ناموس رسالتؐ کے تحفظ کا قانون: چند ضروری گزارشات

   
۲۳ نومبر ۲۰۲۴ء

ناموس رسالتؐ کا قانون ایک بار پھر بعض حلقوں میں زیربحث ہے اور گزشتہ دنوں اسلام آباد میں اس قانون کے تحت گرفتار بہت سے خاندانوں نے متاثرین کے عنوان سے جمع ہو کر یہ موقف اختیار کیا ہے کہ ان کے عزیزوں کو توہین رسالتؐ کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے اور وہ ان کے بقول بے گناہ ہیں اس لیے ان کے کیسوں پر نظرثانی کی جائے۔ اس کے ساتھ اس سلسلہ میں ان کی طرف سے ایک تفصیلی رپورٹ جاری کی گئی ہے جس میں اس موقف کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔ یہ رپورٹ بعض اداروں کی تحقیقاتی رپورٹوں کے ساتھ مجھے گزشتہ دنوں ایک متاثرہ خاندان کی طرف سے مہیا کی گئی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ مجھے بھی اس کے بارے میں کچھ کہنا چاہیے۔

ان تفصیلی رپورٹوں کا بالاستیعاب مطالعہ تو نظر کی کمزوری کے باعث اب میرے لیے مشکل ہے، البتہ اب تک کی مجموعی صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے کچھ گزارشات پیش کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔

(۱) اس قضیہ کا بنیادی پہلو تو یہ ہے کہ مذہب اور مذہبی شخصیات کی توہین کو کچھ عالمی ادارے جرم قرار دینے کی بجائے آزادئ رائے کے دائرے میں شامل کر کے توہینِ رسالتؐ پر سزا کے قوانین کی مخالفت کر رہے ہیں۔ بالخصوص اسلامی جمہوریہ پاکستان میں توہین رسالتؐ کے جرم پر موت کی سزا کا قانون ان حلقوں کے اعتراضات کی زد میں ہے اور وہ اس کے خاتمہ کا مسلسل مطالبہ کر رہے ہیں۔

یہ بات اصولی طور پر غلط اور ناقابلِ قبول ہے، اس لیے کہ عالمی قوانین بلکہ دنیا کے ہر ملک کے قوانین میں کسی بھی انسان کی توہین کو جرم سمجھا جاتا ہے، اور عزتِ نفس کے تحفظ کو بنیادی انسانی حق قرار دے کر عزتِ نفس کو مجروح کرنے والے اعمال کو جرم تسلیم کر کے ہر ملک کے ماحول کے مطابق اس کی کوئی نہ کوئی سزا مقرر کی گئی ہے۔ اس لیے اگر عام انسان کی توہین اور ہتکِ عزت جرم ہے تو وہ عظیم شخصیات جن کے ساتھ کروڑوں انسانوں کی عقیدت وابستہ ہے، ان کی اہانت بطریقِ اولیٰ جرم ہے۔ بلکہ یہ دوہرا جرم ہے کیونکہ اس سے کسی قابلِ تعظیم شخصیت کی توہین کے ساتھ ساتھ اس کے کروڑوں عقیدت مندوں کے جذبات بھی مجروح ہوتے ہیں جو بذات خود جرم ہے۔ اس لیے مذہب اور مذہبی شخصیات کی توہین کو آزادئ رائے قرار دینا سراسر نا انصافی اور ظلم ہے جسے کسی صورت میں قبول نہیں کیا جا سکتا۔

(۲) اس قضیہ کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ باہمی مذہبی، گروہی، طبقاتی اور فرقہ وارانہ کشمکش کے ماحول میں ایک دوسرے کے خلاف اس قانون کے غلط استعمال کی اکثر شکایات پیش کی جاتی ہیں، جیسا کہ اسلام آباد میں جمع ہونے والے متاثرین نے بھی یہی موقف اختیار کیا ہے۔ ایسے واقعات سے انکار نہیں ہے اور ہمارے علم میں بھی ایسے بہت سے مقدمات ہیں جن میں مذکورہ بالا تناظر میں قانون کو ایک دوسرے کے خلاف غلط طور پر استعمال کرنے کا ماحول پایا جاتا ہے۔

لیکن کسی قانون کا غلط استعمال اس قانون کو ختم کر دینے کا جواز نہیں بن جاتا، جیسا کہ ہمارے ہاں قتل پر قصاص اور موت کی سزا مقرر ہے، اور قتل اور اقدامِ قتل کے مقدمات میں بھی عمومی ماحول یہی ہے کہ مقدمہ درج کرتے وقت یہ نہیں دیکھا جاتا کہ یہ کاروائی کس نے کی ہے، بلکہ عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ کس کس کو اس مقدمہ میں پھنسایا جا سکتا ہے۔ یہ ہماری معاشرتی بیماری ہے جس کی اصلاح کے لیے دیگر اصلاحی اقدامات کی ضرورت ہے، اور اسے سرے سے قانون کو ختم کرنے یا کمزور کر دینے کا جواز نہیں بنایا جا سکتا۔

اس لیے جیسے قتل اور دیگر جرائم کی سزاؤں کے قوانین کے غلط استعمال کو سرے سے قانون کو ختم کرنے یا غیر مؤثر بنانے کی دلیل نہیں بنایا جا سکتا، اسی طرح مذہب اور مذہبی شخصیات کی توہین پر سزا کے قانون کے بعض صورتوں میں غلط استعمال کو بھی قانون کے خاتمہ یا ترمیم کا جواز بنانا بھی قابلِ فہم اور قابلِ قبول نہیں ہے۔ البتہ یہ ضروری ہے کہ جن مقدمات میں بے قصور افراد کو ملوث کرنے کی شکایات پائی جاتی ہیں ان کی الگ سے انکوائری کا اہتمام کیا جائے۔ اور جس طرح قصوروار افراد کو سزا دینا ضروری ہے اسی طرح بے قصور افراد کو سزا سے بچانا اور انصاف فراہم کرنا بھی ضروری ہے جو ریاست کی ذمہ داری ہے۔

(۳) اس حوالہ سے ایک اور پہلو بھی قابلِ توجہ ہے کہ توہین رسالتؐ پر سزا کا قانون چونکہ عالمی سطح پر زیربحث رہتا ہے اور بین الاقوامی ادارے اس کے مبینہ طور پر غلط استعمال کی دہائی دیتے آ رہے ہیں، اس لیے اس سلسلہ میں یہ کہہ دینا کافی نہیں ہو گا کہ بے قصور افراد کو سزا سے بچانے اور انصاف فراہم کرنے کے لیے قانونی نظام میں عدالتی پراسیس موجود ہے، اس لیے مزید کسی اقدام کی ضرورت نہیں ہے۔ بلکہ ہماری گزارش یہ ہو گی کہ ناموس رسالتؐ کے تحفظ کے قوانین پر مکمل عملدرآمد کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ ان کے غلط استعمال کے قومی اور بین الاقوامی سطح کے الزامات کی الگ سے تحقیقات کی ضرورت ہے، جو اس سلسلہ میں پیش کی جانے والی مذکورہ رپورٹوں کی روشنی میں اور زیادہ اہمیت اختیار کر گئی ہے۔

چنانچہ ہم وزیر اعظم جناب شہباز شریف سے یہ درخواست کر رہے ہیں کہ (۱) ناموس رسالتؐ کے قوانین پر مکمل عملدرآمد نظر نہ آنے کے اسباب، (۲) اور بہت سے کیسوں میں بے قصور افراد کے متاثر ہونے کے الزامات کا جائزہ لینے کے لیے اعلیٰ سطحی عدالتی کمیشن قائم کیا جائے، جو ان دونوں پہلوؤں کی معروضی صورتحال کا جائزہ لے کر دونوں طرف کی شکایات دور کرنے کے لیے سفارشات اور تجاویز پیش کرے، تاکہ ان قوانین کے بارے میں ان دونوں شکایات کو دور کر کے شریعتِ اسلامیہ اور انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ وطنِ عزیز اور اسلامی تعلیمات کے خلاف بین الاقوامی اداروں اور این جی اوز کے یکطرفہ پروپیگنڈا کا سدباب کیا جا سکے۔

   
2016ء سے
Flag Counter