(علماء کرام کے ایک علاقائی اجتماع سے خطاب۔)
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ حضرت مولانا عبد الواحد مہتمم جامعہ انوار مدینہ کا شکر گزار ہوں کہ گزرتے ہوئے ہم نے تھوڑی دیر رکنے کا ارادہ کیا تو انہوں نے آپ حضرات کے ساتھ ملاقات کا موقع فراہم کر دیا۔ اللہ تعالیٰ ان کو جزائے خیر دیں، ہمارا مل بیٹھنا قبول فرمائیں اور کچھ مقصد کی باتیں کہنے سننے کی توفیق عطا فرمائیں۔ حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ یہ بات ارشاد فرمایا کرتے تھے کہ علاقے کے علماء اگر کبھی کبھی اکٹھے مل بیٹھ کر چائے ہی پی لیں اور لوگوں کو نظر آ جائے کہ علماء کرام اکٹھے بیٹھے ہیں تو ہمارا آدھا کام ہو جاتا ہے۔ آپ کا یہ ذوق دیکھ کر مجھے خوشی ہے، اور الحمد للہ پورے ملک میں یہ ذوق بیدار ہو رہا ہے۔
ہمارا بنیادی کام مسجد، مدرسہ، تعلیم، نماز اور لوگوں کی رہنمائی ہے، لیکن اس کے ساتھ ملک کی عمومی دینی جدوجہد بھی ہمارے دائرہ کار سے باہر نہیں ہے۔ اگر ہم دینی جدوجہد کے کسی شعبے میں حصہ لیتے ہیں تو یہ زائد از ڈیوٹی عمل نہیں ہے بلکہ ہماری ذمہ داری کا حصہ ہے۔ میں یہ عرض کیا کرتا ہوں کہ کسی بھی عالم دین کا ملک کی عمومی دینی جدوجہد سے لاتعلق رہنا میری نظر میں کبیرہ گناہ سے بھی بڑی چیز ہے، یہ نہ سوچیں کہ ہوتا رہے گا بلکہ یہ سوچیں کہ ہم نے کرنا ہے۔
دینی جدوجہد کے مختلف دائرے ہیں:
(۱) نفاذِ شریعت کے لیے دینی اور سیاسی جدوجہد
(۲) ختمِ نبوت
(۳) ناموسِ صحابہ
(۴) دعوت و تبلیغ
(۵) تعلیم و تدریس
(۶) تزکیہ و سلوک
(۷) رفاہِ عامہ
یہ سبھی ہمارے دائرے ہیں۔ جہاں آپ کا ذوق ہے وہاں شامل ہوں۔ اگر سیاسی جدوجہد کا ذوق ہے تو اس دائرے میں جائیں، اگر ختمِ نبوت، ناموسِ صحابہ یا دعوت و تبلیغ کا ذوق ہے تو اس میں شریک ہوں۔ ظاہر ہے کہ آپ کو وہی کام کرنا چاہیے جہاں آپ کا ذوق ملتا ہے، البتہ کسی دوسرے کام کی نفی مت کریں۔ ہم یہاں آ کر پھسل جاتے ہیں کہ اپنا کام کرتے ہوئے دوسرے کاموں کی نفی کرتے ہیں، ان کا مذاق اڑاتے ہیں اور اپنی ترجیح ثابت کرنے کے لیے دوسرے کاموں کو مرجوح سے بڑھا کر مردود کا درجہ دے دیتے ہیں۔ آپ دوسروں کے ساتھ تعاون کر سکتے ہیں تو کریں، ورنہ اپنا کام کریں۔ یہ آج کی ہماری دینی اور قومی ضرورت ہے۔ آج کی عمومی صورتحال میں بہت سے مسائل ہیں جن میں سے دو تین کا ذکر کرنا چاہوں گا۔
(۱) اوقاف ایکٹ
مثال کے طور پر آپ کو یاد ہوگا کہ ملک میں اوقاف ایکٹ نافذ ہوا تھا جو کہ اب بھی نافذ ہے۔ جس کے تحت ملک میں کسی بھی جگہ کوئی بھی مسجد، مدرسہ یا وقف ادارہ قانوناً اوقاف کی تحویل میں ہے، وہ جب چاہے قبضہ کر لے۔ یہ بات ابھی تک ہم سمجھ نہیں پائے کہ قانوناً ملک کا ہر وقف، ہر مسجد اور مدرسہ کسی استثنا کے بغیر محکمہ اوقاف کے دائرہ اختیار میں آچکا ہے، اب ان کی مرضی ہے کہ کب قبضہ کرتے ہیں۔ اس پر ہم نے تب بھی شور مچایا تھا اور اب بھی عملدرآمد میں رکاوٹ کے لیے آواز بلند کر رہے ہیں، اس لیے کہ یہ شرعی احکام، دستوری تقاضوں اور شہری حقوق کے منافی ہے۔ لیکن قانون بہرحال نافذ ہے، صرف عملدرآمد میں رکاوٹ پڑی تھی اور دینی قیادتوں کے اعتماد کے ساتھ قانون میں ترامیم کا وعدہ کیا گیا تھا۔ کچھ عرصہ سے ہماری خاموشی دیکھ کر مختلف مقامات پر پھر یہ سرگرمیاں شروع ہو گئی ہیں۔ مساجد اور مدارس کے حوالے سے مسئلہ چل رہا ہے، اس لیے ہمیں آواز لگاتے رہنا ہوگا۔
(۲) مدارس کی متوازی رجسٹریشن
اس کے ساتھ ایک اور مسئلہ کھڑا ہو گیا ہے کہ مدارس کے وفاقوں کے ساتھ اوقاف کی جو گفتگو چل رہی ہے وہ تو چل رہی ہے، لیکن محکمہ تعلیم نے مدارس کی متوازی رجسٹریشن شروع کر رکھی ہے اور ان کے بقول ہزاروں مدارس رجسٹرڈ ہو چکے ہیں۔ یعنی مدرسہ وفاق سے بھی ملحق ہے اور محکمہ تعلیم کو بھی رجسٹریشن کی درخواست دے رہا ہے اور وہ اسے قبول کر رہا ہے۔ ملک میں یہ متوازی سسٹم چل رہا ہے۔ اگر ایک مدرسہ وفاق سے بھی ملحق ہے اور محکمہ تعلیم سے بھی رجسٹریشن حاصل کر رہا ہے تو وہ دو بیڑیوں میں پاؤں رکھ رہا ہے، جس دن دونوں بیڑیوں کا فاصلہ بڑھا، کام خراب ہو جائے گا اور یہ ہونے والا ہے۔ میں پرانا کارکن ہوں مجھے اندازہ ہے کہ جن مدارس نے بھی محکمہ تعلیم سے رجسٹریشن کروائی ہے ان کو کچھ عرصہ بعد ان میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہوگا۔
ہم نے دینی مدارس کے وفاقوں کی قیادت سے گزارش کی ہے کہ اس سلسلہ میں اپنا موقف واضح کریں ورنہ ملک کے ہزاروں مدارس مخمصے کا شکار ہو جائیں گے۔ یہ بہت بڑا مسئلہ ہے، اس پر ہمیں آواز اٹھانی چاہیے کہ متوازی اور دوہرا سسٹم قبول نہیں ہے۔ جبکہ مدارس سے میری درخواست ہے کہ سوچ سمجھ کر کام کریں اور وفاقوں سے میری درخواست ہے کہ اپنا موقف واضح کریں کہ محکمہ تعلیم کی اس کارکردگی پر وفاقوں کی رائے کیا ہے؟
(۳) ناموسِ صحابہؓ و اہلِ بیتؓ کا قانون
تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ کچھ عرصہ پہلے قومی اسمبلی نے بل پاس کیا ہے اور اب سینیٹ سے پاس کروانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ حضرات صحابہ کرام، ازواجِ مطہرات اور اہلِ بیت عظام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ناموس کے تحفظ کے حوالے سے متعلقہ قانون میں ترمیم ہوئی ہے۔ قانون میں پہلے بھی ان بزرگوں میں سے کسی کی توہین جرم تھا مگر اس کی سزا کم تھی۔ ہماری کوشش یہ تھی کہ اس جرم کی سزا زیادہ ہونی چاہیے۔ اصل مطالبہ تو موت کی سزا کا ہے لیکن بہرحال دو تین سال کی سزا کم ہے اور ملزم کی ضمانت ہو جاتی ہے۔ ہمارے لیے یہ سارے بزرگ مکرم ہیں، ازواج مطہراتؓ بھی، اہل بیت عظامؓ اور صحابہ کرامؓ بھی۔ کسی ایک صحابی کی کسی بھی حوالے سے توہین ہمارے لیے قابلِ برداشت نہیں ہے۔ یہ سنگین جرم ہے تو اس کی سزا دس سال قید مقرر ہوئی ہے جو قومی اسمبلی نے پاس کر لی ہے، مگر اس کے ساتھ ملک میں شور مچ گیا ہے اور سینٹ میں رکاوٹ ڈالی جا رہی ہے۔ چنانچہ ہم اس موقف کو ہر فورم پر دہرا رہے ہیں کہ قومی اسمبلی کو یہ قانون پاس کرنے پر ہم مبارکباد دیتے ہیں اور سینٹ سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ اس بل کو منظور کیا جائے۔ اسلام آباد میں تمام مکاتبِ فکر کا اجتماع ہوا، گوجرانوالہ میں بھی مشترکہ کنونشن ہوا ہے۔
(۴) سودی نظام کے خاتمہ کی جدوجہد
چوتھی بات کہ ہمارا سب سے پرانا مسئلہ سودی نظام کے حوالے سے چل رہا ہے۔ سودی نظام کے خلاف تیس بتیس سال عدالتی جنگ لڑی گئی ہے۔ اس کے بعد وفاقی شرعی عدالت نے فیصلہ دیا ہے جو بڑا واضح، دوٹوک اور حتمی فیصلہ ہے، لیکن اس فیصلہ کے خلاف بھی رکاوٹیں کھڑی کر دی گئی ہیں۔ ہم نے اس وقت اپیل کی تھی کہ وفاقی شرعی عدالت نے فیصلہ دے کر پانچ سال کا وقت دیا ہے تو اس پر عملدرآمد کیا جائے، یہ کافی عرصہ ہے، ان پانچ سال کے دوران عملی اقدامات کریں اور اس کے خلاف اپیل میں نہ جائیں۔ وفاقی شرعی عدالت کا طریق کار یہ ہے کہ اس کے کسی فیصلے کے خلاف کوئی ایک درخواست بھی سپریم کورٹ میں چلی جائے تو خودبخود سٹے ہو جاتا ہے۔ باقی مقدمات کے لیے سٹے مانگنا پڑتا ہے۔ اس فیصلے کے خلاف ستائیس درخواستیں سپریم کورٹ میں چلی گئیں، جس پر ہم نے آواز اٹھائی اور پھر اس میں یہ مرحلہ بھی آیا کہ ملک بھر میں کنونشنز اور اجتماعات ہوئے۔ اس میں مولانا فضل الرحمٰن اور پروفیسر ساجد میر، سینیٹر مشتاق احمد اور جو ہمارے قائدین سینٹ میں ہیں انہوں نے اپنا اثر و رسوخ استعمال کیا تو وزارتِ خزانہ نے اعلان کیا کہ سرکاری اپیلیں واپس ہو رہی ہیں۔ چنانچہ نیشنل بینک اور اسٹیٹ بینک نے اپنی اپیلیں واپس لیں۔ لیکن اس وقت پوزیشن یہ ہے کہ ستائیس میں سے تیرہ سرکاری اپیلیں واپس ہو گئی ہیں اور چودہ غیر سرکاری اپیلیں باقی ہیں، جبکہ سٹے کے لیے ایک درخواست ہی کافی ہے۔
صورتحال یہ ہے کہ وزارت خزانہ نے اعلان کیا ہے کہ ہم عملدرآمد کریں گے جس کے لیے ٹاسک فورس بنی ہے اور روڈ میپ بنا رہے ہیں۔ علماء کرام سے عرض ہے کہ اس سلسلہ میں ہم نے دو تین کام کرنے ہیں۔ ایک تو ہمیں عوامی دباؤ برقرار رکھنا ہو گا، کیونکہ جو آدمی اونچی سنتا ہو، اس سے آہستہ لہجے میں بات نہیں کی جاتی۔ ہمارا مزاج بن چکا ہے کہ ہم جب تک لوگ سڑکوں پر نہ آئیں، عوامی دباؤ سامنے نہ آئے تو بات سنی نہیں جاتی۔ اس لیے ہمیں دباؤ کا سلسلہ بڑھانا ہو گا۔ دوسرا کام یہ ہے کہ وہ اس فیصلے پر عملدرآمد کے حوالے سے کئی رکاوٹیں اور الجھنیں پیش کریں گے، ان الجھنوں کو حل کرنے کے لیے ہمیں ان سے تعاون کرنا ہوگا۔ یہ ہماری ہر سطح پر ذمہ داری ہے۔ اور تیسرا کام یہ کہ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں عوام کی ذہن سازی بھی کرنا ہو گی۔
شروع میں یہ بات کہی جا رہی تھی کہ غیر سودی بینکاری قابلِ عمل نہیں ہے، لیکن الحمد للہ گزشتہ بیس سال میں غیر سودی بینکاری کا کامیاب تجربہ ہوا ہے۔ علماء کرام کے لیے عرض کروں گا کہ ایک ہے مکمل اسلامی ہونا اور ایک ہے مطلقاً غیر سودی بینکاری۔ یہ ہمارا کام ہے کہ اس کی خامیاں دور کر کے کیسے اسلامی بنانا ہے، لیکن غیر سودی بینکاری کا پوری دنیا میں تجربہ کامیاب ہوا ہے۔ بیس سال پہلے کی اور اب کی پوزیشن میں فرق یہ ہے کہ پہلے کہا جاتا تھا کہ یہ چل نہیں سکتا، ممکن نہیں ہے، لیکن اب پوری دنیا میں غیر سودی بینکاری کا تجربہ کامیابی کے ساتھ چل رہا ہے اور یہ واضح ہو چکا ہے کہ بغیر سود کے بھی بینکاری ہو سکتی ہے اور ہو رہی ہے۔ آئی ایم ایف کی پچھلے سال کی رپورٹ یہ ہے کہ غیر سودی بینکاری میں رسک کم ہے، منافع کا امکان زیادہ ہے۔ وہ تو اسی حوالے سے سوچیں گے کیونکہ کاروباری آدمی اسی حوالے سے ہی سوچتا ہے۔ کرونا کے دوران دو تین سال انہیں اس کا تجربہ ہو چکا ہے۔ بہرحال یہ بہانہ اب ناکام ہوگیا ہے کہ غیر سودی نظام چل نہیں سکتا۔ تاہم ہمیں اس پر اپنا دباؤ قائم رکھنا ہے، جن کی اپیلیں باقی ہیں ان کو اپیلیں واپس لینے کے لیے قائل کرنا ہے اور وزارت خزانہ جو عملدرآمد کا کہہ رہی ہے اس میں ہم نے ان کے ساتھ تعاون کرنا ہے۔
میں نے تین چار گزارشات آپ کے سامنے رکھی ہیں۔ آپ حضرات جہاں جہاں دینی جدوجہد کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ قبول فرمائیں اور اثرات و ثمرات نصیب فرمائیں۔ آمین۔