اور پاکستان کو ایک اسلامی ریاست کی شکل دینے میں علماء اسلام کے کردار کو زندہ رکھنے میں بھر پور کردار ادا کیا ان میں حضرت مولانا مفتی محمد حسنؒ کا نام بہت نمایاں ہے اور ان کا کردار ایک مستقل باب کی حیثیت رکھتا ہے، ان کے ساتھ اس محاذ پر حضرت مولانا ظفر احمدؒ عثمانی، حضرت مولانا مفتی محمد شفیعؒ، حضرت مولانا احتشام الحق تھانویؒ، حضرت مولانا ظفر احمد انصاریؒ، حضرت مولانا اطہر علیؒ، حضرت مولانا محمد متین خطیبؒ، حضرت مولانا غلام مرشدؒ اور دوسرے بزرگ بھی سرگرم تھے۔ حضرت مفتی صاحبؒ کو اس قافلہ کے سرپرست اعلیٰ اور بزرگ راہنما کی حیثیت حاصل تھی، انہوں نے نیلا گنبد میں جامعہ اشرفیہ قائم کیا تو انہیں حضرت مولانا رسول خانؒ اور حضرت مولانا ادریس کاندھلویؒ کی رفاقت میسر آگئی جو علم و فضل کی دنیا کے آفتاب و ماہتاب تھے، ایک معقولات کے امام کہلاتے تھے اور دوسرے بزرگ منقولات کے امام کا تعارف رکھتے تھے، دونوں اپنے وقت کے بڑے بڑے علماء کرام کے استاذ تھے اور اپنے عظیم اسلاف کی شاندار روایات کے امین ہونے کی وجہ سے ملک بھر کے علماء و طلبہ کی عقیدت و الفت کا مرکز تھے۔ یہ ان تینوں بزرگوں کی علمی وجاہت اور کردار کی کشش تھی جس نے جامعہ اشرفیہ کو بہت جلد ملک کے بڑے مدارس کی صف میں کھڑا کر دیا اور اب اسے صرف ایک بڑے مدرسہ کا ہی نہیں بلکہ حقیقی معنوں میں ایک جامعہ کا مقام حاصل ہے۔
جامعہ اشرفیہ میں وہی کچھ پڑھایا جاتا ہے جو ملک کے باقی مدارس میں پڑھایا جاتا ہے لیکن اس کی دو خصوصیات کا تذکرہ ضروری سمجھتا ہوں:
- ایک یہ کہ جامعہ نے ہر دور میں کوشش کی ہے کہ ملک کے اکابر علماء کرام اور چوٹی کے مدرسین کی خدمات حاصل کی جائیں، چنانچہ استاذ الکل حضرت مولانا رسول خانؒ اور شیخ المحدثین حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلویؒ کے بعد بھی یہ تسلسل قائم ہے۔ اور نہ صرف یہ کہ حضرت مولانا مفتی محمد حسنؒ کے فرزندان گرامی حضرت مولانا محمد عبید اللہ المفتی مدظلہ اور حضرت مولانا عبد الرحمان اشرفی کا شمار چوٹی کے مدرسین میں ہوتا ہے بلکہ جامع المعقول و المنقول حضرت مولانا محمد موسیٰ روحانی بازیؒ اور استاذ العلماء حضرت مولانا صوفی محمد سرور صاحب مدظلہ کے ذریعہ بھی اس تسلسل کو قائم رکھنے کی کامیاب کوشش کی گئی۔ جبکہ جامعہ اشرفیہ کو جدید سے جدید تر سہولتیں مہیا کرنے اور دور جدید کے تقاضوں کو جامعہ اشرفیہ کے نصاب و نظام میں سمو دینے کے لیے حضرت مولانا فضل رحیم مدظلہ جس حوصلہ و شعور کے ساتھ کمربستہ ہیں وہ ملک بھر کے مدارس کے منتظمین کے لیے قابل رشک ہے۔
- جامعہ اشرفیہ کے نصاب کی دوسری بڑی خصوصیت، جو میرے نزدیک بہت اہمیت رکھتی ہے، تعلیم و تدریس کے ساتھ ساتھ تزکیہ و تربیت کے ماحول کو قائم رکھنے اور حکیم الامت حضرت تھانوی قدس سرہ العزیز کے روحانی فیوض کے ساتھ اساتذہ و طلبہ کا تعلق قائم کرنے کی کوشش ہے جس کے لیے جامعہ کے اپنے ماحول میں مجلس صیانۃ المسلمین کی سرگرمیاں اور اس کے تحت ہونے والے اجتماعات کا تسلسل ہے جو مدرسہ و خانقاہ کے امتزاج کا نقشہ پیش کر رہا ہے۔
چند ماہ قبل جامعہ اشرفیہ میں’’ تحفظ حدود اللہ‘‘ کے حوالے سے کامیاب ملک گیر کنونشن ہوا تو مجھے محسوس ہوا کہ حضرت مولانا مفتی محمد حسن قدس سرہ العزیز کی تگ و تاز کا وہ پہلو جاگ اٹھا ہے جو انہوں نے پہلے پاکستان کے قیام کی تحریک میں اور پھر اسے ایک اسلامی ریاست بنانے کی جدوجہد میں پیش کیا تھا اور جس کو ازسرنو متحرک کرنا نئی نسل کے ذمہ حضرت مفتی صاحبؒ کے قرض کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس ماحول اور پس منظر میں جامعہ اشرفیہ لاہور کی ساٹھ سالہ تقریبات ہو رہی ہیں جس میں جامعہ کی ملک گیر خدمات اور اس کی تعلیمی جدوجہد کے عالمگیر اثرات کا نقشہ سامنے آئے گا، اس کے فضلاء اور منتسبین کا اپنی مادر علمی و روحانی کے ساتھ تعلق تازہ ہوگا اور جامعہ اشرفیہ کے مستقبل کے عزائم اور اہداف بھی واضح ہوں گے جو دینی مدارس اور دینی تعلیم کے خلاف بڑھتے ہوئے عالمی دباؤ کے اس ماحول میں یقیناً تمام دینی مدارس کے لیے مشعل راہ ثابت ہوں گے۔
ہم دعا گو ہیں کہ اللہ رب العزت جامعہ اشرفیہ لاہور کے اس عظیم اجتماع کو اپنے اہداف اور مقاصد میں کامیابی سے ہمکنار کریں اور ماضی سے زیادہ بہتر انداز میں ملک میں علماء کرام اور دینی حلقوں کی علمی و روحانی جدوجہد میں راہ نمائی کرنے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔