نفاذِ اسلام کے لیے مسلح جدوجہد کی متبادل حکمت عملی!

   
۱۵ نومبر ۲۰۱۲ء

تحریک تحفظ ناموس رسالت کے گزشتہ راؤنڈ کی بات ہے جب آسیہ مسیح کیس کے سلسلہ میں گورنر پنجاب قتل ہوگئے تھے اور ریمنڈ ڈیوس کی پاکستان دشمن سرگرمیوں پر پورا ملک سراپا احتجاج تھا، منصورہ لاہور میں آل پارٹیز کانفرنس منعقد ہوئی جس میں تمام مکاتب فکر کے اکابر علماء کرام اور دینی جماعتوں کے سرکردہ راہنما شریک ہوئے۔ کانفرنس کے اختتام پر ملک کی ایک بڑی روحانی درگاہ (کوٹ مٹھن) کے سجادہ نشین محترم نے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے آل پارٹیز کانفرنس کی کامیابی پر خوشی کا اظہار کیا اور کہا کہ اتنی بھرپور اور نمائندہ اعلٰی سطحی آل پارٹیز کانفرنس سے عوام کو حوصلہ ملا ہے، اس کے ساتھ ہی انہوں نے سوال کیا کہ کیا دوبارہ اس طرح اکٹھا ہونے کے لیے ہم کسی اور سانحے کا انتظار کریں گے یا اس کے بغیر بھی ہمارے اس سطح پر مل بیٹھنے کی کوئی صورت نکل آئے گی؟ اس سوال کی چبھن کم و بیش سبھی لوگوں نے محسوس کی اور اس پر باہمی کھسر پھسر بھی ہوتی رہی لیکن چونکہ یہ بات کانفرنس کے بالکل اختتام پر سامنے آئی تھی اس لیے اس پر سنجیدگی سے کوئی تبصرہ نہ ہو سکا۔

یہ بات مجھے کراچی میں جامعہ اشرف المدارس پر افسوسناک چھاپے اور جامعہ احسن العلوم کے طلبہ کی المناک شہادت کی تفصیلات پڑھتے ہوئے یاد آئی اور یوں محسوس ہوا کہ شاید یہ ہمارا مزاج بن گیا ہے کہ حادثے اور سانحات ہی ہمیں کبھی کبھار مل بیٹھنے پر مجبور کر دیتے ہیں ورنہ نارمل حالات میں اس کے امکانات کم ہی نظر آتے ہیں چنانچہ غالب مرحوم کی زبان سے معذرت کرتے ہوئے

رکھیو غالب مجھے اس تلخ نوائی پہ معاف
آج کچھ درد مرے دل میں سوا ہوتا ہے

کے مصداق یہ عرض کرنا چاہ رہا ہوں کہ کچھ عرصہ قبل کراچی میں جامعہ انوار القرآن آدم ٹاؤن کے شیخ الحدیث مولانا انیس الرحمان درخواستیؒ شہید کر دیے گئے تو عام طور پر اسے معمول کی کارروائی سمجھا گیا اور ہماری اجتماعی حمیت میں حرکت کے آثار نمودار نہ ہو سکے۔ اس کے بعد جب شہادتوں کی لائن لگ گئی تو ہم اپنی اپنی ترجیحات کے مطابق ہر شہادت پر غم و غصہ کے جذبات کا اظہار کر کے اگلی شہادت کے انتظار کے عادی ہوتے چلے گئے۔ جامعہ اشرف العلوم کے مظلوم طلبہ کی المناک شہادت اسی تسلسل کا ایک حصہ اور مرحلہ ہے جبکہ مستقبل میں اس تسلسل میں کسی تعطل کے امکانات دور دور تک دکھائی نہیں دیتے۔ فیا اسفاہ و یا ویلاہ۔ کچھ اسی قسم کی صورتحال چھاپوں کی بھی ہے، گزشتہ رمضان المبارک کے دوران جامعہ دارالعلوم کراچی کا رینجرز کی طرف سے گھیراؤ اور تلاشی کا المناک سانحہ اتنی آسان بات نہیں تھی کہ وہ ٹھنڈے پیٹوں برداشت ہو جاتا، اپنوں بیگانوں سب کو اس پر کسی اجتماعی ردعمل کا انتظار تھا اور ہم نے اسی کالم میں اس کی اہمیت و ضرورت کا تذکرہ بھی کیا تھا مگر ایسا نہ ہو سکا اور اب ہمیں جامعہ اشرف المدارس پر نہ صرف اسی طرح کے چھاپے کا بلکہ اس سے ایک قدم آگے فائرنگ اور اس کے المناک نتائج کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے اور جامعہ اشرف المدارس کے طلبہ کی مظلومانہ شہادت نے اہل دین کے دلوں کو ایک بار پھر چھلنی کر کے رکھ دیا ہے۔

اس پس منظر میں ۱۲ نومبر کو اسلام آباد میں وفاق المدارس العربیہ پاکستان کی دعوت پر جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے امیر مولانا فضل الرحمان کی میزبانی میں سرکردہ اور اکابر علماء کرام کا ایک مشاورتی اجلاس ہوا جس کی صدارت وفاق کے سربراہ شیخ الحدیث حضرت مولانا سلیم اللہ خان دامت برکاتہم نے کی اور اس کے شرکاء میں مولانا فضل الرحمان، مولانا مفتی محمد تقی عثمانی، مولانا سمیع الحق، مولانا قاری محمد حنیف جالندھری، مولانا پیر عزیز الرحمان ہزاروی، مولانا عبد الغفور حیدری، حافظ حسین احمد، مولانا ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندر، مولانا فداء الرحمان درخواستی، مولانا قاضی عبد الرشید، مولانا مفتی محمد، مولانا عبید اللہ خالد، مولانا سعید یوسف خان، مولانا انوار الحق، ڈاکٹر خالد محمود سومرو، قاری محمد عثمان، مولانا محمود الحسن اشرف، مولانا محمد ابراہیم مظہر، مولانا سید محمد یوسف شاہ، مولانا عبد القدوس محمدی اور راقم الحروف شامل تھے۔

اجلاس کے طے کردہ لائحہ عمل اور فیصلوں کا اعلان وفاق المدارس کے سیکرٹری جنرل مولانا قاری محمد حنیف جالندھری کی طرف سے کر دیا گیا ہے اور ملک بھر میں اس پر عملدرآمد کی تیاریاں بھی شروع ہوگئی ہیں۔ مگر اجلاس کے دوران زیربحث آنے والے معاملات میں سے ایک مسئلہ پر کچھ گزارشات پیش کرنے کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔ اجلاس میں اس بات کا تفصیل کے ساتھ جائزہ لیا گیا کہ ملک بھر کے دینی کارکنوں بالخصوص دینی مدارس کے طلبہ اور ان میں سے بھی بطور خاص صوبہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے طلبہ اور کارکنوں میں نفاذ شریعت کے سلسلہ میں شدید اضطراب پایا جاتا ہے اور وہ نفاذ اسلام کے سلسلہ میں ہماری روایتی جدوجہد اور طریق کار کو نتیجہ خیز اور مؤثر نہ پاتے ہوئے ’’تنگ آمد بجنگ آمد‘‘ کو متبادل آپشن سمجھنے لگ گئے ہیں:

  • یہ ماحول پیدا کرنے میں حساس اداروں اور خفیہ ہاتھ کی کارفرمائی سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ پاکستان کے دینی کارکنوں اور طلبہ کے بارے میں عالمی استعمار کا ایجنڈا یہی ہے کہ انہیں کسی نہ کسی طریقہ سے اشتعال دلا کر مسلح افواج کے سامنے لایا جائے اور پھر آپریشن کے عنوان سے ان کی قوت کو توڑ دیا جائے۔
  • لیکن اس سے کہیں زیادہ یہ حقیقت واقعہ ہے کہ اس راستہ کو ترجیح دینے والے طلبہ اور کارکنوں کی اکثریت مخلص اور نفاذ شریعت کے بے لوث جذبہ سے سرشار نوجوانوں کی ہے، لیکن انہیں یہ راستہ دکھانے میں سب سے زیادہ کردار پاکستان کی رولنگ کلاس اور اسٹیبلشمنٹ کا ہے جس نے گزشتہ ساٹھ برسوں کے دوران نفاذ اسلام کے سلسلہ میں سیاسی عمل اور پارلیمانی محنت کے نتیجے میں سامنے آنے والے قومی اور جمہوری اقدامات کا مسلسل راستہ روکا ہے اور نفاذ اسلام کے لیے منتخب پارلیمنٹ کے طے کردہ فیصلوں کو پوری چابکدستی اور مہارت کے ساتھ ناکام بنانے کی ہر مرحلہ میں منظم کوشش کی ہے۔
  • اس کے ساتھ ہی دینی کارکنوں میں اس مایوسی اور اس کے لیے ردعمل کے پیدا ہونے میں ہماری دینی قیادت کے اس طرزعمل کا بھی کچھ کم حصہ نہیں ہے کہ ہم نے نفاذ اسلام کے لیے صرف پارلیمانی جدوجہد پر قناعت کرتے ہوئے پراَمن عوامی جدوجہد کی اصل قوت (اسٹریٹ پاور اور تحریکی قوت) کو کام میں لانا ایک عرصہ سے چھوڑ رکھا ہے، جس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے کہ اس وقت نفاذ اسلام کی بات عسکری مورچوں سے ہو رہی ہے اور یا پھر ایک حد تک پارلیمنٹ کے ایوانوں میں کبھی کبھار سنائی دیتی ہے، جبکہ ملک بھر میں اس مقصد کے لیے اسٹریٹ پاور کو متحرک کرنے کی کوئی صورت دکھائی نہیں دے رہی اور عوامی محاذ پر خاموشی کا راج ہے۔

ہمارے خیال میں ’’تنگ آمد بجنگ آمد‘‘ کا راستہ اختیار کرنے والوں کو یہ سمجھانا تو انتہائی ضروری ہے کہ نفاذ اسلام کے لیے ملک کے اندر ہتھیار اٹھانا کسی طرح بھی درست نہیں ہے اور پراَمن عوامی جدوجہد ہی اس مشن کے لیے صحیح اور قابل عمل راستہ ہے۔ لیکن صرف یہ سمجھانا کافی نہیں ہے بلکہ نفاذ شریعت کا مخلصانہ جذبہ رکھنے والے دینی کارکنوں اور طلبہ کو پر اَمن عوامی جدوجہد کا متبادل تحریکی فورم فراہم کرنا بھی ضروری ہے۔ کیونکہ کوئی متبادل فورم فراہم کیے بغیر صرف سمجھانے بجھانے سے یہ مسئلہ حل ہوتا نظر نہیں آتا اور اس ضرورت سے ہٹ کر پراَمن عوامی جدوجہد نفاذِ اسلام کی جدوجہد کا ناگزیر تقاضا بھی ہے۔

پھر اس مسئلہ کے عالمی تناظر کو سامنے رکھنا اور دینی کارکنوں کو اس سلسلہ میں اعتماد میں لینا بھی ہماری ذمہ داری ہے۔ اس لیے یہ بحث صرف پاکستان میں نہیں ہے کہ نفاذ اسلام کے لیے پراَمن سیاسی جدوجہد ہونی چاہیے یا تنگ آمد بجنگ آمد کا راستہ اختیار کرنا ضروری ہے۔ عالم اسلام کے وہ ممالک بھی کم و بیش اسی طرح کی صورتحال سے دوچار ہیں جن کے عوام اپنے اپنے ملک میں نفاذ اسلام کے خواہاں ہیں اور اس کے لیے کچھ نہ کچھ جدوجہد بھی کر رہے ہیں۔ اس کی ایک جھلک ۱۲ نومبر ۲۰۱۲ء کے قومی اخبارات میں شائع ہونے والی اس خبر میں دیکھی جا سکتی ہے جو قاہرہ کی ڈیٹ لائن سے آئی این پی کے حوالے سے سامنے آئی ہے:

’’القاعدہ کے سربراہ ڈاکٹر ایمن الظواہری کے چھوٹے بھائی ڈاکٹر محمد الظواہری نے کہا ہے کہ سیناء میں اسلامی حکومت قائم کرنے کی خبریں گمراہ کن ہیں، ہماری جماعت دوسروں کو کافر قرار نہیں دیتی اس لیے ہم پر تکفیری فرقہ کے الزامات بے سروپا ہیں۔ ان خبروں میں بھی کوئی صداقت نہیں ہے کہ ’’اسلامی جہاد‘‘ قاہرہ میں دہشت گرد بم حملوں کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ ایسی خبریں ’’اسلامی جہاد‘‘ کے خلاف میڈیا میں ہونے والے منفی پروپیگنڈہ کا حصہ ہیں۔ مصری میڈیا اور سکیورٹی اداروں کو سابق حکومت کی باقیات سے پاک کیا جائے، ’’اسلامی جہاد‘‘ اسلحے کی بجائے وعظ، کانفرنسوں اور کتابوں کے ذریعے اسلامی فہم پھیلانے میں مصروف ہے۔ محمد الظواہری نے کہا کہ ہماری جماعت سیاست میں حصہ لینے کی متمنی نہیں کیونکہ ہم جمہوریت کے نظریے پر یقین نہیں رکھتے، ہم اس جمہوریت کے قائل ہیں جو انصاف، انسانی عظمت اور مساوات قائم کرنے میں معاون ہو، صرف ایسی جمہوریت ہی اسلامی تعلیمات سے ہم آہنگ ہے۔‘‘

اس لیے یہ مسئلہ صرف پاکستان کا نہیں پورے عالم اسلام کا ہے اور ہم خیال اسلامی قوتوں کا باہمی رابطہ و مفاہمت بھی وقت کی اہم ضرورت ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter