روزنامہ پاکستان ۲۴ اگست ۲۰۰۶ء کے مطابق ملائیشیا کے وزیر اعظم عبداللہ احمد بداوی نے اپنے ملک کی ریاستوں پر زور دیا ہے کہ وہ ایسے قوانین لاگو کریں جن کے ذریعہ مسلمانوں میں دیگر مذاہب کے پرچار کی ممانعت ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ جن ریاستوں میں ایسے قوانین نہیں ہیں وہ اپنے ہاں مسلمانوں میں دیگر مذاہب کے پرچار کے امتناع کے قوانین وضع کرکے لاگو کریں اور اس سلسلہ میں جو بھی قدم ضروری ہو اٹھایا جائے۔ خبر کے مطابق ملائشیا کی دو کروڑ ساٹھ لاکھ آبادی میں ساٹھ فی صد مسلمان ہیں اور ملائیشیا کا سرکاری مذہب اسلام ہے مگر بدھ مت، عیسائیت، ہندو ازم، سکھ ازم، کنفیوششزم اور دیگر مذاہب بھی موجود ہیں۔ وفاقی دستور میں مسلمانوں کے مذہب تبدیل کرنے پر کوئی پابندی نہیں ہے مگر بعض ریاستوں میں مسلمانوں کو مذہب تبدیل کرنے یا ارتداد اختیار کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ خبر میں بتایا گیا ہے کہ ڈاکٹر عبداللہ احمد بداوی خود بھی ایک عالم دین ہیں اور انہوں نے ملک کی ریاستوں کو ارتداد سے تحفظ کے لیے یکساں قوانین اختیار کرنے کی ہدایت کی ہے۔
گزشتہ سال آکسفورڈ (برطانیہ) کے ایک ہال میں راقم الحروف کو ملائیشیا کے وزیر اعظم ڈاکٹر عبداللہ احمد بداوی کا لیکچر سننے کا اتفاق ہوا تھا جو عالم اسلام کے موجودہ مسائل کے تناظر میں اجتہاد کی ضرورت و اہمیت اور اس کی حدود کار کے حوالہ سے تھا اور اس میں انہوں نے بڑے اعتدال اور توازن کے ساتھ مسلمانوں کے جمہور اہل علم کے موقف کی ترجمانی اور وضاحت کی تھی، اس میں خود انہوں نے یہ بتایا تھا کہ وہ ایک جید عالم دین کے بیٹے ہیں اور انہوں نے بنیادی تعلیم ایک دینی مدرسہ میں حاصل کی ہے۔
چنانچہ ملائیشیا میں مسلمانوں کے سامنے دوسرے مذاہب کی تبلیغ کو روکنے کے لیے انہوں نے جو ہدایت جاری کی ہے وہ موجودہ حالات میں بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے اس لیے کہ مسیحی مشنریوں نے خاص طور پر اپنی تبلیغی، دعوتی اور بشارتی سرگرمیوں کا ہدف عالم اسلام کو بنایا ہوا ہے اور انڈونیشیا اور بنگلہ دیش سمیت مشرقی ممالک اس کا خصوصی ہدف ہیں، جبکہ مسلم حکومتوں کی بے پرواہی کی وجہ سے ہزاروں مسلمان ترغیب اور فریب کے ہتھکنڈوں کا شکار ہو کر مسیحیت کی آغوش میں جا رہے ہیں۔ان حالات میں ڈاکٹر بداوی کی یہ ہدایت دیگر مسلم ممالک کے حکمرانوں کے لیے بھی قابل تقلید ہے کہ وہ دینی حمیت و غیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے اپنے ممالک کے مسلمانوں کے ایمان کے تحفظ کی فکر کریں۔
۲۱ و ۲۲ اگست کو مجھے عزیزم حافظ محمد عمار خان ناصر سلّمہ مدرس مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کے ہمراہ جامعۃ الرشید کراچی کے کلیۃ الشریعہ کے پانچ سالہ نصاب پر نظر ثانی کے حوالہ سے دو روزہ سیمینار میں شرکت کا موقع ملا۔ یہ نصاب گریجویٹ حضرات کو درس نظامی کی تعلیم دینے کے لیے شروع کیا گیا ہے اور تیسرے سال کے اختتام کے مراحل میں ہے۔ شیخ الحدیث حضرت مولانا حسن جان صاحب دامت برکاتہم نے اس سیمینار کی صدارت کی اور اس میں مولانا قاری محمد حنیف جالندھری، مولانا مفتی غلام الرحمن، مولانا مفتی محمد انور بدخشانی، مولانا محمد ازہر ملتانی، مولانا عبدالرؤف غزنوی، مولانا عزیز الرحمن سواتی، مولانا محمد اسلم شیخوپوری اور دیگر سرکردہ اہل علم نے بھی شرکت کی۔ شرکاء نے جدید تعلیم یافتہ حضرات کو درس نظامی اور دینی تعلیم سے آراستہ کرنے کی اس تعلیمی تحریک اور تجربہ کو سراہتے ہوئے اس کا دائرہ وسیع کرنے پر زور دیا اور ملک کے دیگر مدارس سے بھی توقع ظاہر کی کہ وہ اس تجربہ سے فائدہ اٹھائیں۔اس کے ساتھ ہی کلیۃ الشریعۃ کی پیشرفت پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے شرکاء سیمینار نے جامعۃ الرشید کی انتظامیہ کو مبارک باد دی اور اس کے نظام و نصاب میں مزید بہتری کے لیے متعدد تجاویز پیش کیں۔
اس سفر میں ہم نے ایک رات پاکستان اسٹیل ملز کے ملازمین کی کالونی گلشن حدید فیز ۱ کی مسجد توحید میں مولانا احسان اللہ ہزاروی کے ہاں بسر کی جو سندھ اسمبلی کے رکن ہیں اور جمعیۃ علماء اسلام اور پاکستان شریعت کونسل کے سرگرم راہنماؤں میں سے ہیں۔ پاکستان اسٹیل مل کو فروخت کرنے کی حکومتی کاروائی پر سپریم کورٹ آف پاکستان نے گزشتہ دنوں جو گرفت کی ہے اس کے پس منظر میں اسٹیل ملز کے متعلقہ بعض حضرات سے تبادلہ خیالات ہوا اور بہت سی دلچسپ معلومات حاصل ہوئیں، ان میں سے دو باتیں قارئین کی نذر کر رہا ہوں۔
پاکستان اسٹیل ملز کو اس سودے میں جسے سپریم کورٹ نے کالعدم قرار دے دیا ہے، اکیس ارب روپے میں فروخت کیا گیا تھا، جبکہ بتایا جاتا ہے کہ اس وقت ملز کے پاس خام اور تیار شدہ مال ساڑھے بارہ ارب روپے کی مالیت کا موجود تھا اور آٹھ ارب روپے سے زائد رقم نقد موجود تھی۔ گویا خریدنے والوں کو ان کی ادا کی ہوئی قیمت تو ساری کی ساری اس شکل میں موصول ہو جانی تھی اور پاکستان اسٹیل ملز ہزاروں ایکڑ اراضی اور اس کے ساتھ اربوں روپے کی مشینری بالکل مفت میں مل جانا تھی، اسے کہتے ہیں
دوسری بات یہ انتہائی دلچسپی کی ہے کہ ملز کے ذمہ بینکوں کا سود سمیت کم و بیش انیس ارب روپے کا قرضہ تھا جو ۲۰۱۲ء تک واپس کیا جانا تھا مگر ملز کی انتظامیہ نے ایک مرحلہ میں یہ قرضہ تیز رفتاری سے واپس کرنے کا پروگرام بنایا تھا۔ لیکن بینکوں نے اپنا قرضہ یہ کہہ کر واپس لینے سے انکار کر دیا کہ اس طرح انہیں سود کی جو رقم ۲۰۱۲ء تک مسلسل ملنی ہے اور جو اربوں روپے بنتی ہے اس سے وہ محروم ہوجائیں گے۔ اس پر حکومت پاکستان کو مداخلت کرنا پڑی اور اس کی مداخلت کے بعد بینک اپنے قرضے واپس لینے پر آمادہ ہوئے۔ یہ سودی نظام کی خاصیت ہے کہ اسے صرف اور صرف استحصال سے غرض ہے جس کے لیے یہ نظام وضع کیا گیا ہے، خدا جانے اس استحصالی نظام سے ہمارے ملک کو کب نجات حاصل ہوگی؟