عام انتخابات کے بعد کی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے پاکستان شریعت کونسل کے امیر مولانا فداء الرحمان درخواستی نے مرکزی مجلس شورٰی کا اجلاس ۲ اگست کو مسجد امن باغبانپورہ لاہور میں طلب کیا جس میں بعض دیگر ہم خیال دینی راہنماؤں کو بھی خاص طور پر دعوت دی گئی تاکہ ان کی رائے اور مشاورت سے استفادہ کیا جا سکے۔ ان میں سے عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے مرکزی راہنما مولانا اللہ وسایا اور مولانا عزیز الرحمان ثانی، جمعیۃ علماء اسلام پاکستان (س) کے سیکرٹری جنرل مولانا عبد الرؤف فاروقی، اور مجلس احرار اسلام کے راہنما قاری محمد قاسم احرار نے شرکت کی اور اپنی قیمتی آرا سے نوازا۔ جبکہ دیگر شرکاء میں مولانا قاری جمیل الرحمان اختر، مفتی محمد نعمان پسروری، قاری عبید اللہ عامر، مولانا عبد الرزاق فیصل آباد، مفتی محمد نعمان گوجرانوالہ، مولانا قاری محمد رمضان، مولانا سیف اللہ خالد چنیوٹ، پروفیسر حافظ منیر احمد، مولانا محمد قاسم گجر، قاری محمد عثمان رمضان، مولانا صلاح الدین فاروقی ٹیکسلا، مولانا فیصل احمد جوہر آباد، مولانا صالح محمد حضروی، مولانا قاری عبد الخالق فیصل آباد، مولانا قاری مسعود احمد فیصل آباد اور قاری عبید اللہ معاویہ شامل ہیں۔ حضرت مولانا فداء الرحمان درخواستی نے اجلاس کی صدارت کی اور راقم الحروف نے شرکاء اجلاس کو ملکی صورتحال پر مختصر بریفنگ دی۔
حالیہ انتخابات کے نتائج کے بارے میں اجلاس کا عمومی تاثر یہ تھا کہ یہ سب کچھ طے شدہ منصوبے کے مطابق دکھائی دے رہا ہے کیونکہ اس سلسلہ میں شکایات اس قدر زیادہ اور ہمہ گیر ہیں کہ انہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، تاہم یہ موضوع انتخابی سیاسی جماعتوں کا ہے اور وہی اس حوالہ سے مناسب فیصلہ کر سکتی ہیں۔
اجلاس کا ایک عمومی تاثر یہ تھا کہ قومی سیاست کو دینی اساس اور تہذیبی اقدار سے محروم کر دینے اور دینی قوتوں کو اقتدار و سیاست سے الگ تھلگ رکھنے کے لیے عالمی استعمار کی جو پالیسی ایک عرصہ سے جاری ہے اس میں مسلسل پیشرفت ہو رہی ہے اور قومی سیاست میں شریک دینی جماعتوں کو اس کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لینا ہوگا۔
اجلاس میں مجموعی طور پر اس تاثر کا اظہار کیا گیا کہ منتخب ایوانوں کو مؤثر دینی قیادت سے خالی کرانے کی مہم کا بڑا مقصد یہ نظر آتا ہے کہ دستور پاکستان کی نظریاتی اساس اور دستوری طور پر نافذ اسلامی احکامات و قوانین بالخصوص عقیدہ ختم نبوت و ناموس رسالتؐ کے تحفظ کی دستوری و قانونی دفعات کو غیر مؤثر کرنے کی کاروائیوں میں دینی قوتوں کی مزاحمت کو کمزور کر دیا جائے اور یہ بات بھی ملک بھر کے دینی حلقوں کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔
اجلاس میں اس رائے کا اظہار بھی کیا گیا کہ عام انتخابات کے بعد سیاسی جماعتوں کے درمیان کشیدگی میں جو مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور ملک کے مؤقر ریاستی اداروں کے کردار کے حوالہ سے جس طرح شکوک و شبہات کا کھلم کھلا اظہار کیا جا رہا ہے وہ ملک و قوم کے مجموعی مفاد اور سیاسی مستقبل کے لیے اچھی فال نہیں ہے اور جس کے دور رس منفی نتائج ہو سکتے ہیں اس لیے اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ چنانچہ اجلاس نے ایک قرارداد کے ذریعے ملک کے نگران وزیر اعظم جسٹس (ر) ناصر الملک سے اپیل کی ہے کہ وہ کشیدگی اور شکوک و شبہات کی اس فضا کو ختم کرانے کے لیے کردار ادا کریں اور (۱) صدر پاکستان (۲) چیئرمین سینٹ آف پاکستان (۳) اسپیکر قومی اسمبلی (۴) چیف جسٹس آف پاکستان (۵) اور چیف آف آرمی اسٹاف کو اعتماد میں لے کر مؤثر اقدامات کریں تاکہ انتقال اقتدار باہمی اعتماد اور سیاسی استحکام کے ماحول میں ہو اور نومنتخب حکومتیں اچھے ماحول میں اپنے کام کا آغاز کر سکیں۔
اجلاس میں تحریک انصاف کے چیئرمین جناب عمران خان کے اس اعلان کا خیرمقدم کیا گیا کہ وہ برسراقتدار آکر پاکستان کو ریاست مدینہ کی طرز کی رفاہی ریاست بنانے کی کوشش کریں گے۔ اجلاس کی ایک قرارداد میں کہا گیا ہے کہ ریاست مدینہ طرز کی رفاہی ریاست اگر قائم ہوگئی تو وہ تحریک پاکستان میں قربانیاں دینے والے ہزاروں شہداء اور لاکھوں کارکنوں کے خوابوں کی تعبیر ہوگی اور اس کے لیے جو جماعت بھی پیشرفت کرے گی اسے پاکستان شریعت کونسل کی مکمل حمایت اور تعاون حاصل ہوگا۔
اجلاس میں طے پایا کہ پاکستان شریعت کونسل گزشتہ دو عشروں سے انتخابی اور تحریکی سیاست سے الگ تھلگ رہتے ہوئے ملک کی نظریاتی سرحدوں کے تحفظ، اسلامی نظام کے نفاذ اور دینی و تہذیبی روایات کے فروغ کے لیے علمی و فکری محاذ پر مسلسل کام کر رہی ہے اور مسائل کی نشاندہی اور متعلقہ حضرات و طبقات کی بریفنگ تک اس نے اپنی سرگرمیوں کو محدود رکھا ہوا ہے، کونسل کی پالیسی آئندہ بھی اسی طرح جاری رہے گی البتہ اس میں ایک پہلو کا اضافہ کیا جا رہا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے مراکز میں اہل علم و دانش کے گروپ قائم کیے جائیں گے جو اہم دینی و ملی مسائل پر پاکستان شریعت کونسل کے موقف کے مطابق ارکان اسمبلی سے ملاقاتوں، ان کی ذہن سازی اور لابنگ کا ماحول پیدا کریں گے۔ اس سلسلہ میں وفاقی اور صوبائی دارالحکومتوں کے علماء کرام اور اصحاب دانش سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ پاکستان شریعت کونسل سے تعاون کریں اور اس کار خیر میں عملاً شریک ہوں۔ اس کے ساتھ ہی مختلف شہروں میں متعلقہ مسائل کے حوالہ سے سیمینارز اور فکری مجالس کے اہتمام کو بھی پاکستان شریعت کونسل کے پروگرام میں شامل کیا جا رہا ہے۔
اجلاس میں پاکستان شریعت کونسل کے امیر مولانا فداء الرحمان درخواستی سے کہا گیا ہے کہ وہ ملک کی موجودہ صورتحال اور مستقبل کے حوالہ سے درپیش خطرات و خدشات کا جائزہ لینے کے لیے اکابر اہل علم اور دینی راہنماؤں کی اعلیٰ سطحی اجتماعی مشاورت کے اہتمام کی کوئی صورت نکالیں تاکہ ملک بھر کے علماء کرام، دینی کارکنوں اور عوام کی مؤثر راہنمائی ہو سکے۔
اجلاس میں ملک کے تمام مکاتب فکر کے راہنماؤں اور جماعتوں سے ایک قرارداد کے ذریعے اپیل کی گئی ہے کہ وہ ملک کی اسلامی شناخت، نظریاتی سرحدوں اور دینی اقدار و روایات کے تحفظ کے لیے باہمی ہم آہنگی اور اشتراک عمل کو زیادہ سے زیادہ فروغ دیں کیونکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے خلاف عالمی اور علاقائی سازشوں اور دباؤ کا اس طرح متحد ہو کر ہی مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔