۱۷ مارچ کو پاکستان کے وزیراعظم جناب محمد خاں جونیجو جلسہ عام سے خطاب کرنے کے لیے ڈیرہ اسماعیل خان پہنچے تو اس موقع پر انہوں نے ایم آر ڈی کے راہنما مولانا فضل الرحمان سے بھی ان کی رہائش گاہ پر عبدل الخیل میں ملاقات کی جو تقریباً ایک گھنٹہ جاری رہی۔ اس ملاقات کا پروگرام پہلے سے طے شدہ تھا جس کا اعلان قومی اخبارات میں ۱۷ مارچ کو آچکا تھا اور متعدد وفاقی وزراء اس ملاقات کا انتظام کرنے کے لیے کافی دنوں سے متحرک تھے بلکہ کراچی کے ایک ذمہ دار بزرگ کی روایت کے مطابق خود جناب محمد خاں جونیجو اور مولانا فضل الرحمان کے درمیان ان کی وساطت سے فون پر گفتگو ہو چکی تھی جس کی بنیاد پر جناب محمد خاں جونیجو نے ڈیرہ اسماعیل خان کے دورہ میں عبد الخیل کو شامل کیا اور اپنے دیرینہ مراسم کا حوالہ دے کر حضرت مولانا مفتی محمود قدس سرہ کی قبر پر فاتحہ خوانی کے علاوہ مولانا فضل الرحمان سے مذکورہ ملاقات کی۔
عام حلقوں کے لیے یہ ملاقات اگرچہ اچانک اور غیر متوقع تبدیلی کی صورت میں سامنے آئی ہے لیکن باخبر اور قریبی حلقے ایک عرصہ سے اس ملاقات کے انتظار میں تھے کیونکہ مولانا فضل الرحمان اور ان کے ہمنواؤں نے ’’شریعت بل‘‘ کی مخالفت میں جو موقف اختیار کیا ہے اس میں اس سلسلہ جنبانی کے خاصے اشارات اور امکانات موجود تھے۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ یہ شریعت بل صدر ضیاء الحق کی لابی کی طرف سے جونیجو حکومت کے لیے مشکلات پیدا کرنے کی غرض سے پیش کیا گیا ہے، اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ صدر ضیاء الحق اور جناب جونیجو کے درمیان ان کے ذہن کے مطابق جو فاصلہ یا کھچاؤ ہے اس میں ان کی ہمدردی اور ذہنی و قلبی رجحان جونیجو حکومت کی طرف ہے۔
متحدہ شریعت محاذ کے راہنما اگرچہ باربار کہہ چکے ہیں کہ ان کے نزدیک صدر ضیاء الحق اور جناب جونیجو کی پالیسیوں میں کوئی فرق نہیں اور ان دونوں کو شریعت کے عملی نفاذ میں رکاوٹ سمجھتے ہیں لیکن اس کے باوجود مولانا فضل الرحمان اور ان کے ہمنواؤں کے بیانات میں بار بار صدر ضیاء کی لابی اور جونیجو حکومت کے لیے شریعت بل کے حوالہ سے مشکلات کا ذکر ایک واضح سگنل تھا جسے جناب محمد خاں جونیجو نے وصول کر لیا اور ایک عام آدمی جو شریعت بل کے خلاف حکومتی حلقوں اور ایم آر ڈی کے موقف میں یکسانیت اور تسلسل کی وجہ معلوم کرنے کے لیے پریشان اور مضطرب تھا اسے بھی اس کے سوال کا جواب مل گیا ہے۔
ہم ایک عرصہ سے کہہ رہے ہیں کہ ملک میں شریعت کے عملی نفاذ کو روکنے کے لیے حکومتی حلقوں اور ایم آر ڈی میں شامل لادین سیاستدانوں کے موقف اور پالیسی میں کوئی فرق نہیں ہے اور یہ دونوں حلقے ذہنی یکسانیت کو عملی اشتراک کی شکل دینے سے نہیں ہچکچائیں گے چنانچہ اس کی عملی صورت سامنے آگئی ہے۔ لیکن ہم اس قلبی اضطراب کا اظہار کیے بغیر بھی نہیں رہ سکتے کہ اے کاش اس مقصد کے لیے ایک عالم دین کا کندھا استعمال نہ ہوتا۔ ایم آر ڈی کے دوسرے راہنما بھی یہ کام بخوبی کر سکتے تھے لیکن یہ بات بھی شاید ان حلقوں کی حکمت عملی کا حصہ ہے کہ شریعت بل کی مخالفت میں اپنی جگہ دونوں حلقوں کو آگے لایا جائے۔ اور یہ کوئی نئی بات نہیں، ماضی بھی اپنی ایسی بہت سی روایات کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے۔
صدر ضیاء الحق کے ریفرنڈم کی بنیاد پر تشکیل پانے والی اسمبلیوں اور حکومت کو تسلیم نہ کرنے کے دوٹوک اور بار بار اعلانات کے بعد طے شدہ پروگرام کے مطابق وزیراعظم جونیجو سے مولانا فضل الرحمان کی یہ ملاقات اور باضابطہ مذاکرات کی پیشکش کے بعد ایم آر ڈی کی نئی حکمت عملی کیا ہوگی؟ اس کا اندازہ لگانا موقف کی اس بنیادی تبدیلی کے بعد کچھ زیادہ مشکل نہیں، لیکن یہ بات ملک کے دینی حلقوں اور ان سیاسی قوتوں کے لیے ضرور لمحۂ فکریہ ہے جو مغرب اور مشرق کی لابیوں سے الگ تھلگ رہتے ہوئے ملک میں صرف شریعت محمدیہ علیٰ صاحبہا التحیۃ والسلام کی بالادستی کے لیے سرگرم عمل ہیں کیونکہ نئی صف بندی ان سے بھی وسیع تر اتحاد اور اشتراک کا تقاضہ کر رہی ہے۔