انٹرنیشنل خلافت کانفرنس لاہور میں حاضری

   
۸ فروری ۲۰۰۱ء

گزشتہ اتوار کو ایوان اقبال لاہور میں محترم ڈاکٹر اسرار احمد کی ’’تحریک خلافت پاکستان‘‘ کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی ’’انٹرنیشنل خلافت کانفرنس‘‘ میں شرکت کا موقع ملا اور مختلف مکاتب فکر کے سرکردہ علماء کرام اور زعماء ملت کے خیالات سے آگاہی ہوئی۔ کانفرنس سے خطاب کی مجھے بھی دعوت تھی بلکہ شام چار بجے شروع ہونے والی دوسری نشست میں میرے خطاب کا پروگرام شائع ہو چکا تھا مگر کانفرنس کے ابتدائی دعوت نامہ میں دوسری نشست کی صراحت نہیں تھی اس لیے میں نے لاہور کے سفر کا پروگرام اس طرح طے کر رکھا تھا کہ ظہر تک خلافت کانفرنس میں شریک ہو کر اس کے بعد شام کے وقت کا وعدہ کچھ اور دوستوں سے کر لیا تھا اس لیے جب عین وقت پر دوسری نشست کا پروگرام اور اس میں اپنے خطاب کا اعلان پڑھا تو پہلے سے طے شدہ پروگرام تبدیل نہ کر سکا اور ظہر تک پہلی نشست میں شریک ہونے کے بعد چلا گیا۔

اس نشست سے جن سرکردہ شخصیات نے خطاب کیا ان میں مولانا عبد الستار خان نیازی، جنرل (ر) حمید گل، جسٹس (ر) ڈاکٹر نسیم حسن شاہ اور بنگلہ دیش کی تحریک خلافت کے امیر مولانا احمد اللہ اشرف بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ مولانا عبد الستار خان نیازی خلافت کی بحالی کے بہت پرانے داعی ہیں، گزشتہ صدی کے چھٹے عشرہ میں جب ہمارا طالب علمی کا دور تھا اور ہم درسی کتابوں میں خلافت کا تذکرہ پڑھ کر مدرسہ سے باہر کی دنیا میں خلافت کا تذکرہ تلاش کیا کرتے تھے اس وقت مولانا عبد الستار خان نیازی کی آواز ایک منفرد آواز تھی جو ’’خلافت‘‘ کے احیاء کے لیے عام جلسوں میں بلند ہوا کرتی تھی۔ اور جب ملک کی کم و بیش سبھی دینی جماعتیں خلافت کی اصطلاح کو اختیار کرنے کی بجائے اسلامی نظام کے نفاذ کی بات نظام شریعت، نظام اسلام اور نظام مصطفٰیؐ کے عنوانات کے ساتھ کر رہی تھیں مولانا نیازی اس دور میں بھی پوری بلند آہنگی کے ساتھ خلافت کا نعرہ لگایا کرتے تھے اور ہم طالب علموں کو ان کی زبان سے عالم جلسوں میں یہ نعرہ سن کر ذہنی سکون حاصل ہوتا تھا۔ مولانا نیازی نے اس کانفرنس میں بھی خلافت کا نعرہ بلند کیا اور بڑھاپے اور علالت کے باوجود جس طرح افغانستان کی طالبان حکومت کی حمایت اور خلافت اسلامیہ کی بحالی کے حق میں زور دار گفتگو کی اس سے پرانی یادیں پھر سے تازہ ہوگئیں۔

جنرل (ر) حمید گل نے خلافت کے قیام اور اسلامی نظام کے عملی نفاذ کے دستوری طریق کار کی وضاحت کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ دستور میں قرآن و سنت کو ملک کا سپریم لاء قرار دینے سے نفاذ اسلام کی راہ ہموار ہو جائے گی اور پھر ملک میں رائج غیر شرعی قوانین کے خاتمے اور قرآن و سنت کے قوانین کی عملداری میں کوئی رکاوٹ باقی نہیں رہے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم نے ’’قراردادِ مقاصد‘‘ کو آئین کا واجب العمل حصہ قرار دے کر یہ کام کر دیا تھا اور قراردادِ مقاصد میں درج اللہ تعالیٰ کی حاکمیت مطلقہ اور قرآن و سنت کی مکمل عملداری کے وعدہ کو دستور و قانون پر بالادستی حاصل ہوگئی تھی جسے ہائی کورٹ نے تسلیم بھی کر لیا تھا لیکن سپریم کورٹ آف پاکستان کے فل بینچ نے یہ فیصلہ دے کر اس عمل کو بریک لگا دی تھی کہ قرارداد مقاصد بھی دستور کی باقی دفعات کے مساوی درجہ رکھتی ہے اور اسے دستور پاکستان کی دیگر شقوں پر کوئی بالادستی حاصل نہیں ہے۔ اس سے ملک میں نفاذِ اسلام کی گاڑی رک گی اور اب اسے دوبارہ چالو کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ جنرل پرویز مشرف سپریم کورٹ کی طرف سے تفویض کردہ دستوری اختیارات کو بروئے کار لاتے ہوئے قراردادِ مقاصد کی بالادستی کو تسلیم کرنے اور قرآن و سنت کو ملک کا سپریم لاء قرار دینے کا دستوری حکم صادر کریں، اس کے سوا ملک میں نفاذ اسلام کا اور کوئی دستوری راستہ نہیں ہے۔

جنرل (ر) حمید گل خطاب کر کے واپس جا چکے تھے کہ کانفرنس میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے سابق چیف جسٹس ڈاکٹر نسیم حسن شاہ صاحب تشریف لے آئے۔ اور لطف کی بات ہے کہ انہوں نے بھی اپنے خطاب میں دیگر باتوں کے ساتھ ساتھ قرآن و سنت کی دستوری بالادستی قائم کرنے پر زور دیا حالانکہ جنرل (ر) حمید گل نے قراردادِ مقاصد کی بالادستی کے خلاف سپریم کورٹ کے جس فیصلے کا حوالہ دیا تھا وہ ڈاکٹر نسیم حسن شاہ ہی کے دور میں خود ان کی سربراہی میں قائم سپریم کورٹ کے فل بینچ نے صادر کیا تھا۔ اس لیے جب ڈاکٹر صاحب موصوف نے انٹرنیشنل خلافت کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے قرآن و سنت کو ملک کا سپریم لاء قرار دینے کی بات کی تو ہمیں بیک وقت حیرت اور خوشی کی کیفیت سے دوچار ہونا پڑا۔ حیرت اس بات پر کہ ڈاکٹر نسیم حسن شاہ کو یہ بات اس وقت کیوں نہ سوجھی جبکہ فیصلے کا قلم ان کے ہاتھ میں تھا اور وہ اعلیٰ ترین عدالتی اتھارٹی کے طور پر قراردادِ مقاصد کی بالادستی کا جھٹکا کر رہے تھے، اور خوشی اس بات پر ہوئی کہ چلو ڈاکٹر صاحب کو اس ضرورت کا احساس تو ہوا۔ اور اس کے ساتھ ہی یہ محاورہ بھی ذہن میں گھومنے لگا کہ صبح کا بھولا شام کو گھر آجائے تو اسے بھولا ہوا نہیں کہتے۔

چنانچہ اس وقت میرے ذہن میں یہ داعیہ پیدا ہوا کہ ڈاکٹر نسیم حسن شاہ کی موجودگی میں کانفرنس سے خطاب کا موقع مل گیا تو ان کی خدمت میں عرض کروں گا کہ اگر انہوں نے اپنے سابقہ موقف سے توبہ کر لی ہے تو اللہ تعالیٰ اسے ان کے لیے مبارک کریں مگر اس توبہ کا منطقی تقاضہ یہ ہے کہ وہ اپنے سابقہ عمل کی تلافی کی بھی کوشش کریں جو اب صرف اس طرح ہو سکتی ہے کہ وہ ملک کے اعلیٰ قانون دانوں اور سابق جسٹس صاحبان کو ساتھ لے کر قرآن و سنت کو دستور میں سپریم لاء قرار دلوانے کی باقاعدہ مہم چلائیں اور نفاذ اسلام کی دستوری اور قانونی جدوجہد کو عملی سپورٹ کریں۔ مگر کانفرنس میں یہ عرض کرنے کا موقع نہ بن سکا اس لیے ان سطور کے ذریعے ڈاکٹر صاحب موصوف سے یہ گزارش کی جا رہی ہے۔

مولانا احمد اللہ اشرف بنگلہ دیش کے بزرگ عالم دین حضرت حافظ جی حضورؐ کے بیٹے ہیں۔ حافظ جی حضورؒ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کے خلفاء میں سے تھے، خانقاہی مزاج کے گوشہ نشین بزرگ تھے لیکن پاکستان سے علیحدگی کے بعد بنگلہ دیش میں نفاذ اسلام کی جدوجہد کو انہوں نے پیرانہ سالی کے باوجود میدان عمل میں نکل کر پھر سے زندہ کر دیا۔ وہ خلافت اسلامیہ کی بحالی کے نعرہ کے ساتھ میدان سیاست میں آئے اور جسٹس عبد الستار کے مقابلہ میں صدارتی الیکشن لڑنے کا اعلان کر دیا جس میں انہوں نے تیسری پوزیشن حاصل کی۔ اس کے بعد انہوں نے صدارتی انتخاب کا دوسرا معرکہ جنرل ارشاد کے خلاف لڑا اور رائے عامہ کو اس حد تک متوجہ کر لیا کہ بین الاقوامی اداروں اور پریس کو حیرت میں ڈال دیا۔ الیکشن سے قبل بین الاقوامی مبصرین ان کی کامیابی کے امکانات کا تذکرہ کرنے لگے لیکن وہ الیکشن نہ جیت سکے البتہ جنرل ارشاد کے بعد انہوں نے صدارتی امیدوار کے طور پر دوسری پوزیشن حاصل کر کے واضح کر دیا کہ بنگلہ قومیت کے نام پر پاکستان سے علیحدگی کے باوجود بنگالی مسلمانوں کے دلوں سے اسلامی نظام کے نفاذ کے جذبہ کو کھرچا نہیں جا سکا اور بنگلہ دیش کے عوام آج بھی قرآن و سنت کے نظام کے نفاذ کی تڑپ اپنے دلوں میں رکھتے ہیں۔ حافظ جی حضورؒ اور خلافت کے نعرہ کی اس عوامی پذیرائی نے مغربی دنیا کو چونکا دیا اور ہر طرف خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگیں۔ چنانچہ اس کے بعد بنگلہ دیش میں این جی اوز کا جال بچھا دیا گیا اور مختلف ذرائع اور بہانوں سے بنگلہ دیش کے مسلمانوں کی ’’برین واشنگ‘‘ کے لیے ایک وسیع نیٹ ورک قائم ہوگیا۔

مولانا احمد اللہ اشرف حافظ جی حضورؒ کے بیٹے ہیں اور ان کی جگہ خلافت اندولن (تحریک خلافت) کے امیر ہیں۔ انہوں نے کانفرنس سے خطاب کیا اور اس کے دو تین روز بعد مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں بھی تشریف لائے جہاں انہوں نے حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی دامت برکاتہم اور دیگر علماء کرام سے ملاقات کی۔ مجھے حضرت والد محترم مولانا محمد سرفراز خان صفدر دامت برکاتہم کے ہمراہ چند سال قبل ڈھاکہ جانے کا موقع ملا تھا اس وقت ہمارا قیام حافظ جی حضورؒ کے قائم کردہ دارالعلوم اشرفیہ میں مولانا احمد اللہ اشرف کی قیام گاہ پر تھا اور ہم اس موقع پر تحریک خلافت کے دفتر بھی گئے تھے۔ مولانا احمد اللہ اشرف نے بتایا کہ اگرچہ بنگلہ دیش کے علماء پاکستان کے علماء کی طرح متحرک نہیں ہیں لیکن عام مسلمانوں میں دینداری کا جذبہ موجود ہے اور وہ اسلام کے خلاف کوئی بات سننے کے لیے تیار نہیں ہیں، اس لیے اگر بنگلہ دیش کی دینی جماعتیں پاکستان کے دینی حلقوں کی طرح متحد و متحرک ہو جائیں تو بیرونی قوتیں اور این جی اوز بنگلہ دیش کو اسلامی نظام اور خلافت سے زیادہ دیر تک محروم نہیں رکھ سکتیں۔

   
2016ء سے
Flag Counter