اکتوبر ۲۰۰۴ء کے اوائل میں اسلام آباد میں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اور ریڈ کراس کے زیر اہتمام ’’متاثرین کا تحفظ: اسلامی شریعت اور بین الاقوامی انسانی حقوق کی روشنی میں‘‘ کے موضوع پر دو روزہ سیمینار ہوا، جس میں شرکت کی مجھے بھی دعوت تھی، مگر میں بیرون ملک سفر کی وجہ سے سیمینار میں شریک نہ ہو سکا۔ البتہ اپنی معروضات تحریری صورت میں منتظمین کو لندن سے بھجوا دیں، جو قارئین کی دلچسپی کے لیے پیش خدمت ہیں۔
امن، بقائے باہمی اور سلامتی انسانی سوسائٹی کی بنیادی ضروریات میں سے ہیں اور انہی پر نسل انسانی کی بقا و تسلسل اور ترقی کا دارومدار ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ باہمی مناقشت، تعدی، انتقام، غصہ، حسد، اپنے مفاد کو ترجیح دینا اور منافرت بھی انسانی خصائل میں سے ہیں، جن کی وجہ سے تنازعات جنم لیتے ہیں، جھگڑے پیدا ہوتے ہیں، جنگ و جدل کا بازار گرم ہوتا ہے، جبر و تسلط کے راستے کھلتے ہیں اور ظلم و استحصال کی نت نئی شکلیں نمودار ہوتی ہیں، جن کے نتیجے میں نسل انسانی کا ایک بڑا حصہ امن و سلامتی سے محروم ہو جاتا ہے۔ انسانی تاریخ کے ہر دور میں ایسا ہوتا رہا ہے، آج بھی ہو رہا ہے اور جب تک نسل انسانی اس زمین پر آباد ہے، ہوتا رہے گا۔ مگر اس کے سدباب اور نسل انسانی کو اس کے اثرات سے بچانے کے لیے بھی ہر دور میں کوششیں ہوتی رہی ہیں، جن کا تسلسل آج بھی قائم ہے اور انسانی سوسائٹی کی پیشرفت اور ارتقا کے ساتھ ساتھ یہ کوششیں بھی ہمیشہ جاری رہیں گی۔
انسانی سوسائٹی کو امن و سلامتی فراہم کرنے اور امن و سلامتی کے منافی اسباب و عوامل کو روکنے کے لیے ان مساعی کے دو الگ الگ سرچشمے چلے آ رہے ہیں اور دونوں سے پھوٹنے والے جہد و عمل کے دھارے متوازی خطوط کے طور پر انسانی سوسائٹی میں سرگرم عمل رہے ہیں۔ ایک طرف وحی الٰہی اور آسمانی تعلیمات کا چشمہ ہے، جس کی نمائندگی حضرات انبیائے کرام علیہم السلام اور ان کے پیروکاروں نے کی ہے اور دوسری طرف انسانی عقل و دانش کا سرچشمہ ہے، جس سے فیضیاب ہونے والے بہت سے ارباب فہم و دانش نے ہر دور میں نسل انسانی کو امن و سلامتی کا راستہ دکھانے کے لیے سر توڑ کوشش کی ہے۔ انسانی سوسائٹی کو امن و سلامتی سے روشناس کرانے، نسل انسانی کے ارتقا اور انسانی برادری میں تمدن و ثقافت کے فروغ کے لیے دونوں کی جدوجہد اور خدمات کا وسیع میدان ہے۔ پس منظر، اہداف اور نتائج کے مختلف ہونے کے باوجود دونوں میں سے کسی کی محنت، جدوجہد اور تگ و دو سے انکار نہیں کیا جا سکتا، تاہم اپنے اہداف اور طریق کار کے حوالے سے دونوں میں پائے جانے والے فرق کے چند اہم پہلوؤں کو اس مرحلے میں سامنے رکھنا ضروری ہے۔
انسانی سوسائٹی میں آسمانی تعلیمات کی کار فرمائی کی بنیاد اس عقیدے و یقین پر ہے کہ یہ زمین اور اس کی آبادی کائنات کے اس وسیع نظام اور نیٹ ورک کا ایک حصہ اور یونٹ ہے، جس کی تخلیق اللہ تعالیٰ نے کی ہے اور وہی اس سارے نظام کو چلا رہا ہے۔ زمین اور اس پر انسانی نسل کی پیدائش محض اتفاقی یا حادثاتی نہیں، بلکہ پیغمبروں کے ذریعے اس مقصد اور ایجنڈے کی وضاحت کی گئی ہے، جس پر عمل کرنا نسل انسانی کے لیے ضروری ہے۔ جبکہ موت کے بعد انسان کی زندگی کا ایک نیا دور شروع ہوتا ہے، جس میں کامیابی اور ناکامی کا مدار اس بات پر ہے کہ اس نے دنیا کی زندگی میں آسمانی تعلیمات کی طرف سے دیے گئے ایجنڈے پر کس حد تک عمل کیا ہے؟ جبکہ محض انسانی عقل و شعور اور فہم و ادراک کی بنیاد پر انسانی سوسائٹی کا ایجنڈا ترتیب دینے والوں نے اپنے سارے پروگرام کی بنیاد اس محدود تصور پر رکھی ہے کہ عناصر حیات کی ترکیب نے دیگر بہت ہی مخلوقات کی طرح انسان کو بھی جنم دے دیا ہے، جو عقل و شعور کی وجہ سے دوسری مخلوقات پر فوقیت اور امتیاز رکھتا ہے۔ اس نے ایک وقت تک زمین پر رہ کر فنا کے گھاٹ اتر جانا ہے اور چونکہ اجتماعیت اور تمدن کے شعور نے اسے ایک منظم سوسائٹی کی شکل دے دی ہے، اس لیے اس کے باہمی ربط و تنظیم کو بہتر سے بہتر شکل دینے اور اس کے منافی اسباب و عوامل سے اسے محفوظ رکھنے کے لیے انسانی عقل و شعور کی بنیاد پر سوچنا اور قواعد و قوانین کے ارتقا کی طرف پیشرفت جاری رکھنا ضروری ہے۔
حضرات انبیائے کرام علیہم السلام کی تعلیمات و ہدایات نے انسانی سوسائٹی میں ہمیشہ خیر کے فروغ اور شر کے خاتمے کے لیے کام کیا ہے، جبکہ انسانی عقل و شعور کا استعمال ہر دور میں دونوں مقاصد کے لیے ہوتا آیا ہے۔ خیر کی قوتوں نے بھی انسانی عقل و شعور اور فہم و ادراک کا بھرپور استعمال کیا ہے اور بے شمار ارباب فہم و دانش نے نسل انسانی کی بہتری کے لیے انسانی عقل و شعور سے استفادہ کیا ہے، مگر شر کی قوتوں، ظلم و استحصال کے خوگروں اور جبر و تشدد کے علمبرداروں نے بھی انسانی عقل و دانش کے ہتھیاروں کے ذریعے ہی ہر دور میں پیشرفت کی ہے۔ اس طرح عقل و شعور کو انسانی سوسائٹی میں دو دھاری تلوار کی حیثیت حاصل رہی ہے۔ یہ تلوار خیر والوں کے ہاتھ میں رہی ہے تو شر کے خلاف استعمال ہوئی ہے اور شر والوں کے ہاتھ میں آئی ہے تو اس نے خیر والوں کے کشتوں کے پشتے لگا دیے ہیں۔
آسمانی تعلیمات نے انسانی سوسائٹی کو بدامنی، فساد اور خرابی کی طرف لے جانے والے جرائم کے اسباب کو موضوع بحث بنایا ہے اور ان کے سدباب کے لیے قوانین و ضوابط دیے ہیں۔ مثلاً خاندان کو انسانی سوسائٹی کا ایک بنیادی اور ناگزیر یونٹ قرار دیتے ہوئے اس کے تحفظ و بقا اور نسب و نسل کے امتیاز کو برقرار رکھنے کے لیے آسمانی تعلیمات میں زنا کو سنگین جرم کی حیثیت دی گئی ہے اور مرد و عورت کے درمیان تعلقات و روابط کی ان تمام صورتوں کو ممنوعات کا درجہ دے دیا گیا ہے، جو زنا کا سبب بن سکتے ہیں۔ اسی طرح آسمانی تعلیمات نے جرم کے سدباب کے لیے ان کے اسباب کا راستہ روکا ہے۔ جبکہ محض انسانی عقل و شعور کی بنیاد پر تشکیل پائے جانے والے فلسفے اور قوانین و احکام کو ان اسباب سے کوئی غرض نہیں، بلکہ اسباب کے بہت سے نتائج پر بھی کوئی اشکال نہیں ہے۔ وہ صرف اس وقت بیدار و متحرک ہوتے ہیں جب یہ اسباب اور ان کے نتائج ان کی اپنی مقرر کردہ حدود کو کراس کرنے لگیں۔ جبکہ وہ حدود بھی جامد نہیں، بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ بدلتی رہتی ہیں۔ یہ صرف ایک مثال ہے، جس پر اور بھی بہت سے امور کو قیاس کیا جا سکتا ہے۔
آسمانی تعلیمات میں خیر و شر کی مختلف صورتوں کا حتمی تعین اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے اور ان میں رد و بدل کا کسی کو اختیار نہیں ہے، اس لیے آسمانی تعلیمات میں خیر و شر کی عملی شکلیں ہمیشہ متعین رہی ہیں اور ان کی بنیادی فہرست میں کبھی کوئی رد و بدل نہیں ہوا۔ جبکہ انسانی عقل و شعور کی بنیاد پر تشکیل پانے والے فلسفہ و نظام نے خیر و شر کے تعین کا اختیار اپنے پاس رکھا ہے، جس کی وجہ سے خیر و شر کا معیار اور پیمانے ہمیشہ تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ ایک چیز ایک دور میں خیر سمجھی جاتی تھی، مگر دوسرے زمانے میں وہ شر قرار دے دی گئی اور ایک عمل کو ایک زمانے میں شر قرار دیا جاتا تھا، مگر دوسرے دور میں اسے خیر کا درجہ دے دیا گیا۔
اس فرق و امتیاز کے ساتھ انسانی سوسائٹی کی بہتری اور اس میں امن و سلامتی کا ماحول قائم کرنے کے لیے دونوں زاویوں سے محنت اور تگ و دو کا عمل مسلسل جاری ہے۔ آسمانی تعلیمات کا حتمی ایجنڈا اور ارتقائی صورت اسلامی شریعت کی صورت میں اس وقت دنیا کے سامنے موجود ہے، جو اس حوالے سے بھی حتمی ہے کہ قرآن کریم نے خود اپنا تعارف ان الفاظ میں کرایا ہے کہ وہ سابقہ آسمانی کتابوں کی تصدیق کرنے والا، انبیائے کرام علیہم السلام کی تعلیمات کی تکمیل کرنے والا، اب تک نازل ہونے والی تمام تر وحی کا محافظ اور آسمانی تعلیمات کا حتمی و آخری ایڈیشن ہے۔ اس لحاظ سے بھی اسلامی شریعت کو عملی طور پر فائنل حیثیت حاصل ہے کہ آج کی دنیا میں اسلام ہی انسانی سوسائٹی میں آسمانی تعلیمات کی عملداری کا پرچم تھامے تنہا میدان میں کھڑا ہے، باقی تمام مذاہب اس ایجنڈے سے دستبردار ہو کر اپنی اپنی عبادت گاہوں میں سمٹ چکے ہیں۔
جبکہ دوسری طرف محض انسانی عقل و شعور کی بنیاد پر تشکیل پانے والے فلسفہ و نظام اور تہذیب و ثقافت کی آخری شکل ویسٹرن سولائزیشن ہے، جسے انسانی عقل و شعور کے ارتقا کی آخری منزل اور تہذیب و ثقافت کے حوالے سے ’’اینڈ آف دی ہسٹری‘‘ قرار دیا جا رہا ہے۔ اس طرح آج کے عالمی منظر میں فکر و عقیدہ اور تمدن و ثقافت کی یہ دو انتہائیں آمنے سامنے کھڑی اور مستقبل کی گلوبل انسانی سوسائٹی کی قیادت سنبھالنے کے لیے باہمی پنجہ آزمائی میں مصروف ہیں۔
انسانی سوسائٹی میں تنازع للبقاء اور بقائے اصلح کا فطری اصول ہمیشہ کارفرما رہا ہے کہ انسانی ذہنوں کا اختلاف ایک فطری امر ہے، اس اختلاف کا اظہار ایک ناگزیر حقیقت ہے، اختلافی امور میں تنازع ایک ضروری بات ہے، بقا کے لیے باہمی کشمکش ایک لازمی عمل اور اس کے نتیجے میں انسانی سوسائٹی کے لیے زیادہ بہتر اور نفع بخش چیز کا باقی رہ جانا اس کشمکش کا فطری ثمرہ ہے۔ ہمیشہ کی طرح آج کی اس فکری اور تہذیبی کشمکش کا فیصلہ بھی اسی اصول پر ہو گا کہ دونوں میں سے جو انسانی سوسائٹی کے لیے زیادہ نفع بخش ہو گا اور اس کی فطری ضرورتوں کو بہتر انداز میں پورا کرنے والا ہو گا، وہی باقی رہے گا اور دوسرے کو بالآخر اس کے آگے سرنڈر ہونا پڑے گا۔ مگر یہ اپنے وقت پر ہو گا، لیکن جب تک یہ نہیں ہو گا کشمکش جاری رہے گی، باہمی محاذ آرائی کا میدان گرم رہے گا اور فکر و فلسفے کی دنیا میں کھینچا تانی کی یہ فضا موجود رہے گی۔
البتہ یہ بات ضرور غور طلب ہے کہ فکر و عقیدے اور تہذیب و ثقافت کی اس کشمکش کے ہتھیار کون سے ہیں؟ ہمارے نزدیک یہ جنگ ڈیزی کٹر اور کلاشنکوف کی نہیں، بلکہ علم اور عقل کی جنگ ہے، جو فہم و شعور کے ہتھیاروں سے ہی لڑی جا سکتی ہے۔ اس جنگ میں جو بھی ڈیزی کٹریا کلاشنکوف کا ہتھیار استعمال کر رہا ہے، وہ کسی بھی کیمپ میں ہو ہمارے نزدیک وہ ’’فاؤل‘‘ کھیل رہا ہے اور یہ علم و عقل کے حوالے سے اپنے ہتھیاروں پر اس کے عدمِ اعتماد کا اظہار ہے۔
دوسری بات جو اس معاملے میں اس سے بھی زیادہ غور طلب ہے، وہ یہ ہے کہ کیا کشمکش کی اس فضا میں انسانی سوسائٹی کے معروضی حالات و مسائل اور مشکلات کے حل کے لیے مشترکہ کوششوں کی کوئی ضرورت و افادیت ہے یا نہیں؟ ہمارے نزدیک یہ انتہائی ضروری ہے کہ اس کے لیے دنیا بھر میں اسلامی شریعت کی نمائندگی کرنے والوں اور ویسٹرن سولائزیشن یا آج کے انسانی حقوق کے عالمی قوانین کی ترجمانی کرنے والوں کے درمیان نہ صرف مکالمہ و مباحثہ ضروری ہے، بلکہ انسانی سوسائٹی کے آج کے معروضی مسائل و مشکلات کو سامنے رکھتے ہوئے مشترک اقدار کی نشاندہی اور ان کی بنیاد پر انسانی مسائل کے حل کے لیے مشترکہ کوششیں بھی وقت کی ایک ناگزیر ضرورت ہیں۔
جہاں تک اسلامی تعلیمات کا تعلق ہے، اس سلسلے میں دو باتوں کا حوالہ دینا اس موقع پر مناسب معلوم ہوتا ہے:
- ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے احادیث و سنن میں انسانوں کے باہمی حقوق کا جو فریم ورک دیا ہے، وہ اس قدر متنوع اور وسیع ہے کہ باہمی حقوق کے حوالے سے اس سے زیادہ جامع فریم ورک کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اس میں پیدا کرنے والے خالق و مالک کے حقوق، میاں بیوی کے باہمی حقوق، ماں باپ کے حقوق، اولاد کے حقوق، رشتہ داروں کے حقوق، پڑوسیوں کے حقوق، سوسائٹی کے حقوق، حکمرانوں کے حقوق، رعیت کے حقوق، ناداروں اور بے سہارا لوگوں کے حقوق، معذوروں کے حقوق اور اس نوعیت کے دیگر حقوق کی ایک طویل فہرست ہے اور اسلام نے ان حقوق کو صرف اخلاقیات کے درجے میں نہیں رکھا، بلکہ ان میں سے بہت سے حقوق کو قانونی تحفظ حاصل ہے اور بہت سے حقوق کی عدم ادائیگی پر اللہ تعالیٰ کی عدالت میں باز پرس کی وعید سنائی گئی ہے۔
باہمی رشتوں اور روابط و تعلقات کے تحفظ کو اسلام نے سوسائٹی کی بنیاد قرار دیا ہے اور قرآن کریم نے سورہ محمد کی آیت ۲۲ میں اس طرف اشارہ کیا ہے کہ رشتوں اور رابطوں کا تحفظ نہیں ہو گا تو سوسائٹی میں فساد اور انارکی پھیلے گی، اسلام اس فرد پسندی (انگلش میں ’’انڈویجول ازم‘‘) کا قائل نہیں ہے جو بھائی کو بھائی سے بیگانہ بنا دے اور پڑوسی کو پڑوسی سے لاتعلق کر دے۔
- دوسری بات یہ کہ ہمارے ہاں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا وحی نازل ہونے کے بعد سب سے پہلا تعارف ہی یہ ہے کہ وہ ایک بے لوث ’’سوشل ورکر‘‘ تھے۔ بخاری شریف کی روایت کے مطابق جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر جب غار حرا میں پہلی وحی نازل ہوئی اور اس اچانک واقعے پر انہوں نے گھر آ کر اپنی بیوی حضرت ام المومنین خدیجہؓ کے سامنے گھبراہٹ کا اظہار کیا تو انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہہ کر تسلی دی کہ:
’’بخدا! اللہ تعالیٰ آپ کو ہر گز کسی پریشانی میں نہیں ڈالے گا، اس لیے کہ آپ رشتوں کو جوڑ کر رکھتے ہیں، بے سہارا لوگوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں، محتاجوں کو کما کر کھلاتے ہیں، مہمانوں کی میزبانی کرتے ہیں اور ناگہانی مصیبتوں پر لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔‘‘
یہ نزول وحی کے بعد احادیث کے ریکارڈ میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے پہلا تعارف ہے، جس سے اسلام کے مزاج اور جناب نبی اکرمؐ کی فطرت و سنت کا پتہ چلتا ہے۔
اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تیرہ سالہ مکی دور میں مخالفوں، بلکہ دشمنوں کے ماحول میں سماجی خدمت کے اس تسلسل کو جس طرح جاری رکھا، اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مسلمانوں کی سماجی خدمات اور خدمت انسانیت کا دائرہ صرف مسلم سوسائٹی تک محدود نہیں، بلکہ اس کی بنیاد انسانیت پر ہے اور ایک ’’سوشل ور کر‘‘ کے لیے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ یہ ہے کہ وہ مذہب اور عقیدے کی تفریق سے بالاتر ہو کر صرف انسانیت کی بنیاد پر سوسائٹی کے نادار، معذور اور مستحق افراد کی خدمت کرے اور خدمت انسانیت کو اپنا ہدف قرار دے۔
سوسائٹی کے نادار افراد اور معذور لوگ جنگ کے نتیجے میں بے حال ہوئے ہوں، قدرتی آفات کا شکار ہو کر بے بسی اور لاچاری کی حد تک پہنچے ہوں، کسی فرد یا گروہ کی تعدی اور ظلم کے نتیجے میں ان پر یہ مصیبت آئی ہو یا خود اپنی غلطی کی وجہ سے کسی مصیبت یا تاوان و جرمانے میں پھنس گئے ہوں، اسلام ان سب صورتوں میں ان کے ساتھ مدد اور تعاون کو اجر و ثواب کا ذریعہ قرار دیتا اور اللہ تعالیٰ کی رضا کی علامت بتاتا ہے۔
ایک شخص اپنی بے تدبیری یا مجبوری کی وجہ سے قرض میں پھنس گیا ہے تو جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قرض سے چھٹکارا دلانے کو ثواب کا عمل فرمایا ہے اور ایک شخص نے غلطی سے قتل خطا کی صورت میں کسی کا خون کر دیا ہے اور خون بہا کا تاوان اس پر پڑ گیا ہے تو اسلام نے اسے اس ناگہانی مصیبت سے نجات دلانے کی بھی تلقین کی ہے۔ اس لیے جب خود اپنی غلطی سے مصیبت کا شکار ہونے والے کی مدد اللہ تعالیٰ کی رضا کی علامت ہے تو کسی دوسرے کی تعدی اور ظلم کا نشانہ بننے والوں کی مدد پر اللہ تعالیٰ کی رضا کا کیا عالم ہو گا؟
بخاری شریف کی ایک روایت کے مطابق جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جو شخص مال و دولت چھوڑ کا مرا، وہ اس کے وارثوں کو ملے گا اور جو شخص بے سہارا بچے اور ادا نہ ہو سکنے والا قرضہ اپنے ذمے چھوڑ کر مرا، اس کی ذمہ داری مجھ پر ہے۔‘‘
’’مجھ پر ذمہ داری‘‘ سے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد یہ ہے کہ ایسے بوجھ اور بے سہارا افراد کی کفالت ریاست کے ذمے ہے، جو بیت المال کے فرائض میں سے ہے اور یہ ایک اسلامی رفاہی ریاست کی ہلکی سی جھلک ہے۔
اس پس منظر میں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد اور ریڈ کراس پاکستان کی انٹرنیشنل کمیٹی کے باہمی تعاون سے منعقد ہونے والی اس کانفرنس پر انتہائی مسرت کا اظہار کرتے ہوئے اس کا خیر مقدم کرتا ہوں اور اس ایجنڈے کے ساتھ ہم آہنگی اور تعاون کا اظہار اپنی ذمہ داری سمجھتا ہوں کہ:
- اسلامی شریعت کی علمی و فکری نمائندگی کرنے والوں اور آج کے بین الاقوامی انسانی حقوق کے قوانین کے علمبرداروں کے درمیان مکالمے کا آغاز وقت کی انتہائی ضرورت ہے،
- باہمی اختلاف کے نکات پر ایک دوسرے کا نقطہ نظر سمجھنے کے ساتھ ساتھ مشترکہ نکات کی نشاندہی اور ان پر باہمی تعاون و مفاہمت ضروری ہے، اور
- انسانی سوسائٹی کے معروضی مسائل و مشکلات، بالخصوص جنگ و قدرتی آفات سے متاثرہ معذور و نادار افراد اور سوسائٹی کے بے سہارا لوگوں کی مذہب سمیت ہر تفریق سے بالاتر ہو کر مدد اور خدمت کرنا ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔