شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی کی تحریک ریشمی رومال میں گوجرانوالہ کے کردار کے بارے میں گزشتہ ایک کالم میں کچھ معروضات پیش کر چکا ہوں۔ اس سلسلہ میں ہمارے اہل حدیث دوست مولانا حافظ ابرار احمد ظہیر نے ایک فروگزاشت کی طرف توجہ دلائی ہے جس پر ان کا شکر گزار ہوں۔ ان کا کہنا ہے کہ جس ’’قاضی کوٹ‘‘ کا ذکر اس تحریک کے سلسلہ میں ریکارڈ میں آتا ہے وہ گوجرانوالہ سے قلعہ دیدار سنگھ جاتے ہوئے راستہ میں آنے والا قاضی کوٹ نہیں ہے، بلکہ قلعہ دیدار سنگھ سے علی پور چٹھہ کی طرف جاتے ہوئے ایک اور گاؤں اسی نام کا ہے اور تحریک آزادی کا مرکز وہ قاضی کوٹ رہا ہے۔ حافظ صاحب نے بتایا کہ بغاوت کے سلسلہ میں ’’قاضی کوٹ بم کیس‘‘ کے عنوان سے جو مقدمہ گوجرانوالہ کی سیشن عدالت میں چلا تھا اور جس میں بہت سے افراد کو سزائیں ہوئی تھیں، اس پر ایک کتاب اسی عنوان سے شائع ہوئی تھی جو ان کی نظر سے گزری ہے۔ میں نے حافظ صاحب موصوف سے اس کتاب کو تلاش کرنے کی درخواست کی ہے، وہ مہیا ہونے کے بعد اس سلسلہ میں مزید معلومات قارئین کی خدمت میں پیش کر سکوں گا۔ سردست اسی گروہ کے ایک مجاہد کے بارے میں کچھ گزارشات گوجرانوالہ کے گورنمنٹ ڈگری کالج کے مجلہ ’’مہک‘‘ کے ’’گوجرانوالہ نمبر‘‘ کے حوالہ سے قارئین کی نذر کر رہا ہوں۔
کوٹ بھوانی داس قلعہ دیدار سنگھ کے قریب ایک گاؤں ہے وہاں کے نمبردار پیر محمد آرائیں نے قلعہ مہیاں سنگھ کے مولانا غلام رسول سے تعلیم حاصل کی اور ہندوستان کے طول و عرض میں انگریزی اقتدار کے خلاف پھیلنے والی بغاوت کے جذبات سے متاثر ہو کر تحریک ہجرت میں شمولیت اختیار کی۔ اس وقت ان کا ایک بیٹا محمد حسین تین سال کی عمر میں تھا، یہ بیسیوں صدی کے اوائل کی بات ہے جب ضلع گوجرانوالہ کے دیہات میں بغاوت کے اثرات بڑھ رہے تھے اور تحریک شیخ الہند کے ایک اہم رکن مولانا فضل الٰہی وزیرآبادی مرحوم اس سلسلہ میں متحرک کردار ادا کر رہے تھے۔ محمد حسین کی عمر جب اٹھارہ برس کے لگ بھگ ہوئی تو اس نے ہجرت کا فیصلہ کیا اور اپنی بہن کو اعتماد میں لے کر تحریک جہاد میں شریک ہونے کے لیے قبائلی علاقہ کے ایک اہم جہادی مرکز اسمت پہنچ گیا جہاں اس نے اپنا فرضی نام محمد عمر رکھ لیا۔ وہاں اس نے جہاد کی عملی تربیت حاصل کی اور اس کے خلوص اور محنت کو دیکھ کر اسے ہندوستان کے معاونین سے رابطے کی ذمہ داری سونپ دی گئی۔ وہ مختلف علاقوں سے مجاہد بھرتی کرتا، چندہ جمع کرتا اور متعلقہ لوگوں تک ضروری اسلحہ پہنچاتا تھا۔ اس کے ساتھ اس کے علاقے کے دو اور معاون خان محمد اور عبید اللہ بھی شریک کار تھے اور بعد میں ان دونوں کو بھی ’’کوٹ قاضی بم کیس‘‘ میں سزا ہوئی تھی۔
جہادی زندگی میں یہ کام سب سے مشکل ہوتا ہے مگر محمد عمر اور ان کے ساتھی پوری تندہی اور استقامت کے ساتھ اس خدمت میں مصروف رہے۔ انہوں نے کم و بیش آٹھ سال تک یہ خدمات سرانجام دیں اور اس دوران محمد عمر کو اسمت سے چمرکنڈ کے مرکز میں منتقل کر دیا گیا اور پشاور سے سودا سلف لانے کی ذمہ داری بھی اس کو سونپ دی گئی۔ اسی دوران وہ ایک دن پشاور سے مرکز کے لیے ضروری سودا خریدنے کے لیے جا رہا تھا کہ مخبری پر اسے گرفتار کر لیا گیا اور عدالت سے اسے سات سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی۔ وہ اس فیصلے کے خلاف اپیل کے لیے تیاری کر رہا تھا اور اسی سلسلہ میں اس کے کاغذات تصدیق کے لیے گوجرانوالہ بھجوائے گئے تو پتہ چلا کہ وہ تو کوٹ قاضی بم کیس میں گوجرانوالہ پولیس کو مطلوب ہے، اس پر اسے گوجرانوالہ پولیس اپنے ہاں لائی اور ’’کوٹ قاضی بم کیس‘‘ میں بھی اس کی گرفتاری ڈال دی گئی۔ جس کی وجہ سے پشاور سے ملنے والی سزا کے خلاف اپیل کا مسئلہ ختم ہوگیا اور کوٹ قاضی بم کیس میں بھی محمد عمر کو چودہ سال قید بامشقت کی سزا سنا دی گئی۔
محمد حسین عرف محمد عمر نے جب اپنے گاؤں کوٹ بھوانی داس سے ہجرت کی تھی تو صرف اپنی بہن کو اس نے اعتماد میں لیا تھا جو جذبۂ حریت میں اس کے ساتھ شریک تھی اور جاتے ہوئے اس نے اپنے زیورات اتار کر بھائی کو دے دیے تھے کہ جہاد میں کام آئیں گے۔ لیکن وہ اس پورے عرصہ میں صرف ایک بار اپنی بہن سے خفیہ طور پر مل سکا اور اپنی ماں سے، جو اس کی جدائی میں روتی رہتی تھی، ملاقات نہ کر سکا۔ کوٹ قاضی بم کیس میں ملزموں کو دی جانے والی سزاؤں کے خلاف گوجرانوالہ کے معروف قانون دان جسٹس شیخ دین محمد مرحوم نے، جو بعد میں گورنر سندھ بھی رہے، ہائیکورٹ میں اپیل دائر کی تو ہائیکورٹ نے محمد حسین کی دونوں سزائیں اکٹھی شروع کرنے کی سہولت دے دی جس سے وہ سزا جو اکیس برس بنتی تھی چودہ سال رہ گئی۔ مگر اسے سزا بھگتنے کے لیےجبل پور کی دور دراز جیل میں بھیج دیا گیا تاکہ وہ اپنے ماں باپ اور بہن سے نہ مل سکے۔ جہاں سے محمد حسین چار سال کے بعد ایک خط گھر والوں کو اپنی خیریت کی اطلاع دینے کے لیے تحریر کر سکا۔ جیل میں ناقص خوراک اور دیگر عوارض کی وجہ سے محمد حسین کی بائیں ران میں درد شروع ہوگیا جس نے رفتہ رفتہ ناسور کی شکل اختیار کر لی۔ ڈاکٹروں کے کہنے پر سزا میں دو سال کی رعایت دی گئی اور مئی ۱۹۳۳ء میں اسے پولیس کی نگرانی میں گوجرانوالہ واپس لایا گیا اور گاؤں میں نظر بند کر دیا گیا۔ اس پر پابندی تھی کہ ہفتہ میں ایک بار تھانہ قلعہ دیدار سنگھ خود جا کر رپورٹ کرے اور گاؤں سے باہر جانے کے لیے سپرنٹنڈنٹ جیل سے باقاعدہ اجازت ضروری قرار دے دی گئی۔ اس دوران اس کا ناسور پھٹ گیا، مئی ۱۹۳۳ء میں اس کی والدہ کا انتقال ہوا اور اس کے دو روز بعد محمد حسین عرف محمد عمر نے بھی موت کو لیبک کہہ دیا۔ کوٹ بھوانی داس کا یہ محمد حسین کوٹ قاضی بم کیس کا ملزم تو تھا ہی، اس نے اس سے ہٹ کر مجاہدین کے مراکز اسمت اور چمرکنڈ میں بھی سالہا سال تک جہادی خدمات سرانجام دیں اور اس راہ میں آنے والی تکالیف کو خندہ پیشانی سے برداشت کر کے اپنا نام مجاہدینِ آزادی کی فہرست میں ہمیشہ کے لیے محفوظ کر دیا۔
شیخ الہند اکادمی لاہور نے سالِ رواں کو حضرت شیخ الہند کے سال کے طور پر منانے کی جو تحریک کی ہے، اس سال میں سے ڈیڑھ ماہ کا عرصہ گزر گیا ہے اس لیے کام کو تیز کرنے کی ضرورت ہے اور میرے نزدیک سب سے اہم کام یہ ہے کہ تحریک شیخ الہند کے مختلف گوشوں کو بے نقاب کیا جائے، تاریخ کو کھنگال کر اس تحریک کے اثرات کو سامنے لایا جائے، اس تحریک کے وہ مراکز جن کا ذکر ریکارڈ میں موجود ہے، ان کی سرگرمیوں کی جدوجہد کے لیے اس میں سے راہنمائی کے خطوط تلاش کیے جائیں۔ پیر صاحب آف پگارا مرحوم کی وفات پر اپنے کالم میں راقم الحروف نے ذکر کیا تھا کہ پیر جوگوٹھ کی اس بڑی گدی میں جہادی اثرات شہدائے بالاکوٹ کے قافلہ کی وہاں آمد کے ثمرات محسوس ہوتے ہیں۔ اسی طرح حروں کی جنگ آزادی کے حضرت شیخ الہند کی تحریک کے ساتھ روابط کی کڑیاں بھی تاریخ میں ملتی ہیں۔ اگر کوئی صاحب ذوق اس پر محنت کر کے سندھ کے حروں اور تحریک شیخ الہند کے باہمی وابط کو منظر عام پر اور تاریخ کے ریکارڈ میں لا سکے تو یہ تاریخ کی بہت بڑی خدمت ہوگی۔
اس کے ساتھ ایک ذاتی گزارش بھی اس کالم کے ذریعے کرنا چاہتا ہوں کہ ربیع الاول کا آغاز ہونے والا ہے اور ملک کے مختلف حصوں سے سیرت کے جلسوں کے لیے احباب کے تقاضے بڑھتے جا رہے ہیں جبکہ میرا معمول بلکہ مجبوری یہ ہے کہ جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں دورۂ حدیث کے اسباق کے دوران ایک روز کی چھٹی بھی میرے بس میں نہیں ہوتی۔ میری کوشش یہ ہوتی ہے کہ صرف ایسی جگہ وعدہ کروں جہاں جلسہ سے فارغ ہو کر نصف شب سے قبل گھر واپس پہنچ سکوں تاکہ اگلے روز کے اسباق کا حرج نہ ہو جو علی الصبح شروع ہو جاتے ہیں۔ یا جمعرات کو اسباق کے بعد روانہ ہو کر رات کسی وقت واپسی ہو جائے تاکہ تھوڑے بہت آرام کے بعد جمعہ اطمینان سے پڑھا سکوں۔ احباب سخت اصرار کرتے ہیں اور بار بار انکار سے مجھے شرمندگی ہوتی ہے۔ اس لیے ملک بھر کے احباب سے اجتماعی معذرت کر رہا ہوں کہ میری اس مجبوری کا لحاظ رکھا جائے، سب دوستوں کا بے حد شکریہ!