ڈاکٹر مہاتیر محمد کے افکار پر ایک نظر

   
۸ مارچ ۲۰۰۳ء

ملائیشیا کے وزیراعظم ڈاکٹر مہاتیر محمد نے گزشتہ دنوں کوالالمپور میں غیر وابستہ تحریک کی سربراہی کانفرنس منعقد کر کے اور اس کے بعد اسلامی سربراہ کانفرنس کا ہنگامی اجلاس طلب کر کے جہاں اپنے لیے خطرات میں اضافہ کیا ہے وہاں دنیا بھر کے باضمیر افراد اور خاص طور پر مظلوم مسلمانوں کی یہ کہہ کر توجہ بھی حاصل کر لی ہے کہ مجھے بھی سپرپاور سے خوف محسوس ہوتا ہے اور مجھے بھی یہ خطرہ ہے کہ میری گردن دبوچ لی جائے گی لیکن اس کے باوجود ضمیر بھی آخر کوئی چیز ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ ضمیر کی آواز پر لبیک کہنا اور ظلم کے خلاف آواز بلند کرنا ضروری ہے۔

ڈاکٹر مہاتیر محمد نے غیر وابستہ تحریک کی سربراہ کانفرنس اور اسلامی سربراہ کانفرنس کے ہنگامی اجلاس کے شرکاء کے سامنے جن خیالات کا اظہار کیا ہے وہ نئے نہیں ہیں اور وہ اس سے قبل متعدد بار ان خیالات و جذبات کا اظہار کر چکے ہیں لیکن اب انہوں نے اظہار خیال سے آگے بڑھ کر اس کے لیے عالمی سطح پر لابنگ اور مہم کی طرف قدم بڑھایا ہے جو بلاشبہ آج کے معروضی حالات میں ایک جرأتمندانہ اقدام ہے جس پر ان کے لیے دل سے بے ساختہ دعا نکلتی ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں استقامت سے نوازیں اور اپنے مقاصد میں کامیابی سے ہمکنار کریں، آمین یا رب العالمین۔

اس وقت ہمارے سامنے ڈاکٹر مہاتیر محمد کی کتاب ’’ایشیا کا مقدمہ‘‘ کا اردو ایڈیشن ہے جس میں انہوں نے گزشتہ برسوں میں ملائیشیا اور مشرقی ایشیا کے دیگر ممالک کی صنعتی ترقی اور معاشی خوشحالی کی جدوجہد اور پھر مغربی سرمایہ کاروں کے ہاتھوں اس کے حشر کا تفصیل سے تذکرہ کیا ہے اور ایشیا کے حوالہ سے مغرب کے عزائم، ایجنڈا اور پروگرام کا تجزیہ پیش کیا ہے۔ اگرچہ ناشر نے اس کتاب کے کچھ اقتباسات کے بارے میں بعض تحفظات کا ذکر کیا ہے مگر ہمارا خیال ہے کہ آج کے حالات میں جبکہ دنیا کے بیشتر خطوں کے عوام کی طرح پاکستان کے عوام بھی ڈاکٹر مہاتیر محمد کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں اور ان سے توقعات وابستہ کیے ہوئے ہیں۔ عوام کا یہ حق ہے کہ انہیں عالم اسلام کے اس منفرد حکمران کے افکار و خیالات کے بارے میں آگاہی حاصل ہو تاکہ وہ اپنی امیدوں اور توقعات کو صحیح دائرے میں لا سکیں اور اسی خیال سے اس کتاب کے چند اہم اور منتخب اقتباسات قارئین کی خدمت میں پیش کیے جا رہے ہیں۔

’’میں ۱۹۲۵ء میں ایلورستار میں پیدا ہوا جو کہ ملایا (ملائیشیا کا پرانا نام) کے جنوب مغرب میں واقع ہے۔ میرے والدین کا تعلق لوئر مڈل کلاس سے تھا۔ میرے والد اسکول میں استاد تھے۔ انہوں نے اپنے خاندان کی پرورش روایتی انداز میں کی۔ میں اس لحاظ سے بہت خوش قسمت رہا کہ میں نے اچھی تعلیم حاصل کی۔ پہلے ملایا میں اور بعد میں علاقے کے واحد انگلش میڈیم اسکول میں پڑھا۔ میرے والد جنہوں نے صرف قرآنی تعلیم حاصل کر رکھی تھی مجھے قرآن پڑھایا۔ میرا ایک دینی معلم مقرر کیا گیا جو کہ گھر آکر مجھے قرآنی تعلیم کے ساتھ دینی علوم اور ایمان کے مسائل کی تعلیم دیتا تھا۔ اگرچہ ہمارا گھرانہ کوئی شدید مذہبی رجحانات نہیں رکھتا تھا مگر پھر بھی ہم لوگ اسلامی عقائد سے جڑے ہوئے تھے۔ اس چیز نے مجھے زندگی میں ایک اچھی ابتدا دی جس کی بنیاد ایک مضبوط خاندان، اچھی تعلیم اور پاکیزہ دینی ماحول تھا۔

دوسری جنگ عظیم سے پہلے ملایا پر حکومت برطانیہ کا قبضہ تھا۔ ہمیں بہت سے ملایا صوبوں میں بانٹ دیا گیا تھا اور ہر صوبے کا الگ سے برطانیہ سے معاہدہ تھا۔ یہ معاہدے برطانوی لوگوں کی حفاظت کے لیے تھے نہ کہ یہ کسی قسم کی نوآبادی تھی۔ ہم اس کی رو سے برطانوی پروٹیکٹریٹ کہلاتے تھے جس کے مطابق ہمیں اپنے داخلی معاملات خود چلانے کی کسی حد تک آزادی تھی۔ جبکہ ہمارے خارجی اور فوجی معاملات حکومت برطانیہ کے ہاتھ میں تھے۔ برطانوی رویہ زیادہ ظالمانہ نہ تھا، اگر وہ چاہتے تو شروع سے ہی ہمیں نوآبادی قرار دے سکتے تھے، انہوں نے پروٹیکٹریٹ کے کردار کا چناؤ کیا۔ بے شک وہ داخلی اور خارجی دونوں ہی امور پر قابض تھے لیکن پھر بھی وہ باقی دنیا کو یہ تاثر دینے میں کامیاب رہے تھے کہ ملایا کے لوگ آزاد اور با اختیار ہیں۔ ملایا کے سلطانوں کو برطانوی حکومت ملایا کے حکمران قرار دیتی تھی اگرچہ انہیں کسی بھی سطح پر حکومت کرنے کا اختیار حاصل نہ تھا۔ حکومت برطانیہ نے ملایا میں اپنا کوئی گورنر بھی مقرر نہیں کیا تھا، حکومتی امور چلانے کے لیے ایک افسر کا عہدہ تھا جسے ’’برٹش ایڈوائزر‘‘ کہا جاتا تھا۔ البتہ یہ اور بات تھی کہ اس ایڈوائزر کی بات ہی اصل قانون ہوتا تھا۔ برطانوی اس نیم نوآبادیاتی نظام کو بڑی چالاکی سے چلا رہے تھے، ہمیشہ ان کے قول و فعل میں تضاد تھا۔

۱۹۴۱ء میں جاپانی قبضے نے ہماری دنیا کو مکمل طور پر تبدیل کر کے رکھ دیا۔ نہ صرف انہوں نے برطانوی فوج کو نکال باہر کیا بلکہ باقی دنیا کے بارے میں ہمارے خیالات میں واضح فرق پڑا۔ جاپان کا یہ قبضہ تین سال تک رہا۔ جنگ شروع ہونے سے قبل جب ملائیشیا پر برطانوی قابض تھے تو ہمارا خیال تھا کہ ہم اپنے ملکی امور اپنے طور پر چلانے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ عام طور پر یہ کہا جاتا تھا کہ یورپی لوگ ہی یہ کٹھن کام کر سکتے ہیں اس لیے ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم ان کی اطاعت قبول کریں لیکن جاپانی حملے سے یہ بات بہت اچھی طرح واضح ہوگئی کہ یورپی ہم سے کسی طرح بھی برتر نہیں ہیں۔

جنگ کے ختم ہونے کے بعد لوگ آزادی کے مشتاق نہ تھے۔ ملائیشیا کے عوام کی خواہش تھی کہ حکومت برطانیہ دوبارہ لوٹ آئے اور پھر جب وہ لوٹ آئے تو انہوں نے ملائیشیا کو مکمل طور پر اپنی نوآبادی قرار دے دیا جس سے لوگوں کے اس خیال کو شدید دھچکہ لگا۔ وہ اپنے اس نئے روپ کو ’’ملائین یونین پلان‘‘ کہتے تھے جو درپردہ ایک مکمل نوآبادیاتی نظام تھا۔ یہی بات بعد میں حکومت برطانیہ کی بہت بڑی غلطی ثابت ہوئی۔ اگر وہ لوگ اپنے پرانے پروٹیکٹریٹ کے کردار کا بھی چناؤ کرتے تو یقیناً آج ملائیشیا کی تاریخ مختلف ہوتی۔ جاپانیوں کے کئی سالہ فوجی دور حکومت کے بعد اب ہم لوگ نوآبادیاتی دور کے لیے تیار نہ تھے۔

میں نے اور میرے چند ہم جماعت ساتھیوں نے بڑی رازداری سے ’’ملائین یونین پلان‘‘ کے خلاف تحریک کا آغاز کیا۔ اس زمانے میں لوگوں کو سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی اجازت نہ تھی اس لیے ہم لوگ یہ کام رات کو کیا کرتے تھے۔ جنگ کے فورًا بعد کے زمانے میں بلیک آؤٹ روز کا معمول بنا ہوا تھا۔ ہم اندھیرے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے شہر میں مختلف مقامات پر پوسٹر چسپاں کرتے جن پر سیاسی نعرے درج ہوتے۔ ہمارے مقاصد بڑے محدود تھے۔ ہمارا مطالبہ تھا کہ ملائین یونین پلان کو ترک کر کے پرانے طریقے پر حکومتی امور چلائے جائیں۔ میں اور میرے دوست سکولوں اور دیگر جگہوں پر لوگوں کو منظم کر رہے تھے۔ اس مقصد کے لیے ہم لوگ سائیکلوں پر دور دراز علاقوں میں جاتے اور لوگوں کو برطانوی سامراج کے خلاف تحریک دیتے۔ ہماری یہ کوششیں بالآخر بارآور ثابت ہوئیں، ہم نے لوگوں کی روز مرہ شکایات کو برطانوی حکومت کے خلاف ایک باقاعدہ تحریک کی شکل دے دی۔ مثال کے طور پر اگر لوگوں کو چاول کی قیمت میں اضافے پر اعتراض ہوتا تو ہم ان کی حمایت حاصل کرنے کے لیے ان کی اس شکایت کو ایک بڑے مقصد کے ساتھ جوڑ کر پیش کرتے۔ اسی دباؤ کی وجہ سے برطانوی حکومت کو ملائین یونین پلان ترک کرنا پڑا۔ ہمارا خیال تھا کہ اس کے ساتھ ہی ہماری جدوجہد ختم ہو جائے گی لیکن سرکردہ لوگوں نے ملایا کی مکمل آزادی کی تحریک کا آغاز کر دیا۔

جنگ عظیم دوم کے بعد کا دور عالمی تعمیر نو کا زمانہ تھا۔ لوگ ایک طویل اور خوفناک جنگ کی تباہ کاریوں میں شدید خوف زدہ تھے اور اس کے ساتھ ساتھ بہت سے ایشیائی ممالک میں اپنے یورپی آقاؤں سے آزادی حاصل کرنے کی لہر میں شدت آچکی تھی۔ میں اور میرے ساتھی آزادی کی ان تحریکوں کا بغور جائزہ لیتے تھے ۔ ہم نے دیکھا کہ ہندوستان اور پاکستان میں کیا ہوا۔ اس کے علاوہ انڈونیشیا میں ڈچ (ہالینڈ) حکومت کے خلاف چلنے والی آزادی کی تحریک کے لیے ہم لوگوں نے چندے کی مہم بھی چلائی۔ ان تحریکوں کو دیکھ کر ہمارے حوصلے بلند ہوئے اور ہمارے ہاں بھی لوگوں نے آزادی کی باتیں کرنا شروع کر دیں۔

ایشیائی عوام اس احساس کمتری میں بری طرح مبتلا تھے کہ وہ اپنے ملکوں کے حکومتی امور اپنے طور پر چلانے کی صلاحیت نہیں رکھتے، معاشی طور پر بہت زیادہ مضبوط ممالک سے کھلی منڈی میں مقابلہ تو بہت دور کی بات تھی۔ اس کا بیج یورپی ممالک نے ہمارے اندر اپنے سامراجی دور میں بویا تھا۔ اس خیال کو فروغ دیا گیا کہ ایشیائی عوام نسلی طور پر گھٹیا ہیں اور کچھ خاص علوم اور مہارتیں ابھی تک ایسی ہیں جو وہ نہیں سیکھ سکتے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ غریب اور پسماندہ ایشیائی عوام کو عیسائیت کی ترغیب بھی دی جا رہی تھی۔ یورپی سامراج اپنے اس عمل کے بارے میں یہ دلیل دیتے تھے کہ ایشیا کے عوام کی معاشی اور معاشرتی فلاح کے ساتھ ان کی روحانی نشوونما کی بھی ضرورت ہے۔

یہ کوئی راز نہیں ہے کہ ترقی پذیر ممالک کو اقتصادی امداد کے نام پر جو کچھ مغربی ممالک دیتے ہیں اس سے کہیں زیادہ وہاں سے لے جاتے ہیں۔ یہی کام ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کرتے ہیں۔ اس کے بعد امداد دینے والے ملک کی خواہش ہوتی ہے کہ امداد وصول کرنے والا ملک اس کی اطاعت قبول کرے۔ امداد وصول کرنے والے ملک کو اتنا موقع نہیں دیا جاتا کہ وہ کسی قسم کی تنقید یا کوئی تجویز پیش کر سکے۔ ایسی صورتحال میں جب کسی ملک کی تمام تر معاشیات کا انحصار بیرونی امداد پر ہو یہاں تک کہ خوراک بھی ایسی ہی کسی امداد کی مد میں کی جاتی ہو تو یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ وہ بین الاقوامی سطح پر اپنے تشخص کو برقرار رکھ سکے جس میں اس کی خارجہ اور معاشی پالیسیاں اس کے عوام کی خواہش کے مطابق ہوں۔

میں کاروباری گلوبلائزیشن اور لبرلائزیشن کا قائل ہوں اور اس کے ساتھ ہی میں ایسے تمام قوانین کو کالعدم قرار دینے کے حق میں بھی ہوں جو کہ تجارت اور کرنسی کی نقل و حمل میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ لیکن یہ بھی ایک حتمی بات ہے کہ قومی معیشت کی لبرلائزیشن اس انداز میں کی جانی چاہیے کہ اسے بین الاقوامی بد امنی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اگر گلوبلائزیشن اور کھلی منڈیاں ہی حقیقی ترقی کا راستہ ہیں تو پہلے اس کے ساتھ ایسے قوانین اور طریقہ کار بھی وضع کرنے کی ضرورت ہے جو بلا تخصیص سب لوگوں کے حقوق کی ضمانت دیں۔ ان کی غیر موجودگی میں طاقتور اور بدعنوان عناصر کی حکمرانی ہوگی اور دولت کی شدید حرص رکھنے والے ہی بین الاقوامی معاشیات کا ایجنڈا ترتیب دیں گے۔ تو کیا یہ سب کچھ کر کے اس بات کی پیروی کی جا رہی ہے اور کیا مغربی اقوام ایسے نظام کی وکالت کر رہی ہیں؟

یہ کس طرح ممکن ہے کہ مغربی اقوام جمہوریت کی تبلیغ کریں اور ان کا مطالبہ ہو کہ ایشیائی اقوام اپنے معاملات شفاف رکھیں جبکہ اس کے برعکس ان کا گلوبل کیپیٹل ازم کا ایجنڈا پوشیدہ رہے اور اس کے بارے میں کوئی سوال نہ کیا جائے۔ اب وہ وقت آگیا ہے کہ ایسے تمام بتوں کو توڑ کر ایسے تمام موضوعات پر کھلی بحث کی جائے۔‘‘

   
2016ء سے
Flag Counter