قومی و دینی راہنماؤں کی خدمت میں

   
۲۶ جولائی ۲۰۲۳ء

باسمہ تعالٰی

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

(۱) قومی خودمختاری (۲) آئی ایم ایف کے چنگل سے معیشت کی آزادی (۳) سودی نظام کے خاتمہ (۴) متنازعہ اوقاف ایکٹ (۵) ٹرانس جینڈر قانون (۶) محکمہ تعلیم میں دینی مدارس کی متنازعہ رجسٹریشن اور اس نوعیت کے دیگر بہت سے اہم امور اس وقت قومی و دینی حلقوں کی سنجیدہ توجہ کے متقاضی ہیں۔ اور اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ دینی قیادتیں ایک بار پھر اعلیٰ سطح پر مل بیٹھ کر ان معاملات میں متفقہ موقف کے اظہار کے ساتھ ساتھ مشترکہ جدوجہد کا لائحہ عمل بھی جلد از جلد طے کریں۔

مگر ان میں دو اہم ترین اور فوری توجہ کے طلبگار مسائل کی طرف تمام مکاتب فکر کے علماء کرام، قانون دان حضرات اور دیگر طبقات کو توجہ دلانا ضروری سمجھتا ہوں:

  • اس سال معروف قادیانی راہنما افتخار احمد ایاز کا شاہی مہمان کے طور پر حج بیت اللہ میں شریک ہونا تحفظ ختم نبوت کی قومی و دینی جدوجہد کے لیے سوالیہ نشان بن گیا ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس سلسلہ میں پاکستان شریعت کونسل کے امیر مولانا مفتی محمد اویس ایوبی نے سعودی ولی عہد شہزاد محمد بن سلیمان آل سعود حفظہ اللہ تعالیٰ اور عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے مرکزی راہنما مولانا اللہ وسایا نے اسلام آباد میں متعینہ سعودی سفیر کے نام اپنے خطوط میں انہیں اس مسئلہ کی نزاکت کی طرف توجہ دلائی ہے جو لائق تحسین ہے مگر صرف اتنا کافی نہیں ہے۔ تحفظ ختم نبوت کے لیے جدوجہد کرنے والی دیگر جماعتوں کو بھی اس حوالے سے اپنا موقف واضح کرنا چاہیے اور اس کے تدارک کے لیے مشترکہ جدوجہد کی کوئی ترتیب بنانی چاہیے۔
  • ہماری معلومات کے مطابق ناموس صحابہ کرام و اہل بیت عظام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے تحفظ کے سلسلہ میں جو بل گزشتہ دنوں قومی اسمبلی نے متفقہ طور پر منظور کیا تھا اور سینٹ آف پاکستان میں منظوری کے مرحلہ سے نہیں گذر پایا تھا، وہ دوبارہ پارلیمنٹ میں زیر بحث آ گیا ہے اور تین چار روز تک اس پر بحث ہونے والی ہے۔ اگر یہ بات درست ہے تو اہل سنت کی تمام جماعتوں کی قیادتوں بالخصوص اسلام آباد کے تمام مکاتب فکر کے سرکردہ علماء کرام کو اس کے لیے فوری کردار ادا کرنا چاہیے۔

ہماری تجویز ہے کہ اسلام آباد کے سرکردہ علماء کرام کو دونوں امور یعنی (۱) افتخار احمد ایاز کے شاہی حج اور (۲) پارلیمنٹ میں ناموس صحابہ کرامؓ و اہل بیت عظامؓ کے بل کی جلد از جلد منظوری کے لیے متعلقہ حکام، اداروں اور ارکان پارلیمنٹ سے ملاقاتوں کا اہتمام کر کے انہیں اس سلسلہ میں پاکستانی عوام کے جذبات سے آگاہ کرنا چاہیے تاکہ وہ کوئی مثبت کردار ادا کر سکیں۔

امید ہے کہ سب متعلقہ حضرات اس گزارش کو فوری اور سنجیدہ توجہ سے نوازیں گے۔

شکریہ، والسلام
ابو عمار زاہد الراشدی
سیکرٹری جنرل پاکستان شریعت کونسل
خطیب مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ
   
2016ء سے
Flag Counter