قادیانیوں کے لیے نجات اور فلاح کا راستہ

   
۸ مارچ ۲۰۱۰ء

۱۲ ربیع الاول کی شب چنیوٹ اور چناب نگر (سابقہ ربوہ) کے دو اہم اجتماعات میں شرکت کا موقع ملا۔ اب سے نصف صدی قبل سفیر ختم نبوت مولانا منظور احمدؒ چنیوٹی نے قادیانی امت کے سربراہ مرزا بشیر الدین محمود کو دعوت مباہلہ دی جس کے لیے اس وقت کی چار دینی جماعتوں جمعیۃ علماء اسلام، مجلس تحفظ ختم نبوت، تنظیم اہل سنت اور جمعیۃ اشاعت التوحید والسنہ نے انہیں اپنا نمائندہ قرار دے کر اعلان کیا کہ مباہلے میں مولانا چنیوٹی کی شکست ان کی شکست ہوگی۔ مولانا چنیوٹی قادیانی سربراہ کے ساتھ باقاعدہ خط و کتابت کے بعد ۲۶ فروری کو دریائے چناب کے دو پاٹوں کے درمیان جزیرہ نما جگہ پر ساتھیوں سمیت مباہلے کے لیے پہنچ گئے مگر مرزا بشیر الدین محمود نہ آئے۔ اس کی یاد میں ہر سال ۲۶ فروری کو مولانا چنیوٹی کے مرکز ’’ادارہ مرکزیہ دعوت و ارشاد چنیوٹ‘‘ میں ’’فتح مباہلہ کانفرنس‘‘ منعقد ہوتی ہے جس میں اس مباہلے کی تفصیلات بیان کرنے کے بعد قادیانی امت کے موجودہ سربراہ کو دوبارہ مباہلے کی دعوت دی جاتی ہے۔ جب تک مولانا منظور احمدؒ چنیوٹی زندہ تھے یہ دعوت مباہلہ وہ خود دیتے تھے، ان کی وفات کے بعد یہ فریضہ ان کے جانشین اور فرزند مولانا محمد الیاس چنیوٹی ایم پی اے سرانجام دیتے ہیں۔

مباہلہ یہ ہے کہ حق و باطل پر باہم اختلاف رکھنے والے دو فریق ایک جگہ اکٹھے ہو کر یہ دعا کرتے ہیں کہ یا اللہ! ہم میں سے جو باطل پر ہو اسے ذلیل و رسوا کر کے حق کو واضح کر دے۔ مباہلے کا ذکر قرآن کریم میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نجران سے آنے والے مسیحی علماء کو مباہلے کی دعوت دی جو انہوں نے قبول نہ کی۔ مرزا غلام احمد قادیانی بھی زندگی میں مختلف لوگوں کو مباہلے کی دعوت دیتے رہے جن میں انہیں ہمیشہ ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ بزرگ اہل حدیث عالم دین حضرت مولانا ثناء اللہ امرتسریؒ کے نام مرزا غلام احمد قادیانی کی دعوت مباہلہ مشہور ہے جس میں مرزا غلام احمد قادیانی نے اعلانیہ یہ کہا اور لکھا تھا کہ ہم میں سے جو جھوٹا ہوگا وہ دوسرے کی زندگی میں ذلت کی موت مرے گا۔ چنانچہ مرزا صاحب اس کے بعد جلد ہی آنجہانی ہوگئے جبکہ حضرت مولانا ثناء اللہ امرتسریؒ کم و بیش نصف صدی تک حیات رہے۔

چنیوٹ کی یہ دعوت مباہلہ کانفرنس ہر سال ہوتی ہے جس میں راقم الحروف کو بھی ایک عرصے سے شرکت کی سعادت حاصل ہو رہی ہے۔ اس سال حسن اتفاق سے یہ کانفرنس ۱۲ ربیع الاول کی شب کو ہوئی، پاکستان کے مختلف علاقوں سے سرکردہ علماء کرام کے علاوہ مکہ مکرمہ سے انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ کے سربراہ مولانا عبد الحفیظ مکی اور کویت سے موومنٹ کے سیکرٹری جنرل مولانا احمد علی سراج نے بھی شرکت کی۔ اسی شب چنیوٹ کے پڑوس چناب نگر میں، جو قادیانیوں کا ہیڈکوارٹر ہے، عالمی مجلس احرار اسلام کے زیراہتمام سالانہ کانفرنس تھی جو ہر سال ربیع الاول کی انہی تاریخوں میں منعقد ہوتی ہے، وہاں بھی حاضری کا موقع ملا۔ امیر احرار فرزند امیر شریعت پیر جی سید عطاء المہیمن شاہ بخاری کی صدارت میں منعقد ہونے والی اس کانفرنس میں ملک کے مختلف حصوں سے آئے ہوئے علماء کرام اور کارکنان احرار کثیر تعداد میں شریک ہوتے ہیں اور علماء کرام تحریک ختم نبوت کے حوالے سے مختلف موضوعات پر اظہار خیال کرتے ہیں۔

راقم الحروف نے اس سال اس پہلو پر گفتگو کی کہ میں اس موقع پر مسلمانوں سے مخاطب ہونے کی بجائے قادیانی حضرات کی خدمت میں یہ گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ وہ اپنے موقف اور پوزیشن پر نظر ثانی کریں اور کشمکش کے ماحول سے ہٹ کر ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ مسئلہ کا جائزہ لیں۔ اس سلسلہ میں ان کے سامنے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں نبوت کا دعویٰ کرنے والے تین چار حضرات کا ذکر کروں گا۔ حضورؐ کی حیات طیبہ کے آخری دور میں اور خلافت راشدہ کے آغاز پر چار افراد نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا اور باقاعدہ مسلمانوں کے ساتھ محاذ آرائی اور جنگ کی تھی۔ قبیلہ بنو یمامہ کا مسیلمہ کذاب، قبیلہ بنو اسد کا طلیحہ بن خویلد، بنو تغلب کی خاتون سجاح اور یمن کا اسود عنسی۔ ان میں سے مسیلمہ کذاب اور اسود عنسی مسلمانوں کے مقابلے میں قتل ہوگئے تھے جبکہ طلیحہ اور سجاح نے توبہ کر لی تھی اور دعوائے نبوت سے دستبردار ہو کر ملتِ اسلامیہ کے اجتماعی دھارے میں شامل ہوگئے تھے۔

طلیحہ بن خویلد بنو اسد قبیلے سے تعلق رکھتا تھا، فصیح و بلیغ شخص تھا اور اسی فصاحت و بلاغت کے زعم میں اس نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا۔ نبوت کے دعوے کے ساتھ اس نے اپنے قبیلے کو جمع کیا اور مسلمانوں کے خلاف صف آراء ہوگیا۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے مقابلے میں حضرت ضرار بن ازورؓ کو لشکر دے کر بھیجا جس کے ساتھ محاذ آرائی میں طلیحہ کو شکست ہوئی مگر وہ جان بچا کر فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا البتہ آنحضرتؐ کے ایک صحابی حضرت عکاشہ بن محصنؓ اس جنگ میں طلیحہ کے ہاتھوں شہید ہوگئے۔ طلیحہ نے فرار کا راستہ اختیار کیا اور کچھ عرصہ اس حالت میں گزار کر حضرت ابوبکر صدیقؓ کے دورِ خلافت میں پھر نمودار ہوا اور اس بار اس کا سامنا حضرت خالد بن ولیدؓ سے ہوا او رطلیحہ پھر شکست کھا کر فرار ہوگیا۔ اس کے بعد یہ صاحب حضرت عمر بن الخطابؓ کے دورِ خلافت میں ظاہر ہوئے اور حضرت عمرو بن العاصؓ کو اپنا سفارشی بنا کر حضرت عمرؓ کے سامنے توبہ کے لیے پیش ہوگئے۔ اس موقع پر حضرت عمرؓ کے ساتھ طلیحہ کا دلچسپ مکالمہ ہوا۔

طلیحہ نے جب حضرت عمرؓ سے کہا کہ میں توبہ کر کے ملتِ اسلامیہ میں شامل ہونا چاہتا ہوں تو حضرت عمرؓ نے کہا کہ تم تو توبہ کرلو گے مگر میں عکاشہؓ کو کیسے بھلا سکوں گا جو تمہارے ہاتھوں شہید ہوگیا تھا، وہ ہمارا مضبوط جوان تھا جو مجھے نہیں بھولتا۔ طلیحہ نے کہا کہ امیر المومنین! کیا آپ اس بات پر راضی نہیں ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اسے میرے ہاتھوں جنت میں پہنچا دیا اور مجھے اس کے ہاتھوں جہنم میں جانے سے بچا لیا، یعنی وہ میرے ہاتھوں شہید ہو کر جنت میں گیا ہے اور میں اگر اس کے ہاتھوں مارا جاتا تو سیدھا جہنم میں جاتا۔ حضرت عمرؓ اس کی اس بات پر تھوڑا متوجہ ہوئے تو اس نے کہا کہ امیر المومنین! کیا آپ کو یہ بات اچھی نہیں لگے گی کہ قیامت کے دن میں اور عکاشہؓ دونوں یعنی قاتل اور مقتول ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر جنت کی طرف جا رہے ہوں گے۔ یہ بات سن کر حضرت عمرؓ تھوڑا مسکرائے تو طلیحہ کا کام بن گیا۔ اس نے نبوت کے جھوٹے دعوے سے دستبرداری اختیار کرتے ہوئے اسلام قبول کیا اور ملت اسلامیہ میں شامل ہوگیا اور ایک اچھے مسلمان کے طور پر باقی زندگی بسر کی۔ مؤرخین بتاتے ہیں کہ اس کے بعد طلیحہ نے بلکہ حضرت طلیحہؓ نے قادسیہ کی جنگ میں مسلمانوں کے ایک دستے کی قیادت کرتے ہوئے جام شہادت نوش کیا۔

اسی طرح سجاح بھی مسیلمہ کذاب کے ساتھ شکست کھانے کے بعد بادیہ نشین ہوگئی تھی اور حضرت معاویہؓ کے دورِ خلافت میں ان کے پاس حاضر ہو کر اس نے توبہ کی اور کوفہ میں باقی زندگی ایک عابدہ و زاہدہ خاتون کے طور پر گزاری، اس کی وفات پر اس کا جنازہ صحابی رسول حضرت سمرہ بن جندبؓ نے پڑھایا۔

میں قادیانی حضرات کو یہ دعوت دینا چاہتا ہوں کہ وہ دورِ نبوت کے مدعیان نبوت کے حالات کا جائزہ لیں اور مسیلمہ اور اسود عنسی کے نقش قدم پر چلنے کی بجائے طلیحہ اور سجاح کا راستہ اختیار کریں۔ میں پورے خلوص اور خیر خواہی کے ساتھ عرض کرتا ہوں کہ ان کے لیے دنیا اور آخرت دونوں حوالوں سے یہی راستہ فلاح اور نجات کا راستہ ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter