ان دنوں اخبارات اور ٹی وی نشریات میں نائجیریا کے ایک بچے کا تذکرہ اہتمام کے ساتھ ہو رہا ہے جو مبینہ طور پر قرآن کریم کی تلاوت کرتا ہے اور لوگوں سے خطاب بھی کرتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ بچہ افریقی ملک نائجیریا کے ایک عیسائی گھرانے میں پیدا ہوا اور ڈیڑھ سال کی عمر میں کسی تعلیم کے بغیر قرآن کریم کی زبانی تلاوت شروع کر دی۔ اب وہ پانچ سال کا ہے اور پورا قرآن کریم زبانی پڑھتا ہے اور اسلام کے حوالے سے خطاب بھی کرتا ہے۔ اخباری رپورٹ کے مطابق اس کا بڑا بھائی یہ دیکھ کر مسلمان ہو گیا ہے، جبکہ ان دونوں بھائیوں کو عیسائی ماں باپ نے گھر سے نکال دیا ہے، اور نائیجریا حکومت نے انہیں سرکاری مہمان کی حیثیت دے کر اپنی تحویل میں لے لیا ہے۔
قرآن کریم جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے بڑا معجزہ ہے اور اس کا اعجاز قیامت تک باقی رہے گا، جو کسی وقت کسی بھی شکل میں ظاہر ہو سکتا ہے۔ اس لیے اگر مذکورہ واقعہ اسی طرح ہے جس طرح بیان کیا جاتا ہے تو اس سے انکار کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور یہ قرآن کریم کا اعجاز شمار ہو گا۔ لیکن کم و بیش ربع صدی قبل اس قسم کا ایک واقعہ انڈونیشیا میں بھی ظاہر ہوا تھا کہ زہرہ فوما نامی ایک خاتون نے دعویٰ کیا کہ اس کے پیٹ میں بچہ حرکت کرتا ہے اور قرآن کریم کی تلاوت کرتا ہے جس کی آواز سنائی دیتی ہے۔ کچھ عرصہ تک یہ سلسلہ چلتا رہا کہ لوگ زہرہ فوما کے پیٹ میں بچے کی حرکت دیکھتے اور قرآن کریم کی تلاوت کی آواز بھی سنتے۔ حتیٰ کہ اس وقت کے انڈونیشی صدر نے بھی ایک عوام محفل میں اس کا مشاہدہ کیا اور عالمی پریس میں کئی ماہ تک اس کا تذکرہ ہوتا رہا، مگر آخرکار وہ ڈرامہ ثابت ہوا اور کئی ماہ کی ڈرامہ بازی کے بعد اصل حقیقت یہ سامنے آئی کہ (مبینہ طور پر) اس خاتون نے آپریشن کے ذریعے پیٹ میں ٹیپ ریکارڈر سیٹ کرا رکھا تھا جس سے قرآن کریم کی آواز آتی تھی۔ لہٰذا اس واقعہ کو سامنے رکھتے ہوئے نائجیریا کے اس بچے کے بارے میں یقینی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ اس کی اصل حقیقت کیا ہے۔
اس لیے ہم مسلمانوں سے گزارش کریں گے کہ وہ اس سلسلہ محتاط رہیں۔ اسلام اور قرآن پاک کی سچائی ابدی ہے اور وہ اس قسم کے واقعات کی محتاج نہیں۔ اگر کوئی واقعہ رونما ہو جائے تو اس سے انکار بھی نہیں ہے، مگر ایسی باتوں پر ساری توجہ مبذول کر لینا، انہیں کسی مہم کی بنیاد بنانا، اور ان میں بلاوجہ وقت اور صلاحیتیں صَرف کرتے رہنا دینی تقاضوں سے مطابقت نہیں رکھتا۔