بخاری شریف کے امتیازات ۔ حدیث شریف کی طالبات سے ایک خطاب

   
جامعہ تعلیم القرآن للبنات، گوجرانوالہ
۳ اکتوبر ۲۰۰۹ء

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ سب سے پہلے ان طالبات کو جو آج دورۂ حدیث شریف اور بخاری شریف کے سبق کا آغاز کر رہی ہیں اس تعلیمی پیشرفت پر مبارکباد پیش کرتا ہوں اور دعا گو ہوں کہ اللہ رب العزت انہیں علم حدیث کا ذوق عطا فرمائیں، فہم نصیب کریں، عمل کی توفیق اور خدمت کے مواقع سے بہرہ ور فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔ آپ نے اس سے قبل حدیث نبویؐ کی بعض کتابیں پڑھی ہیں اور اس سال بھی بخاری شریف کے ساتھ ساتھ دیگر کتابیں آپ پڑھیں گی لیکن میں آپ کو بخاری شریف کی اہمیت اور اس کی چند خصوصیات و امتیازات کی طرف توجہ دلانا چاہا ہوں تاکہ پڑھنے کے دوران آپ کی ان پر نظر رہے اور اس عظیم کتاب سے آپ زیادہ سے زیادہ استفادہ کر سکیں۔

  • بخاری شریف کی ایک خصوصیت اس کی جامعیت ہے جس کے بارے میں حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ فرماتے ہیں کہ امام بخاریؒ نے اس کتاب میں فقہ و احکامِ فقہ، سیر و مغازی، تفسیر، وجدانیات و روحانیات اور اخلاق و آداب کے مختلف شعبوں کی روایات کو جمع کر دیا ہے۔ اور صرف یہی نہیں بلکہ اس کے ساتھ ایمان و عقائد کی روایات کو بھی کتاب کا حصہ بنایا ہے اور انسانی زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جس کے بارے میں کسی نہ کسی عنوان کے ساتھ امام بخاریؒ نے روایات پیش نہیں کیں۔ چنانچہ محدثین کی اصطلاح میں ’’الجامع‘‘ اسی کتاب کو کہا جاتا ہے جس میں صرف احکام کی روایات نہ ہوں بلکہ ایمانیات، تفسیر، اخلاقیات اور دیگر ضروری شعبوں کی روایات و ابواب بھی اس کا حصہ ہوں اور اس حوالہ سے بخاری شریف کو صحیح معنوں میں ’’الجامع‘‘ کا مقام حاصل ہے۔
  • بخاری شریف کا دوسرا امتیاز اس کا صحت کا معیار ہے۔ امام بخاریؒ نے روایت کو قبول کرنے کے لیے اس کے مسند اور مرفوع ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی صحت کی ایسی شرائط قائم کی ہیں اور ان کی پابندی کا اہتمام کیا ہے جس نے جمہور محدثین کے ہاں بخاری شریف کو ’’اصح الکتب بعد کتاب اللہ‘‘ کا درجہ دلا دیا ہے۔
  • بخاری شریف کا تیسرا امتیاز یہ ہے کہ وہ صرف روایات کا مجموعہ نہیں ہے بلکہ فقہ و استنباط بھی اس کا ایک اہم حصہ ہے۔ عام طور پر محدث کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ روایات اور اس کی سند پیش کرتا ہے اور حدیث کے درجہ سے بحث کرتا ہے، جبکہ حدیث سے کسی مسئلہ کا استنباط اور کسی حکم کے لیے اس سے استدلال فقیہ کا کام ہوتا ہے۔ امام بخاریؒ یہ دونوں کام کرتے ہیں اور ایک روایت کو کئی حصوں میں تقسیم کر کے اور متعدد جگہوں پر اسے درج کر کے بعض روایات سے انہوں نے درجنوں مسائل نکالے ہیں۔ امام بخاریؒ محدث بھی ہیں، فقیہ بھی ہیں، مفسر بھی ہیں، مؤرخ بھی ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ متکلم بھی ہیں۔ وہ چونکہ مؤرخ بھی ہیں اس لیے تاریخی روایات ان کے ہاں سب سے زیادہ ملتی ہیں۔ انہوں نے مغازی کا ذکر جس تفصیل کے اور ذوق کے ساتھ کیا ہے وہ آپ کو کہیں اور نہیں ملے گا اور تاریخی اہمیت کی دیگر روایات مثلاً جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد خلیفہ کے طور پر حضرت ابوبکرؓ کا انتخاب، پھر حضرت عمرؓ کا انتخاب، پھر حضرت عثمانؓ کا انتخاب، اور دیگر تاریخی اہمیت کے حامل واقعات امام بخاریؒ نے اہتمام کے ساتھ بیان فرمائے ہیں۔
  • بخاری شریف کی کتاب التفسیر بھی آپ کو حدیث کی دیگر بہت سی کتابوں سے ممتاز نظر آئے گی۔ وہ قرآنی آیات کی تفسیر روایات کے ساتھ تو کرتے ہی ہیں، ان کے الفاظ کی تشریح بھی کرتے ہیں اور لغوی بحث بھی کرتے ہیں۔ اس ضمن میں امام بخاریؒ کے ذوق کے ایک پہلو کی طرف آپ کو متوجہ کرنا چاہوں گا کہ وہ قرآن کریم کی کسی آیت کی تشریح میں پہلے قرآن کریم ہی کی کوئی دوسری آیت پیش کریں گے، اس کے ساتھ کوئی حدیث لائیں گے اور پھر صحابہ کرامؓ اور تابعینؒ کے آثار و اقوال نقل کریں گے اور یہ بتائیں گے کہ حدیث و سنت کے ساتھ ساتھ آثار صحابہ اور آثار تابعین بھی قرآن فہمی کا ایک اہم ذریعہ ہیں اور انہیں قرآن کریم کی تعبیر و تشریح میں خاص اہمیت حاصل ہے۔
  • میری طالب علمانہ رائے میں امام بخاریؒ کا ایک اور امتیاز یہ ہے کہ وہ ایک متکلم اور عقائد کے شارح کے طور پر محدثین کے ذوق کے سب سے بڑے ترجمان ہیں۔ انہوں نے صرف ایمانیات و عقائد پیش نہیں کیے بلکہ ان کی تعبیر و تشریح بھی مستقل طور پر کی ہے۔ وہ بخاری شریف کے آغاز میں کتاب الایمان کے تحت ایمانیات و عقائد کی بات کرتے ہیں اور بخاری شریف کے اختتام پر عقائد کی تعبیر و تشریح سے بحث کرتے ہیں۔ اور دونوں جگہ ان کا انداز یہ ہے کہ قرآن کریم کی آیات پیش کرتے ہیں، احادیث پیش کرتے ہیں اور اس کے ساتھ جہاں ضرورت پیش آتی ہے صحابہ کرامؓ اور تابعینؒ کے اقوال و آثار بھی پیش کرتے ہیں۔ گویا کہ وہ یہ بتاتے اور سمجھاتے ہیں کہ جس طرح عقائد کا ماخذ قرآن کریم، سنت رسولؐ اور آثار صحابہؓ ہیں اسی طرح عقائد کی تعبیر و تشریح کی اساس بھی انہی تین امور پر ہے اور یہی اہل السنۃ والجماعۃ کی علمی اور فکری بنیاد ہے۔
  • آج کے دور میں جبکہ فکری گمراہی کا چلن عام ہے اور یہ بات کھلے بندوں کہی جاتی ہے کہ عقیدہ صرف قرآن کریم سے لیں گے اور اس کی تعبیر و تشریح عقل عام (کامن سینس) کے ذریعے کریں گے، فکر و عقیدہ کی بہت سی گمراہیوں کی بنیاد اسی سوچ پر ہے۔ اس لیے میرے خیال میں بخاری شریف کی تعلیم و تدریس کے دوران امام بخاری کے اس اسلوب کی طرف سب سے زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ ایمان و عقیدہ ہو یا فقہ و احکام ہوں، ہمارے استدلال اور تعبیر و تشریح کا ماخذ قرآن و سنت اور آثار صحابہؓ ہیں اور کسی عقیدہ کا تعین اور اس کی تشریح و تعبیر ہم اسی دائرے میں کریں گے۔
  • اسی طرح یہ بات بھی بخاری شریف پڑھتے اور پڑھاتے ہوئے پیش نظر رہنی چاہیے کہ امام بخاریؒ کسی حدیث سے مسئلہ اور حکم کا استنباط کیسے کرتے ہیں۔ بخاری شریف میں عنوان کا حدیث کے ساتھ تعلق یہی ہوتا ہے جسے بخاری شریف کی مشکلات میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس پر بھی بطور خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے اس لیے کہ استدلال سے فقہی ذوق پیدا ہوتا ہے اور فکر و ذہن کو بلندی اور گہرائی دونوں نصیب ہوتی ہیں۔ اگر اس پہلو پر ضروری توجہ دی جائے تو قرآن کریم اور حدیث نبویؐ کے صحیح فہم کی استعداد پیدا ہوتی ہے۔

بخاری شریف میں میری اصل سند تو تعلیمی سند ہے جو والد محترم مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کے حوالہ سے ہے کہ میں نے بخاری شریف مکمل ان سے پڑھی ہے اور انہوں نے شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنیؒ اور دیگر اساتذہ سے پڑھی ہے۔ یہ سند معروف ہے لیکن مجھے بحمد اللہ تعالیٰ دیگر بہت سے اکابر محدثین سے بھی روایتِ حدیث کی اجازت حاصل ہے جن میں الشیخ عبد الفتاح ابو غدہ، الشیخ عبد اللہ بن احمد الناخبی الحضرمی اور الشیخ سید ابوالحسن علی ندوی رحمہم اللہ تعالیٰ شامل ہیں۔ ان میں شیخ محمد یاسین فادانیؒ کی سند کے ساتھ میں آپ کے سامنے روایت پڑھوں گا، ایک تو اس لیے کہ اس میں واسطے کم ہیں اور دوسرا اس لیے کہ شیخ فادانی اپنے دور کی ایک عظیم محدثہ خاتون الشیخۃ امۃ اللہ محدثہ دہلویہ سے روایت کرتے ہیں جو حضرت شاہ عبد الغنی محدث دہلوی کی بیٹی اور شاگرد ہیں اور وہ اپنے والد محترم سے روایت کرتی ہیں۔ اس عظیم محدثہ خاتون کی نسبت سے میں طالبات کے سامنے عام طور پر اسی سند کے ساتھ روایت پڑھا کرتا ہوں تاکہ آپ طالبات بھی اس نسبت کی برکت میں شامل ہو جائیں۔

امام بخاریؒ ابتدا میں ’’بدء الوحی‘‘ کا باب لا کر یہ سبق دے رہے ہیں کہ ہمارے تمام معاملات کی بنیاد وحی پر ہے۔ عقیدہ و ایمانیات سے لے کر اخلاق و معاملات تک ہم ہر معاملہ میں وحی سے راہنمائی حاصل کریں گے۔ یہ بات آج کے دور میں جبکہ پوری دنیا آسمانی تعلیمات کو ماننے یا ان سے صاف انکار کرنے کے حوالہ سے دو واضح حصوں میں تقسیم ہو چکی ہے، بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے کہ ہم آج کے عالمی تناظر میں وحی الٰہی کے ساتھ اور آسمانی تعلیمات کے ساتھ اپنی دوٹوک وابستگی اور کمٹمنٹ کا اظہار کر رہے ہیں۔

دوسری بات یہ کہ امام بخاریؒ نے اپنی کتاب کا آغاز نیت والی روایت سے کیا ہے جس سے وہ یہ سبق دے رہے ہیں کہ اصل بات نیت ہے اور نیت پر ہی عمل کا مدار ہے۔ اگر نیت درست ہے تو اعمال بھی درست ہیں اور اگر خدانخواستہ نیت میں گڑبڑ ہے تو اعمال بھی اسی کے مطابق شمار ہوں گے۔ اس لیے ہمیں اس کار خیر کے آغاز سے پہلے اپنی نیتوں کا جائزہ لے لینا چاہیے کہ ہم کس نیت اور غرض کے ساتھ یہ کام کر رہے ہیں اور اگر اس میں کوئی جھول یا کجی ہو تو اسے درست کر لینا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو نیت کی اصلاح کے ساتھ صحیح عمل کا ذوق اور اس کی تکمیل کی توفیق سے نوازیں، آمین ثم آمین۔

(روزنامہ اسلام، لاہور ۔ ۶ اکتوبر ۲۰۰۹ء)
2016ء سے
Flag Counter