پاکستان اور مسلم دنیا میں نفاذ شریعت کی صورتحال ۔ پاکستان شریعت کونسل کا اجلاس

   
۲۲ جون ۲۰۱۲ء

پاکستان شریعت کونسل کی مرکزی مجلس شورٰی کا دو روزہ اجلاس ۱۶ و ۱۷ جون ۲۰۱۲ء کو مدرسہ تعلیم القرآن (لنگر کسی، بھوربن، مری) میں امیر مرکزیہ مولانا فداء الرحمان درخواستی کی زیرصدارت ہوا جس میں مولانا قاضی محمد رویس خان ایوبی (میرپور)، مولانا قاری جمیل الرحمان اختر (لاہور)، مفتی محمد نعمان (گوجرانوالہ)، مولانا عبد الرزاق (فیصل آباد)، مولانا صلاح الدین فاروقی (ٹیکسلا)، مولانا عبد الحفیظ محمدی (ڈیرہ اسماعیل خان)، مولانا مفتی محمد نعمان پسروری (سیالکوٹ)، مولانا محمد عمر عثمانی (گجرات)، پروفیسر حافظ منیر احمد (وزیرآباد)، قاری عبید اللہ عامر (گوجرانوالہ)، مولانا سید علی محی الدین (اسلام آباد)، مفتی غفران اللہ حامد (گوجرانوالہ)، مولانا حافظ ذکاء الرحمان اختر (لاہور)، پروفیسر حافظ محمد ظفر (مری)، مولانا ممتاز الرحمان (راولپنڈی)، پروفیسر محمد اشفاق (گجرات)، مولانا انیس الرحمان قریشی (لاہور)، مولانا قاری محمد یوسف (ڈیرہ اسماعیل خان)، مولانا محمد فیاض عباسی (مری) اور دیگر علماء کرام نے شرکت کی۔

اجلاس میں پاکستان اور عالم اسلام میں نفاذ شریعت کی صورتحال کا جائزہ لیا گیا اور اس امر پر زور دیا گیا کہ عالم اسلام کے علمی و دینی حلقوں کو نفاذ اسلام کی جدوجہد کے بارے میں موجودہ صورتحال کا جائزہ لے کر امت مسلمہ کی راہنمائی کا فریضہ سرانجام دینا چاہیے۔

اجلاس میں ان خبروں پر غور کیا گیا کہ (۱) مصر کے حالیہ انتخابات میں اکثریت کے ساتھ کامیاب ہونے والی دینی جماعتوں کو غیر مؤثر بنانے کے لیے سپریم کورٹ کی طرف سے انتخابات کو کالعدم قرار دے دیا گیا ہے (۲) اور کویت میں منتخب پارلیمنٹ نے قرآن و حدیث کو ملک کا سپریم لاء قرار دینے کا جو بل منظور کیا ہے اسے امیر کویت نے مسترد کر دیا ہے۔ مولانا قاضی محمد رویس خان ایوبی اور راقم الحروف نے اس پر تفصیلی اظہار خیال کیا اور اجلاس کے شرکاء کو بتایا کہ مسلم ممالک کے حکمرانوں کا عمومی طرز عمل یہی ہے کہ وہ نفاذ اسلام کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں اور عوام کے جمہوری فیصلوں کو قبول کرنے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں۔ اس سے قبل الجزائر میں ایسا ہو چکا ہے کہ اسلامی جماعتوں نے عام انتخابات کے پہلے مرحلہ میں ۸۰ فیصد ووٹ حاصل کیے مگر فوجی مداخلت کے ذریعے انتخابات کے دوسرے مرحلہ کو روک دیا گیا اور پہلے مرحلہ کے نتائج کو کالعدم قرار دے دیا گیا۔ اس کے بعد الجزائر کی دینی قوتوں کو ہتھیار اٹھانے پر مجبور کیا گیا جس کا سب سے زیادہ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ نفاذ اسلام کے لیے حکومت وقت کے خلاف ہتھیار اٹھانے والے دینی گروہ آپس میں بھی لڑ پڑے اور باہمی تکفیر اور خانہ جنگی کا ماحول پیدا کر دیا گیا۔ یہ گروہ حکمران گروہوں کے ساتھ ساتھ آپس میں ایک دوسرے کو کافر قرار دیتے اور باہمی جنگ و قتال کرتے رہے، اس خانہ جنگی میں جو کم و بیش دس سال جاری رہی ایک لاکھ کے لگ بھگ افراد جاں بحق ہوئے اور دینی جماعتوں کی مجموعی قوت تباہ ہو کر رہ گئی ہے۔

راقم الحروف نے پاکستان کے علماء کرام اور دینی کارکنوں سے کہا کہ وہ الجزائر کی اس تاریخ کا سنجیدگی کے ساتھ مطالعہ کریں جو گزشتہ ربع صدی کے دوران رونما ہوئی کیونکہ خدشہ ہے کہ خدانخواستہ پاکستان میں بھی یہ افسوسناک تجربہ دہرایا جانے والا ہے اور اس کی شروعات ہو چکی ہیں۔ مسلم ممالک کے حکمران طبقات ہر جگہ نفاذ اسلام کی راہ میں رکاوٹ ہیں اور اس کے لیے عوام کے جمہوری فیصلوں کو بھی مسترد کیا جا رہا ہے۔ الجزائر کے بعد مصر اور کویت کی صورتحال سب کے سامنے ہے اور پاکستان کی صورتحال بھی اسی نوعیت کی ہے کہ دستور میں قرآن و سنت کی بالادستی کو تسلیم کیے جانے اور اسلامی قوانین کے نفاذ کی ضمانت موجود ہونے کے باوجود شرعی قوانین کے نفاذ میں رولنگ کلاس رکاوٹ بنی ہوئی ہے، بلکہ جو چند قوانین عوامی دباؤ کے باعث نافذ کیے گئے ہیں ان پر بھی عملدرآمد نہیں ہو رہا اور حیلے بہانوں سے انہیں ختم کرنے کی سازشیں کی جا رہی ہیں۔ نفاذ اسلام کے سلسلہ میں عوام کے جمہوری فیصلوں کو مسترد کرنے والی حکمران قوتیں ہر جگہ اس کوشش میں مصروف ہیں کہ نفاذ اسلام کی جدوجہد کرنے والوں کو ہتھیار اٹھانے پر مجبور کر دیا جائے اور الجزائر جیسی صورتحال پیدا کر دی جائے۔ اس لیے عالم اسلام کے دینی مراکز بالخصوص پاکستان کے علمی حلقوں اور سیاسی قیادت کو سنجیدگی کے ساتھ مستقبل کے ان خدشات و خطرات کا جائزہ لے کر امت کی راہنمائی کرنی چاہیے۔

مولانا قاضی محمد رویس خان ایوبی نے کہا کہ اس سلسلہ میں پاکستان کے سیاسی و دینی حلقوں کو معروضی صورتحال اور مستقبل کے خدشات سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہے۔ جس پر فیصلہ ہوا کہ مسلم ممالک کے حکمرانوں اور پاکستان کے سیاسی و دینی قائدین کے نام پاکستان شریعت کونسل کی طرف سے تفصیلی موقف خطوط کی صورت میں ارسال کیا جائے۔

اجلاس میں پاکستان شریعت کونسل کا اصولی موقف یہ طے کیا گیا کہ مسلم ممالک کے حکمران:

  1. عالمی استعمار کے دباؤ سے نکلنے کے لیے مشترکہ حکمت عملی اختیار کریں۔
  2. مسلم ممالک کی خودمختاری اور سالمیت کی طرف خصوصی توجہ دیں۔
  3. رائے عامہ کا احترام کریں اور خاص طور پر نفاذ شریعت کے سلسلہ میں عوام کے جمہوری فیصلوں پر عملدرآمد کو یقینی بنائیں۔
  4. دینی قوتوں کی کردار کشی اور انہیں دیوار سے لگا کر ہتھیار اٹھانے پر مجبور کرنے کی پالیسی ترک کر دیں۔
  5. مغربی فلسفہ و نظام کے سامنے سپر انداز ہونے کی بجائے اسلامی شریعت کے اعلٰی اصولوں کی عملداری اور اسلامی تہذیب و ثقافت کی بحالی کا اہتمام کریں۔
  6. عالم اسلام کے معاشی وسائل پر استعماری تسلط کو ختم کرنے کے لیے منصوبہ بندی کریں اور ملت اسلامیہ کے معاشی، معدنی اور اقتصادی وسائل کو عالم اسلام کے مفاد اور خاص طور پر غریب عوام کی سہولت کے لیے استعمال کرنے کی پالیسی منظم کریں۔
  7. سائنس اور ٹیکنالوجی میں مغربی قوتوں کی بالادستی اور اجارہ داری کو ختم کرنے کے لیے عملی اقدامات کریں۔
  8. عسکری قوت اور ٹیکنالوجی میں چند قوتوں کی بالادستی کو قبول کرنے کی بجائے مسلم ممالک کو خودکفیل اور خودمختار بنانے کا طرز عمل اختیار کریں۔
  9. تعیش اور لوٹ کھسوٹ ترک کر کے سادگی اور قناعت پسندی اختیار کریں اور عوامی دولت کو ذاتی اور طبقاتی تعیشات پر خرچ کرنے کی بجائے ملکی ترقی اور عوام کو سہولتیں فراہم کرنے پر صرف کریں۔
  10. خلفائے راشدین اور امت کے معروف عادل اور غیور مسلم حکمرانوں کی زندگیوں کا مطالعہ کریں اور اپنی زندگی کے ذاتی، خاندانی اور حکومتی دائروں میں اسے مشعل راہ بنائیں۔

اجلاس نے ملک کی موجودہ صورتحال اور خاص طور پر حکمران طبقات کے درمیان جاری کشمکش کا بھی جائزہ لیا اور اس رائے کا اظہار کیا کہ یہ کشمکش دستور میں قرآن و سنت کی بالادستی کو نظرانداز کرنے کے نتیجے میں رونما ہوئی ہے اور قرآن و سنت کی بالادستی کو عملاً تسلیم کیے بغیر اس کشمکش کا خاتمہ ممکن نہیں ہے۔ اس لیے کہ قرآن کریم میں ’ویذیق بعضکم بأس بعض‘‘ (الانعام ۶۵) کو خدائی عذاب کی ایک شکل بتایا گیا ہے جو آج ہم پر مسلط ہے اور ہمارے مقتدر طبقات ایک دوسرے کو ذلیل اور رسوا کرنے میں مصروف ہیں۔ حکمران طبقے (Ruling Class) کے مختلف عناصر کے درمیان بالادستی کی یہ کشمکش قومی قوت کو کمزور کرنے کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر ملک و قوم کے لیے بدنامی کا باعث بن رہی ہے مگر حکمران طبقے کسی بات کی پروا کیے بغیر اس ’’کار شر‘‘ میں مگن ہیں۔ پاکستان شریعت کونسل کی رائے میں سپریم کورٹ کی ذمہ داری ہے کہ وہ دستور کی دیگر دفعات کی پاسداری اور ان پر عملدرآمد کا اہتمام کرنے کے ساتھ ساتھ قرآن و سنت کی بالادستی اور شرعی قوانین کے نفاذ کی ضمانت دینے والی دستوری دفعات کی طرف بھی توجہ دے اور دستور پاکستان کی مکمل بالادستی کو اپنے پروگرام کی بنیاد بنائے۔ قرآن و سنت کی قانونی حکمرانی کو عملاً اختیار کیے بغیر اور خلفائے راشدین کے طرز حکومت کو آئیڈیل بنائے بغیر نہ تو کرپشن کا خاتمہ ممکن ہے، نہ گڈ گورننس کا قیام ممکن ہے اور نہ ہی حکمران طبقات اور اداروں کے درمیان بالادستی کی کشمکش کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔

پاکستان شریعت کونسل کی مجلس شورٰی نے اپنی داخلی صورتحال کا بھی جائزہ لیا اور خصوصی طور پر اس بات کا سنجیدگی کے ساتھ نوٹس لیا کہ مرکزی مجلس شورٰی کے بہت سے فیصلوں پر عمل نہیں ہو پاتا، جس کی وجہ سیکرٹری جنرل کی متنوع مصروفیات کو قرار دیا گیا اور ان کی معاونت کے لیے چار معاونین کا ڈپٹی سیکرٹری کے طور پر تعین کیا گیا۔ (۱) مولانا مفتی محمد نعمان، گوجرانوالہ (۲) مولانا قاری عبید اللہ عامر، گوجرانوالہ (۳) مولانا صلاح الدین فاروقی، ٹیکسلا (۴) مولانا حافظ سید علی محی الدین، اسلام آباد۔ جبکہ مولانا قاری جمیل الرحمان اختر بدستور ڈپٹی سیکرٹری جنرل کے فرائض سرانجام دیتے رہیں گے۔

امیر مرکزیہ مولانا فداء الرحمان درخواستی نے آزاد کشمیر کے بزرگ عالم دین مولانا مفتی محمد رویس خان ایوبی آف میر پور کی پاکستان شریعت کونسل میں شمولیت کا خیرمقدم کرتے ہوئے انہیں کونسل کا مرکزی نائب امیر مقرر کرنے کا اعلان کیا اور امید ظاہر کی کہ ان کی شمولیت سے پاکستان شریعت کونسل کی سرگرمیوں میں زیادہ بہتری آئے گی اور ان کی علمی و فکری راہنمائی ہمارے لیے قیمتی اثاثہ ثابت ہو گی۔

اجلاس میں مولانا محمد اسلم شیخوپوریؒ، مولانا سید محسن شاہؒ اور مولانا نصیب خانؒ کی المناک شہادت پر گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے ان کی دینی خدمات پر خراج عقیدت پیش کیا گیا اور ان کے افسوسناک قتل کی شدید مذمت کرتے ہوئے حکومت سے ان کے قاتلوں کی فوری گرفتاری کا مطالبہ کیا گیا اور ان کے لیے دعائے مغفرت کی گئی۔

اجلاس میں مندرجہ ذیل قراردادیں متفقہ طور پر منظور کی گئیں:

  • یہ اجلاس پاکستان کی حدود میں امریکی ڈرون حملوں کی شدید مذمت کرتا ہے اور حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ قومی خودمختاری اور شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کے لیے پارلیمنٹ کے متفقہ فیصلہ کے مطابق جرأت مندانہ موقف اختیار کیا جائے اور ڈرون حملوں کو عملی طور پر روکا جائے۔
  • یہ اجلاس نیٹو سپلائی بحال کیے جانے کی خبروں پر شدید تشویش کا اظہار کرتا ہے اور اس سلسلہ میں قومی و دینی حلقوں کے اس موقف کے ساتھ مکمل ہم آہنگی کا اظہار کرتا ہے کہ ملکی سلامتی اور قومی خودمختاری کے تحفظ کی خاطر نیٹو سپلائی مکمل طور پر بند رکھی جائے اور اس سلسلہ میں کوئی لچک نہ دکھائی جائے۔
  • یہ اجلاس حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ نفاذ اسلام کے سلسلہ میں اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کو دستور کے مطابق قومی و صوبائی اسمبلی میں قانون سازی کے لیے پیش کیا جائے اور پارلیمنٹ میں قرآن و سنت کے خلاف غیر دستوری قانون سازی کا سلسلہ فوری طور پر ترک کیا جائے۔
  • یہ اجلاس لوڈشیڈنگ اور مہنگائی میں مسلسل اضافہ پر انتہائی تشویش و اضطراب کا اظہار کرتا ہے، اسے ملکی معیشت میں بڑھتی ہوئی غیر ملکی مداخلت، حکومت کی پالیسیوں اور سرمایہ دارانہ نظام کے اصولوں پر قائم قومی معیشت کے ظالمانہ ڈھانچے کا منطقی نتیجہ قرار دیتا ہے۔ اور اس دوٹوک موقف کا اظہار کرتا ہے کہ خلافت راشدہ کے نظام کی طرز پر قومی معاشی ڈھانچے کی ازسرنو تشکیل کے بغیر قوم کو کرپشن، مہنگائی اور لوڈشیڈنگ کے اس عذاب سے نجات دلانا ممکن نہیں ہے۔ یہ اجلاس حکومت پاکستان سے مطالبہ کرتا ہے کہ لوڈشیڈنگ اور مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے عارضی اقدامات کے ساتھ ساتھ قومی معاشی ڈھانچے کی ازسرنو تشکیل کی جائے اور سرمایہ دارانہ نظام سے نجات حاصل کرکے خلافت راشدہ کے فلاحی ریاست کے نظام کو اپنانے کی طرف سنجیدہ پیشرفت کی جائے۔
  • یہ اجلاس مسئلہ کشمیر کو حل کیے بغیر بھارت کو ’’فیورٹ‘‘ ملک قرار دینے کے رجحانات کو افسوسناک قرار دیتا ہے اور حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرانے کے لیے عالمی سطح پر ازسرنو منظم مہم چلائی جائے۔

پاکستان شریعت کونسل کے دو روزہ اجلاس کی آخری نشست ’’نظام شریعت کنونشن‘‘ کے طور پر عمومی نشست کی صورت میں منعقد ہوئی جس سے کونسل کے راہنماؤں کے علاوہ جمعیۃ علماء اسلام مری کے امیر مولانا قاری سیف اللہ سیفی نے بھی خطاب کیا اور مری کے علاقہ میں پاکستان شریعت کونسل کی مرکزی مجلس شورٰی کے اجلاس کا خیرمقدم کرتے ہوئے کونسل کے دینی و علمی پروگراموں میں مکمل تعاون کا اعلان کیا۔

   
2016ء سے
Flag Counter