(حافظ آباد) جمعیۃ علماء اسلام مغربی پاکستان کے ناظم اعلیٰ حضرت مولانا غلام غوث صاحب ہزاروی نے آج یہاں ایک اخباری نمایندے کو انٹرویو دیتے ہوئے ملکی و ملی مسائل پر جمعیۃ کے موقف کی وضاحت کی۔
حضرت مولانا نے فرمایا کہ جب تک صدر پاکستان کی صحت بحال نہیں ہو جاتی، قائم مقام صدر یعنی قومی اسمبلی کے اسپیکر کا ملک سے باہر جانا صحیح نہیں معلوم ہوتا۔ اگر اربابِ اختیار خان عبد الجبار خاں کو حج وفد کا قائد بنانے کے فیصلے پر نظرثانی کریں تو بہتر ہے۔
حضرت مولانا نے فرمایا کہ جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کا مرکزی اجلاس اپریل ۱۹۶۸ء کے پہلے ہفتہ میں لاہور میں منعقد ہونا قرار پایا ہے۔ جس کے لئے قائد جمعیۃ حضرت مولانا مفتی محمود صاحب کے مشورہ اور امیر مرکزیہ حضرت درخواستی مدظلہ کے حکم سے ممبران مرکزیہ کے نام دعوت نامے جاری کئے جا رہے ہیں۔ مرکزی جمعیۃ کے کل ارکان چالیس ہیں جن میں بیس مشرقی پاکستان کے ہیں۔
حضرت مولانا نے اس سوال کے جواب میں کہ تحریک جمہوریت والوں کے ساتھ باقی جماعتیں اشتراکِ عمل کیوں نہیں کرتیں، یہ فرمایا کہ نیشنل عوامی پارٹی اور مسٹر بھٹو کی پیپلز پارٹی تو اپنے بارے میں خود ہی بہتر جواب دے سکتی ہیں، لیکن جہاں تک جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کا تعلق ہے تو اس کی تفصیل یہ ہے کہ کچھ عرصہ پہلے اپوزیشن لیڈر نواب زادہ نصر اللہ خاں نے تحریرًا اور پھر زبانی طور پر جمعیۃ کے ذمہ دار رہنماؤں کو اشتراکِ عمل کی دعوت دی تھی۔ جس کے جواب میں جمعیۃ نے پانچ آدمیوں کی کمیٹی اپوزیشن سے تمام امور و شرائط طے کرنے کے لئے مقرر کی۔ مگر قائد جمعیۃ حضرت مولانا مفتی محمود صاحب مدظلہ نے نواب زادہ موصوف کو مطلع کر دیا کہ اگر اپوزیشن پارٹیوں نے اپنا طریق کار طے کرنے اور انتخاب کرنے سے پہلے جمعیۃ علماء اسلام سے معاملہ طے نہیں کیا تو بعد میں جمعیۃ صرف دم چھلہ بننے کے لئے تیار نہیں ہو گی۔ جس پر نواب زادہ صاحب نے وعدہ کیا کہ ہم مشترکہ اجلاس سے پہلے سارے معاملات طے کر لیں گے۔ جس کے بعد آج تک انہوں نے چپ سادھ رکھی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اپوزیشن میں جمعیۃ کی شرکت کو مودودی صاحب اپنے اقتدار کے منافی سمجھتے ہیں۔ اور شاید یہی وجہ ہے کہ مودودی پارٹی نے امریکی سامراج کے مخالف مسٹر بھٹو کی پیپلز پارٹی کے خلاف بھی پروپیگنڈہ کی مہم شروع کر رکھی ہے۔ اس صورتحال میں مستقبل کے اندر ملکی سیاسیات میں ملک و ملت کے مفادات کو اگر کسی نقصان کا خطرہ لاحق ہوا تو اس کی ذمہ دار خود اپوزیشن یا مودودی پارٹی ہو گی۔