مشترکہ ملی و قومی جدوجہد کی ضرورت اور جناب آیت اللہ خامنہ ای کا فتوٰی

   
۹ دسمبر ۲۰۱۰ء

برف دھیرے دھیرے پگھل رہی ہے اور دینی حلقوں میں باہمی رابطہ و مفاہمت کے ساتھ مشترکہ ملی و دینی مقاصد کے لیے متفقہ موقف اور جدوجہد کی ضرورت کا احساس بڑھتا جا رہا ہے، فالحمد للہ علٰی ذٰلک۔ میں گزشتہ دنوں کراچی میں تھا اور متعدد احباب سے اس سلسلہ میں ملاقاتیں ہوئیں۔ جمعیۃ علماء پاکستان کے سربراہ صاحبزادہ ابوالخیر محمد زبیر کی طلب کردہ کل جماعتی کانفرنس، عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے دفتر میں ہونے والا اجتماع اور جماعت اسلامی کے صوبائی امیر مولانا اسد اللہ بھٹو کے طلب کردہ سیمینار میں مختلف مکاتب فکر کے علماء کرام اور دینی راہنماؤں کی شرکت اگرچہ تحفظ ناموس رسالتؐ کے قانون کے حوالے سے تھے مگر مجموعی دینی تقاضوں کے حوالے سے بھی یہ ایک اچھی پیشرفت دکھائی دیتی ہے۔ میں ان میں سے کسی بھی اجتماع میں شریک نہیں ہو سکا مگر شرکاء سے ملاقاتیں ہوئیں اور ان کے عزائم اور جذبات دیکھ کر خوشی ہوئی جس سے یہ توقع بڑھنے لگی ہے کہ دینی قوتیں ملی مقاصد کے لیے مشترکہ جدوجہد کا ماحول قائم کرنے میں کامیاب ہوں گی۔

دریں اثنا جمعیۃ علماء اسلام (س) کے مرکزی سیکرٹری جنرل مولانا عبد الرؤف فاروقی نے ۱۳ دسمبر کو لاہور میں مختلف مکاتب فکر کی دینی جماعتوں کے سیکرٹری جنرل صاحبان کا مشترکہ اجلاس طلب کر رکھا ہے۔ جبکہ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت ۱۵ دسمبر کو اسلام آباد میں قومی سطح پر آل پارٹیز کانفرنس کا اہتمام کر رہی ہے جس کے لیے مولانا اللہ وسایا صاحب پوری طرح سرگرم ہیں۔

اسی سلسلہ میں ۶ دسمبر کو لاہور میں ملی مجلس شرعی کا بھی ایک اہم اجلاس ہوا جس میں تمام مکاتب فکر کے سرکردہ علماء کرام نے شرکت کی۔ اجلاس کی صدارت مولانا مفتی محمد خان قادری نے کی جبکہ شرکاء میں راقم الحروف کے علاوہ مولانا عبد المالک خان، مولانا عبد الرؤف فاروقی، مولانا حافظ عبد الرحمان مدنی، مولانا احمد علی قصوری، حافظ عاکف سعید، مولانا قاری جمیل الرحمان اختر، حافظ صلاح الدین یوسف، حافظ ذکاء الرحمان اختر، مولانا خلیل الرحمان قادری، جناب فرید احمد پراچہ، مولانا حافظ عبد الغفار روپڑی، مولانا قاری شیخ محمد یعقوب، مولانا ابو رجال، شیعہ راہنما علامہ حسین اکبر بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ اجلاس میں مندرجہ ذیل مشترکہ اعلامیہ ترتیب دیا گیا جس کا اعلان ان سب راہنماؤں نے پریس کلب میں منعقدہ پریس کانفرنس سے مشترکہ طور پر کیا:

’’ہم متفقہ طور پر ان عناصر کی بھرپور مذمت کرتے ہیں جو تحفظِ ناموسِ رسالت کے قانون 295C میں ترمیم، تنسیخ اور اس کے طریق کار (Procedural Law) کو تبدیل کر کے غیر مؤثر کرانے کے درپے ہیں۔ ہم حکومت پر واضح کرتے ہیں کہ اگر اس نے ایسی جسارت کی تو اس کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جائے گا اور امت مسلمہ اس کی قطعاً اجازت نہیں دے گی۔ ہم حکومت سے پرزور مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس قانون کو قطعاً نہ چھیڑے اور صدر پاکستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ آسیہ بی بی کی سزا معاف نہ کریں بلکہ یہ معاملہ عدالتوں پر چھوڑ دیں۔ گورنر پنجاب کا آسیہ مسیح سے جیل میں ملاقات کرنا، حمایت کرنا اور رحم کی اپیل پر دستخط کرنا، توہین رسالت اور توہین عدالت ہے جس کی یہ اجلاس مذمت کرتا ہے۔ ہم یہ بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ آئین پاکستان کے تحت صدر پاکستان کو حاصل سزا معاف کرنے کا اختیار ختم کیا جائے یا کم از کم حدود اور 295C کے تحت ملنے والی سزاؤں کو اس سے مستثنٰی قرار دیا جائے۔

ہم ملک کے طول و عرض میں ہونے والی دہشت گردی کی تمام وارداتوں کی پرزور مذمت کرتے ہیں۔ بالخصوص مساجد، امام بارگاہوں، دیگر مذاہب کے مقدس مقامات اور اولیاء اللہ کے مزارات کو دہشت گردی کا نشانہ بنانے کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے وہ بے حد قابل مذمت ہے۔ ان مقدس اور روحانی مقامات پر دہشت گردی کرنے والوں کا دین و مذہب سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ ہم اس بات پر متفق ہیں کہ اس دہشت گردی کا اصل سبب امریکہ کی غلامی اور سیکولر قوتوں سے مرعوبیت ہے جس سے نکلنا حکومت پاکستان کی اولین ذمہ داری ہے۔ ہم اس بات پر بھی متفق ہیں کہ ہمیں اس صورتحال کا متحد ہو کر مقابلہ کرنا چاہیے ورنہ باہمی انتشار و افتراق سے ہماری ہوا اکھڑ جائے گی اور تمام مکاتب فکر کی جگ ہنسائی ہوگی جبکہ اسلام دشمن طاقتوں کو اس سے تقویت ملے گی۔

ہمارا ماضی سب کے سامنے ہے کہ عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ، ناموس رسالت کے تحفظ اور نفاذِ اسلام کے لیے تمام مکاتب فکر کے اکابر علماء کرام نے ہر مرحلہ پر متحد ہو کر ملت کی قیادت کی ہے۔ آج بھی اس کی ضرورت ملک کے اسلامی نظریاتی تشخص کے تحفظ اور قومی خودمختاری کی بحالی کے لیے شدت کے ساتھ محسوس کی جا رہی ہے اور اسی ضرورت و اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے ہم مشترکات پر متحد رہنے کے عزم کا اظہار کرتے ہیں۔

ہم مشترکہ طور پر عوام سے بھی اپیل کرتے ہیں کہ وہ مسلکی اختلافات وار فرقہ واریت کو ہوا نہ دیں بلکہ آپس میں محبت و مؤدت اور یگانگت کو فروغ دیں، بالخصوص محرم الحرام کے موقع پر امن و امان برقرار رکھا جائے اور ایک دوسرے کے مذہبی جذبات کا احترام کیا جائے۔‘‘

اس کے ساتھ ہی ایک اور اہم خبر کو بھی اپنی ان گزارشات کا حصہ بنانا چاہتا ہوں جو محرم الحرام کے آغاز کے حوالے سے اور زیادہ اہمیت اختیار کر گئی ہے کہ ایران کے رہبر انقلاب اور اثنا عشری اہل تشیع کے عالمی راہنما جناب آیت اللہ خامنہ ای نے ام المؤمنین حضرت عائشہ اور دیگر امہات المؤمنین رضوان اللہ علیہن اجمعین کی توہین سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے اہل سنت کے تمام مقدسات بالخصوص امہات المومنینؓ کی توہین کو حرام قرار دینے کا اعلان کیا ہے جس کا مختلف ممالک کے سنی راہنماؤں کی طرف سے خیرمقدم کیا جا رہا ہے۔اسلام آباد سے شائع ہونے والے اہل تشیع کے معروف جریدہ ماہنامہ پیام نے نومبر ۲۰۱۰ء کے شمارے میں اس کی تفصیلات شائع کی ہیں جن کے مطابق سعودی عرب کے شہر ’’الاحساء‘‘ کے سرکردہ حضرات نے ایک استفسار کے ذریعے جناب خامنہ ای کی توجہ اس طرف مبذول کرائی ہے کہ بعض سیٹلائٹ چینلز اور انٹرنیٹ ویب سائٹس پر مختلف افراد ام المومنین سیدہ عائشہؓ کی ذات گرامی کے بارے میں مسلسل بیہودہ گفتگو کر رہے ہیں جس سے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہو رہے ہیں اور یہ بات باہمی کشیدگی اور منافرت میں اضافے کا باعث بن رہی ہے۔ اس کے جواب میں جناب آیت اللہ خامنہ ای نے یہ فتوٰی صادر کیا ہے:

’’برادرانِ اہل سنت کے مقدسات کی توہین کرنا حرام ہے چہ جائیکہ بالخصوص زوجۂ رسولؐ پر تہمت لگائی جائے جس سے ان کے شرف و عزت پر حرف آتا ہو۔ بلکہ تمام انبیاءؑ کی خصوصاً سید الانبیاؐ کی ازواج کی توہین ممنوع ہے۔‘‘

ماہنامہ پیام کی رپورٹ کے مطابق دیگر اکابر شیعہ علماء مثلاً ایران کے آیت اللہ غازی، لبنان کی علوی تحریک کے سربراہ مصطفٰی علی حسین، عراق کے آیت اللہ سیستانی، آیت اللہ العظمی، ناصر مکارم شیرازی، اور حجۃ الاسلام سید احمد خاتمی نے بھی امہات المؤمنین بالخصوص ام المؤمنین حضرت عائشہؓ کے بارے میں توہین میز گفتگو کو ناجائز قرار دیا ہے اور ایسا کرنے والوں سے براءت کا اظہار کیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ فتوٰی ایسے فتنہ پرور واعظین کی حوصلہ شکنی کا باعث ہوگا جو حضرات صحابہ کرامؓ اور امہات المومنینؓ کے بارے میں توہین میز گفتگو کر کے شر انگیزی کو فروغ دیتے ہیں۔

   
2016ء سے
Flag Counter