(یہ مضمون مولانا سید محمد محسن شہیدؒ کی زندگی پر لکھی جانے والی ایک کتاب کے لیے تحریر کیا گیا۔)
پنیالہ ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کی خانقاہ یاسین زئی کے بارے میں میرا مبلغ علم اتنا ہی تھا کہ مفکر اسلام حضرت مولانا مفتی محمود قدس اللہ سرہ العزیز کی زبان سے بارہا اس روحانی مرکز کا تذکرہ سنا ۔ اور اس کی عظمت دل میں بیٹھ جانے کے لیے اتنی بات ہی میرے لیے کافی تھی کہ حضرت مفتی صاحبؒ کی نیاز مندی اور رفاقت میں میری جماعتی اور سیاسی زندگی کے کئی سال گزرے ہیں اور بحمد اللہ مجھے ان کی شفقت و اعتماد کا بھرپور حصہ میسر آیا ہے۔ میں نے انہیں بے پناہ سیاسی زندگی کے دور عروج میں بھی ذاکر و شاغل اور شب زندہ دار پایا ہے جس کی بڑی وجہ اس عظیم روحانی خاندان اور مرکز کے ساتھ ان کی وابستگی بھی ہو سکتی ہے۔
اسی طرح درہ پیزو کے جامعہ حلیمیہ کے بارے میں بھی صرف اتنا معلوم تھا کہ وہ صوبہ خیبر پختون خواہ کے بڑے دینی مدارس میں سے ہے۔ وہاں ایک بار حضرت مولانا مفتی محمودؒ کے ساتھ مجھے بھی حاضر ہونے کی سعادت حاصل ہو چکی ہے اور جامعہ حلیمیہ کے مختلف متعلقین سے وقتاً فوقتاً ملاقاتیں ہوتی رہی ہیں۔ اس لیے جب حضرت مولانا سید محمد محسن شاہ شہیدؒ ، مہتمم جامعہ حلیمیہ کے بارے میں مجھ سے کچھ لکھنے کی فرمائش کی گئی تو ایک عرصہ تک تردّد رہا کہ جانتا تو کچھ ہوں نہیں لکھوں گا کیا؟ مگر اللہ تعالیٰ بھلا کرے برادر مکرم مولانا ڈاکٹر عبد الحکیم اکبری کا کہ انہوں نے چند ماہ قبل ڈیرہ اسماعیل خان میں حاضری کے موقع پر حضرت مولانا محمد محسن شاہؒ کے بارے میں اپنی تصنیف مرحمت فرما دی جس کے مطالعہ سے مجھے معلوم ہوا کہ خانقاہ یاسین زئی کا تاریخی پس منظر کیا ہے اور جامعہ حلیمیہ کا اس سے تعلق کیا ہے؟ اور یہ بات پہلی بار میرے علم میں آئی کہ حضرت مولانا سید محمد محسن شاہؒ کا تعلق خانقاہ یاسین زئی کے عظیم روحانی مرکز اور خاندان سے ہے اور جامعہ حلیمیہ بھی در اصل خانقاہ یاسین زئی کے علوم و فیوض کا مظہر ہے۔
خانقاہ یاسین زئی میں حاضری کی حسرت رہی ہے جو اب بڑھ گئی ہے جبکہ حضرت مولانا سید محمد محسن شاہؒ کی زیارت و ملاقات کا وہی موقع ذہن میں محفوظ ہے جس کا تذکرہ حضرت مولانا مفتی محمودؒ کے ساتھ جامعہ حلیمیہ میں ایک بار حاضری کے حوالہ سے کر چکا ہوں۔ جماعتی پروگراموں میں اور ملاقاتیں بھی ہوئی ہوں گی مگر یاد صرف وہی ہے۔ البتہ جامعہ حلیمیہ کی تعلیمی خدمات اور خانقاہ یاسین زئی کے روحانی فیوض مختلف احباب کے ذریعہ اور متعدد فضلاء کی صورت میں معلوم ہوتے رہتے ہیں اور اس مرکز علوم و فیوض کے لیے مسلسل دعا گو رہتا ہوں۔
ہمارے ان اکابر نے اس دور میں جب آج جیسی سہولتیں اور وسائل تصور میں بھی نہیں آسکتی تھیں، دینی علوم اور روحانی فیوض کے فروغ کے لیے دینی مدارس اور خانقاہوں کی صورت میں جو صبر آزما محنت کی ہے وہ یقیناًان حضرات کی کرامت شمار ہوگی جو اسلام کی صداقت و عظمت کا اظہار ہے۔ خاص طور پر برطانوی استعمار کے دورِ استبداد میں جب وہ جنوبی ایشیا میں اسلام کی ہر علامت کو ختم کر دینے کے درپے تھا، ان بزرگوں نے اپنے وجود کو مٹا کر اسلام کی عظمت کا پرچم سر بلند رکھا۔ اور مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ کے بقول زمانے کی نگاہوں سے اپنی محنت اور جدوجہد کو اوجھل رکھنے کے لیے وہ چٹائیوں اور تپائیوں پر آگئے بلکہ زمین پر بچھ گئے اور اس وقت تک ’کیمو فلاج‘‘ رہے جب تک دنیا کی سازشوں کا سامنا کرنے کی پوزیشن میں نہیں آگئے۔
آج کا عالمی استعمار ان مدارس اور خانقاہوں کا سامنا کرنے میں خود کو بے بس محسوس کر رہا ہے اور اس پر اس کی جھنجھناہٹ اب جھلّاہٹ میں بدلتی جا رہی ہے کہ وہ نہ تو ان مدارس اور خانقاہوں کو ختم کرنے کا حوصلہ رکھتا ہے، نہ ہی ان پر کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش میں اسے کامیابی ہو رہی ہے، اور نہ ہی ان کا رخ تبدیل کرنے کے لیے اس کی کوئی سازش کامیاب ہو رہی ہے۔ یہ یقیناًحضرت مولانا سید محمد محسن شاہؒ اور ان جیسے دیگر بزرگوں کے خلوص و محنت پر اللہ تعالیٰ کی جانب سے صلہ و ثمرہ ہے جس سے نہ صرف اس خطہ کے لوگ بلکہ دنیا بھر کے مسلمان بالواسطہ یا بلا واسطہ فیض یاب ہو رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان اکابر کے درجات بلند سے بلند تر فرمائیں اور ہم سب کو ان کے نقش قدم پر چلتے رہنے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔