۸ ،۹، ۱۰ جولائی کو دنیا ٹی وی کے سحری و افطاری کے پانچ نشریاتی پروگراموں میں شرکت کا موقع ملا جنہیں جناب انیق احمد بڑے ذوق و مہارت کے ساتھ چلا رہے ہیں۔ پہلے پروگرام میں مولانا اسعد تھانوی، مولانا شجاع الملک اور مولانا قاری اکبر مالکی کے ساتھ رفاقت رہی۔ موضوعِ گفتگو عمومی طور پر ’’قرآن کریم کے حقوق‘‘ تھا جبکہ سورۃ الانبیاء کی آیت ۱۰ کا یہ جملہ بطور خاص زیر بحث آیا ’’کتاباً فیہ ذکرکم‘‘۔ کم و بیش تین گھنٹے پر مشتمل اس پروگرام میں بیسیوں نکات پر بات ہوئی۔ ناظرین کی طرف سے متعدد سوالات کیے گئے اور اس طرح متنوع دینی معلومات کا ایک گلدستہ سج گیا۔ راقم الحروف نے جو گزارشات پیش کیں، ان کا خلاصہ درج ذیل ہے۔
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ سورۃ الانبیاء کی آیت کریمہ ۱۰ میں فرمایا گیا ہے کہ ’’’’ہم نے تمہارے اوپر کتاب نازل کی ہے جس میں تمہارا ذکر ہے، کیا تم سمجھتے نہیں ہو؟‘‘ یہاں ذکر سے مفسرین کرامؒ نے مختلف امور مراد لیے ہیں جو اپنی جگہ سب صحیح ہیں۔ مگر امت کے مفسرین کے سردار حضرت عبد اللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ یہاں ذکر سے مراد شرف و افتخار ہے کہ یہ کتاب تمہارے لیے باعث شرف ہے اور باعث افتخار ہے۔ اس کی تائید جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد سے بھی ہوتی ہے کہ ہر امت کے لیے شرف و افتخار کی کوئی نہ کوئی بات ہوتی ہے، اور میری امت کے شرف و مباہات کا باعث قرآن کریم ہے۔ اس فخر و مباہات کے بیسیوں پہلو ہیں جن میں سے دورِ حاضر کے تناظر میں تین باتوں کا تذکرہ کرنا چاہوں گا۔
پہلی بات یہ ہے کہ قرآن کریم کی تلاوت و قراءت آج بھی اس ذوق و اہتمام کے ساتھ اور اس قدر وسیع پیمانے پر ہوتی ہے کہ دنیا کی کوئی اور کتاب اس حوالہ سے پیش نہیں کی جا سکتی۔ مثال کے طور پر ایک بات عرض کرنا چاہوں گا کہ دنیا کا کوئی ادارہ اگر یہ سروے کرنا چاہے کہ اس سال رمضان المبارک کے دوران دنیا بھر میں قرآن کریم کی تلاوت و قراءت کتنی مقدار میں ہوئی ہے، تو کسی بڑے سے بڑے اور منظم ادارے کے لیے بھی ایسا کرنا شاید ممکن نہ ہو۔ یہ قرآن کریم کے اعجاز و اعزاز کا ایسا پہلو ہے کہ دنیا کی کوئی قوم اس کی مثال پیش نہیں کر سکتی۔
دوسری بات یہ ہے کہ قرآن کریم آج بھی نسل انسانی کے لیے راہ نمائی اور ہدایت کا فطری ذریعہ ہے۔ دنیا کا کوئی بھی شخص اسے سمجھنے کے لیے پڑھے تو وہ اس سے ضرور ہدایت پاتا ہے۔ مثلاً ایک نو مسلم انگریز ڈاکٹر یحییٰ برٹ نے اپنے تحقیقی مقالے میں لکھا ہے کہ گزشتہ دس سال کے دوران یورپ میں یورپی نسلوں سے تعلق رکھنے والے کم و بیش تیرہ ہزار افراد مسلمان ہوئے ہیں۔ ان میں اسی فی صد لوگ وہ ہیں جن کی رسائی کسی نہ کسی طرح قرآن کریم تک ہوئی ہے اور وہ قرآن کریم پڑھ کر مسلمان ہوگئے ہیں۔ گویا قرآن کریم آج بھی ہدایت اور راہ نمائی کے میدان میں اپنا کام کر رہا ہے۔ مگر فرق یہ ہے کہ اگر سمجھ کر راہ نمائی کے لیے پڑھے تو کافر بھی ہو تو یہ کلام پاک اس کی راہ نمائی کرتا ہے۔ جبکہ ہم محض ثواب و برکت کے لیے پڑھتے ہیں جس کے حصول سے انکار نہیں ہے۔ لیکن اگر ہم بھی راہ نمائی اور ہدایت کے لیے پڑھیں گے تو کیا قرآن کریم ہماری راہ نمائی نہیں کرے گا، اور ہماری مشکلات و مسائل کا حل نہیں بتائے گا؟
تیسری بات یہ کہ عالمی سطح پر انسانی سوسائٹی کے مسائل کے حل کے لیے قرآن کریم کی طرف رجوع کی ضرورت کا کھلے بندوں اظہار ہونے لگا ہے۔ اس کی ایک ہلکی سی مثال یہ ہے کہ سابق پاپائے روم پوپ بینی ڈکٹ کی قائم کردہ ایک کمیٹی نے صاف کہا ہے کہ دنیا کے معاشی نظام کو توازن و اعتدال پر لانا ہے تو اس کے لیے قرآن کریم کے معاشی اصولوں کی طرف آنا ہوگا۔ یہاں بھی توجہ طلب بات یہ ہے کہ خود مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ عام انسانیت کے سامنے قرآن کریم کو اس کے مسائل کے حل کے لیے راہ نما اور ہادی کے طور پر پیش کریں۔
آج یہاں ایک اور سوال زیر بحث آیا ہے کہ ہمیں بحیثیت مسلمان قرآن کریم کے ساتھ فہم و شعور اور اطاعت و راہ نمائی کا تعلق بحال کرنے کے لیے کیا اقدامات عملی طور پر کرنے کی ضرورت ہے۔ تو میں اس سلسلہ میں اپنی تجاویز کو پانچ درجوں میں تقسیم کروں گا۔
پہلا درجہ یہ ہے کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے اور حکومت پاکستان کی دستوری ذمہ داری ہے کہ وہ قرآن کریم اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو عام کرنے کے لیے اپنی ذمہ داریاں صحیح طور پر اور سنجیدگی کے ساتھ ادا کرے۔ اس سلسلہ میں کسی نئے فیصلے کی ضرورت نہیں ہے، اب تک دستوری طور پر اسلامی معاشرے کے قیام، قرآن و سنت کی تعلیمات کے فروغ اور عربی زبان کی تعلیم کے لیے جو امور طے کر دیے گئے ہیں اور اس حوالہ سے مختلف حکومتوں کے اعلانات اور خاص طور پر سپریم کورٹ آف پاکستان اور وفاقی محتسب اعلیٰ کے جو فیصلے ریکارڈ پر موجود ہیں انہیں دوبارہ سامنے لا کر ان پر عمل درآمد کا آغاز کر دیا جائے۔ اب تک کیے جانے والے فیصلوں پر عملدرآمد سے ہی صورت حال یکسر بدل جائے گی۔
دوسرا درجہ تعلیمی نظام اور اداروں کا ہے۔ ریاستی تعلیمی اداروں اور پرائیویٹ تعلیمی اداروں، دونوں کو قرآن و سنت کی تعلیم کے بارے میں اپنی ترجیحات کا از سرِ نو جائزہ لینا ہوگا اور ملی مقاصد کی تکمیل کے لیے دستور پاکستان کے متعین کردہ خطوط کے دائرے میں قرآن و سنت کی تعلیمات کا ہر سطح پر اہتمام کرنا ہوگا۔ اس لیے کہ اس کے بارے میں سب سے بڑی ذمہ داری انہی کی بنتی ہے۔
تیسرا درجہ ملک بھر میں پھیلی ہوئی مساجد اور دینی مدارس کا ہے۔ مساجد میں قرآن و حدیث کے عمومی درس کا اہتمام ضروری ہے، جبکہ دینی مدارس کو سنجیدگی کے ساتھ اس امر کا جائزہ لینا چاہیے کہ وہ ان لوگوں کو تو تعلیم دے رہے ہیں جو خود چل کر ان کے پاس آتے ہیں۔ مگر معاشرے کی وہ غالب اکثریت جس کا دینی مدارس کے ساتھ تعلق نہیں ہے، اسے قرآن و سنت کی تعلیم سے بہرہ ور کرنے کے لیے وہ کیا کر سکتے ہیں؟ میرا خیال ہے کہ اگر دینی مدارس قوم کے مختلف طبقات کے لیے درس قرآن کریم، درس حدیث اور عربی زبان کے مختصر کورسز کا درجہ بندی کے ساتھ انتظام کر لیں تو اس خلا کو کافی حد تک پورا کیا جا سکتا ہے۔ اور یہ اپنے مقصد قیام کے حوالہ سے دینی مدارس کی ذمہ داری میں شامل ہے۔
چوتھے درجے میں میڈیا کا ذکر کرنا چاہوں گا، جسے یہ احساس دلانے کی شدید ضرورت ہے کہ وہ مسلمانوں کا میڈیا ہے اور پاکستان کا میڈیا ہے۔ اس لیے اسے اپنی پالیسیوں اور پروگراموں میں اسلام اور پاکستانیت کا نمائندہ نظر آنا چاہیے جو کہ بد قسمتی سے اس وقت موجود نہیں ہے۔ میڈیا اگر اپنا قبلہ درست کر لے اور ملی اور قومی مقاصد کو اپنی ترجیحات میں صحیح مقام پر لے آئے تو سوسائٹی کا قرآن کریم کے ساتھ فہم و شعور اور اطاعت و فرمانبرداری کا رشتہ استوار کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
جبکہ پانچویں درجہ میں خاندان اور فیملی کی باری آتی ہے۔ اسے اگر نیچے سے اوپر جانے کی ترتیب سے دیکھا جائے تو سب سے زیادہ ذمہ داری خاندانی ماحول کی بنتی ہے کہ گھر کے اندر قرآن کریم اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت و سنت کا تذکرہ عام کیا جائے اور قراءت و تعلیم کا ماحول بنایا جائے۔ گھر کے اندر قرآن کریم کی تلاوت و قراءت اور قرآن و سنت کی تعلیم و تفہیم کا اہتمام حد درجہ ضروری ہے۔ اور اس کے دو نقد فائدے تو بالکل ہمارے سامنے ہیں۔ پہلا یہ کہ گھر میں قرآن کریم کی تلاوت و قراءت کا جس قدر ماحول ہوگا، رحمتوں اور برکتوں کا اسی حساب سے نزول ہوگا۔ اور ہم اس نحوست اور بے برکتی سے نجات حاصل کر سکیں گے جس کا گھروں میں دن بدن عام ہوتے چلے جانے کی ہمیں اکثریت شکایت رہتی ہے۔ اور دوسرا یہ کہ جب ہم اپنے بچوں کو قرآن و سنت اور دینی تعلیمات سے آراستہ کریں گے تو اس بے راہ روی اور گمراہی کا سدباب ہوگا جس میں نئی نسل کے مبتلا ہو جانے کا شکوہ ہر وقت ہماری زبانوں پر رہتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہم اپنے بچوں کا قرآن کریم اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت و سیرت کے ساتھ عقیدت و محبت کے ساتھ فہم و شعور کا تعلق بھی جوڑ دیں گے تو دنیا کی کوئی گمراہی اور بے راہ روی انہیں اپنا شکار بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکے گی۔