آج کا کالم چند تقریبات اور مجالس میں شرکت کے حوالہ سے ہے۔ ۲۸ اکتوبر کو، جو میرا یوم پیدائش بھی ہے، اقراء روضۃ الاطفال گوجرانوالہ زون کی سالانہ تقریب تھی، بچوں اور بچیوں کے لیے قرآن کریم اور ضروریات دین کے ساتھ ساتھ سکول کی عصری تعلیم کا یہ وسیع نیٹ ورک ملک بھر میں کام کر رہا ہے جس کا آغاز مولانا مفتی محمد جمیل خان شہیدؒ نے اکابر علماء کرام کی سرپرستی میں ۱۹۸۴ء میں کیا تھا۔ یہ تعلیمی نیٹ ورک معیاری تعلیم اور قابل اعتماد دینی ماحول کے باعث اولاد کو دین و دنیا دونوں کی تعلیم دلوانے کے خواہشمند مسلمانوں کی توجہ کا مرکز بن گیا ہے اور اس وقت کراچی سے گلگت تک اس نیٹ ورک کی ۱۸۵ شاخیں مصروف عمل ہیں اور ان میں مجموعی طور پر ۸۰ ہزار سے زیادہ طلبہ و طالبات زیر تعلیم ہیں جنہیں اسکول کی تعلیم کے ساتھ حفظ قرآن کریم اور بنیادی دینی تعلیم بھی دی جا رہی ہے اور اب تک باسٹھ ہزار سے زائد بچے اور بچیاں اس سے استفادہ کر چکے ہیں۔ گوجرانوالہ زون کے مدارس میں گزشتہ سال ۱۹۹ طلبہ و طالبات نے قرآن کریم حفظ مکمل کیا جن کے آخری سبق اور دعا کے لیے اس تقریب کا اہتمام کیا گیا جس میں مجھے بھی شرکت کا اعزاز حاصل ہوا، جبکہ اقراء روضۃ الاطفال کے ذمہ دار حضرات مولانا مفتی خالد محمود اور مفتی محمد بن مفتی جمیل خان شہید کی سربراہی میں موجود تھے اور بچوں کے والدین اور دیگر بہت سے معززین شہر اور سرکردہ علماء کرام شریک محفل تھے۔ اس سال حفظ مکمل کرنے والوں میں ہمارے خاندان کی ایک بچی عفیفہ عمر بھی شامل ہے جو برادرم مولانا عبد القدوس خان قارن کی پوتی اور حافظ نصر الدین خان عمر کی بیٹی ہے اس لیے اس میں حاضری میرے لیے دوہری خوشی کا باعث ہوئی۔
۳۰ اکتوبر کو جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے مرکزی ناظم انتخابات مولانا راشد محمود سومرو اور صوبائی ناظم انتخابات مولانا خلیل الرحمان درخواستی گوجرانوالہ کے دورہ پر تشریف لائے، ان کے اعزاز میں مرکزی جامع مسجد میں ظہر تا عصر ایک نشست کا اہتمام کیا گیا جس میں علماء کرام اور کارکنوں کی بڑی تعداد شریک ہوئی اور میں نے بھی اپنی گفتگو میں جمعیۃ علماء اسلام کی رکن سازی کی مہم کو کامیاب بنانے کی طرف احباب کو توجہ دلائی۔
یکم نومبر کو مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں آسیہ بی بی کیس کے حوالہ سے تمام مکاتب فکر کے علماء کرام، تاجر تنظیموں اور ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کے راہنماؤں کا مشترکہ اجلاس ہوا اور اس موقع پر شیرانوالہ باغ سے باہر جی ٹی روڈ پر مطالبات کی حمایت میں دھرنا دیا گیا جس سے تمام طبقوں کے راہنماؤں نے خطاب کیا۔
۵ نومبر کو الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں پاکستان شریعت کونسل پنجاب کی مجلس عاملہ کا اجلاس ہوا جس کی صدارت صوبائی امیر مولانا قاری جمیل الرحمان اختر نے کی اور سیکرٹری جنرل مفتی محمد نعمان پسروری نے شرکاء کو صوبائی شریعت کونسل کی سرگرمیوں سے آگاہ کیا۔ اس موقع پر فیصلہ ہوا کہ ربیع الاول کے دوران مختلف شہروں میں ’’ریاست مدینہ کانفرنس‘‘ کے عنوان سے سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالہ سے اجتماعات کا اہتمام کیا جائے گا جس کے تحت ۱۲ نومبر کو گوجرانوالہ، ۱۵ نومبر کو پسرور، ۲ دسمبر کو لاہور اور ۵ دسمبر کو فیصل آباد میں یہ اجتماعات منعقد ہوں گے۔ اجلاس میں دیگر دینی جماعتوں سے اپیل کی گئی کہ وہ بھی اس سال سیرت النبیؐ کے موضوع پر منعقد ہونے والے اجتماعات کو ’’ریاست مدینہ‘‘ سے موسوم کر کے اسے ریاست مدینہ اور خلافت راشدہ سے آگاہی کی مہم کی شکل دیں۔
۸ نومبر کو ملی مجلس شرعی پاکستان کا ایک اہم اجلاس جامعہ اسلامیہ جوہر ٹاؤن لاہور میں مولانا مفتی محمد خان قادری کی صدارت میں ہوا جس میں مولانا عبد الرؤف ملک، مولانا عبد المالک، پروفیسر ڈاکٹر محمد امین، قاضی نیاز حسین نقوی، مولانا غضنفر عزیز، قاری محمد عثمان رمضان، مرزا محمد ایوب بیگ اور دیگر سرکردہ حضرات کے ساتھ میں نے بھی شرکت کی۔ اجلاس میں آسیہ بی بی کیس کے سلسلہ میں سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلہ کو بیرونی دباؤ کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے اس سلسلہ میں عوامی احتجاج کو فطری اور جائز قرار دیا گیا اور عدالت عظمٰی سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ نظرثانی کی اپیل کو سماعت کے لیے فوری طور پر منظور کرے۔ اجلاس میں طے پایا کہ نظرثانی کی اپیل کی سماعت کے دوران سرکردہ علماء کرام اور وکلاء کا ایک گروپ ’’ملی مجلس شرعی پاکستان‘‘ کی طرف سے بھی کارروائی میں شریک ہوگا۔ اجلاس میں اس بات پر زور دیا گیا کہ ملک کے نظریاتی اسلامی تشخص کے تحفظ اور ناموس رسالتؐ اور تحفظ ختم نبوت کے قوانین کا تسلسل برقرار رکھنے کے لیے ۱۹۷۴ء کی طرز پر کل جماعتی مشترکہ قومی فورم کی تشکیل اور اجتماعی موقف کا اظہار انتہائی ضروری ہے۔ اجلاس میں طے پایا کہ ملی مجلس شرعی کے قائدین اس سلسلہ میں مختلف مکاتب فکر کے راہنماؤں سے رابطہ کریں گے۔
حضرت مولانا سمیع الحق شہیدؒ کے المناک قتل کے حوالہ سے مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ، جامعہ نصرۃ العلوم اور الشریعہ اکادمی میں مختلف اجتماعات ہوئے جس میں اس وحشیانہ واردات کی شدید مذمت کرتے ہوئے حضرت مولانا شہیدؒ کی دینی و قومی خدمات پر خراج عقیدت پیش کیا گیا اور حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ قاتلوں کو فی الفور گرفتار کیا جائے اور اس المناک سانحہ کے محرکات کو بے نقاب کیا جائے۔ اس سلسلہ میں احتجاجی اجتماعات اور مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے اور ہر سطح پر علماء کرام اور کارکن اپنے جذبات کا مسلسل اظہار کر رہے ہیں۔
جامعہ نصرۃ العلوم کے فاضل مفتی خالد محمود ہمارے عزیز شاگرد ہیں جو مولانا مفتی شاہد عبید (لاہور)، مولانا مفتی عبد المنان (کراچی) اور مولانا مفتی محمد زاہد (فیصل آباد) کی راہنمائی میں افتاء کا آن لائن کورس منظم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو بتدریج آگے بڑھ رہا ہے اور میں بھی ایک دعاگو اور مشیر کے طور پر ان کے ساتھ شریک ہوں۔ تین سال قبل اپنی شادی کے موقع پر مفتی خالد محمود کا اصرار تھا کہ میں ان کا نکاح رائیونڈ کے عالمی تبلیغی مرکز میں پڑھاؤں، ان کی فرمائش کی تکمیل ہوئی، اس سال انہوں نے یہی اصرار اپنے چھوٹے بھائی حافظ راشد محمود کے حوالہ سے کیا، چنانچہ جمعرات کی شب میں نے قاری محمد عثمان رمضان اور حافظ شاہد الرحمان میر کے ہمراہ تھوڑی دیر کے لیے رائے ونڈ کے تبلیغی اجتماع میں حاضری دی، مغرب کے بعد بھارت سے تشریف لانے والے بزرگ حضرت مولانا محمد ابراہیم کا خطاب سنا جو ایمان و تقوٰی اور ان کی برکات کے حوالہ سے بہت قیمتی بیان تھا، پھر ایک کونے میں بیٹھ کر حافظ راشد محمود اور ان کے ساتھ ان کے ایک اور عزیز محمد امجد کا نکاح پڑھایا، اللہ تعالٰی دونوں جوڑوں کو دنیا و آخرت کی خوشیاں نصیب فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔