بعد الحمد والصلوٰۃ۔ حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے بڑی اجتماعی ملاقات حجۃ الوداع کے موقع پر ہوئی، اس کے کچھ عرصہ بعد حضور نبی کریمؐ انتقال فرما گئے تھے۔ حجۃ الوداع میں تقریباً ڈیڑھ لاکھ کے قریب اجتماع تھا، اس میں کئی دن اکٹھے رہے تھے اور جناب نبی کریمؐ یہ فرما کر اپنی امت کے ساتھ وہ دن گزارے تھے ’’ لعلی لا القاکم بعد عامی ہذا‘‘ شاید اس سال کے بعد میری اور تمہاری ملاقات نہیں ہوگی۔ یہ الوداعی ملاقات تھی اس لیے اس کو حجۃ الوداع بھی کہتے ہیں۔
حجۃ الوداع کے موقع پر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو باتیں ارشاد فرمائیں انہیں بہت سے محدثین آپؐ کی وصیتیں قرار دیتے ہیں کیونکہ آدمی آخری ملاقات میں جو باتیں کرتا ہے وہ وصیت شمار ہوتی ہیں۔ ان وصیتوں میں نبی کریمؐ کا ایک ارشاد گرامی یہ ہے ’’ترکت فیکم امرین لن تضلوا ما تمسکتم بھما: کتاب اللہ و سنتی‘‘ میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں جب تک تم انہیں مضبوطی سے پکڑے رہو گے گمراہ نہیں ہو گے: اللہ تعالیٰ کی کتاب اور رسول اللہ کی سنت۔ اور ایک روایت میں ’’کتاب اللہ وعترتی‘‘ کے الفاظ ہیں یعنی کتاب اللہ اور میرا خاندان۔ دونوں ٹھیک ہیں۔ نبی کریمؐ کے خاندان اور اہل بیتؓ کے ساتھ محبت بھی آپؐ پر ایمان اور آپؐ کے ساتھ محبت کا تقاضا ہے، اور نبی کریمؐ کی سنت کے ساتھ محبت اور اس پر عمل بھی آپؐ پر ایمان اور آپؐ کے ساتھ محبت کا تقاضا ہے۔
سنت کے حوالے سے ایک بات یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ کے حوالے سے حضرات صحابہ کرامؓ کا ذوق کیا تھا؟ اور دوسری بات کہ سنت مبارکہ کی معاشرتی برکات کیا ہیں؟ صحابہ کرامؓ کا سنتِ نبویؐ کے حوالے سے کیا ذوق تھا، اس پر بے شمار واقعات ہیں، ان میں سے ایک واقعہ عرض کرنا چاہوں گا۔ اور سنت رسولؐ پر عمل کی برکات کیا ہیں، اس پر بھی بے شمار واقعات ہیں، ان میں سے ایک واقعہ عرض کروں گا۔
حدیبیہ والے سفر میں جب حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کفار مکہ نے عمرہ کرنے سے روک دیا اور رکاوٹ کھڑی کر دی کہ آگے نہیں جانے دیں گے، تو مذاکرات ہوئے۔ مذاکرات میں جناب نبی کریمؐ نے قریش کے سرداروں سے گفتگو کے لیے حضرت عثمان بن عفانؓ کو اپنا نمائندہ بنا کر بھیجا، اور ان سے فرمایا کہ آپ جا کر قریش کے سرداروں سے بات کریں کہ ہم عمرہ کرنے کے لیے آئے ہیں، لڑائی کرنے کے لیے نہیں، ہم ایک دو دن میں عمرہ کر کے واپس چلے جائیں گے، ہماری لڑائی اپنی جگہ لیکن اس موقع پر ہم صرف عمرہ کرنے کے لیے آئے ہیں اس لیے ہمیں عمرہ ادا کرنے دیا جائے۔
حضرت عثمان بن عفانؓ کے انتخاب کی دو وجہیں بیان کی جاتی ہیں: (۱) پہلی وجہ یہ ہے کہ آپ ٹھنڈے مزاج کے آدمی تھے اور مذاکرات کے لیے ٹھنڈے مزاج کا آدمی چاہیے ہوتا ہے۔ جبکہ لڑائی کے لیے گرم مزاج چاہیے ہوتا ہے۔ میں کہا کرتا ہوں کہ آج بھی یہی تقسیم ہے۔ اگر جنگ میں کسی سفیر کو بھیجا تو بیڑا غرق ہو جائے گا، اور مذاکرات کے لیے کسی جرنیل کو بھیج دیں تو بیڑا غرق ہو جائے گا۔ جنگ بھی قومی ضرورت ہے اور مذاکرات بھی قومی ضرورت ہیں۔ مذاکرات کے لیے ٹھنڈے مزاج کا ڈپلومیٹ بھیجا جاتا ہے جو دشمن کی چالیں جانتا ہو، اس سے بات کرنا جانتا ہو، اور جنگ کے لیے جرنیل کو بھیجا جاتا ہے۔ حضرت عثمانؓ کے انتخاب کی ایک وجہ یہ تھی کہ آپ دھیمے مزاج کے آدمی تھے۔ (۲) دوسری وجہ یہ تھی کہ ان کا خاندان بہت بڑا تھا، مکہ مکرمہ میں ان کی لابی بہت تھی، وہاں ان کے پرانے دوست تھے، ان کا حلقہ احباب تھا۔ اور سفارت کے لیے لابنگ بھی ضروری ہوتی ہے۔ لابنگ کی صلاحیت کہ اپنا حلقہ بنایا جائے، سفیر کو اس چیز کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔
چنانچہ حضرت عثمانؓ مکہ مکرمہ تشریف لے گئے اور لابنگ کی، اپنے پرانے دوست اکٹھے کیے اور ان سے فرمایا کہ میں ایک مشن پر آیا ہوں تم میرے پرانے دوست ہو، میرا ساتھ دو۔ وہ سارے قریشی تھے، دشمن کیمپ کے تھے، لیکن آپ کے دوست تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک سنت مبارکہ ہے کہ جب تہ بند باندھتے تو آپؐ کی چادر ٹخنوں سے اوپر ہوتی تھی، عام طور پر نصف پنڈلی تک ہوتی تھی، بہرحال ٹخنوں سے اوپر ہوتی تھی۔ آنحضرتؐ خود بھی ایسے ہی چادر باندھتے اور دوسروں کے لیے بھی یہی حکم دیا کہ مردوں کو اپنے ٹخنے ننگے رکھنے چاہئیں۔ اس کی ایک وجہ محدثین یہ ذکر فرماتے ہیں کہ ٹخنوں سے نیچے لمبی چادر اس زمانے میں معاشرتی طور پر فخر اور وی آئی پی ہونے کی علامت سمجھی جاتی تھی کہ اس کی چادر زمین پر گھسٹ رہی ہے۔ جتنی زیادہ چادر زمین پر گھسٹتی تھی اتنا بڑا چوہدری سمجھا جاتا تھا۔ نبی کریمؐ نے اس سے منع فرما دیا کہ اکڑ کر مت چلو۔
روایت میں آتا ہے کہ حضرت عثمانؓ اپنے پرانے حلقے کے دوستوں کے ساتھ مکہ مکرمہ کے کسی راستے پر جا رہے تھے ۔ حضرت عثمانؓ نے جو چادر باندھی ہوئی تھی وہ نصف پنڈلی تک تھی۔ ساتھیوں کو محسوس ہوا کہ اس نے تو کمیوں والی چادر باندھی ہوئی ہے، کام کاج کرنے والوں کی چادر اس طرح ہوتی ہے۔ تو ایک ساتھی نے حضرت عثمانؓ کو کہنی ماری کہ اپنی چادر ٹھیک کریں۔ حضرت عثمان ؓنے کہا کہ چادر ٹھیک ہے اس کو کیا ہے؟ آگے چلے تھوڑی دیر بعد ایک دوسرے ساتھی نے کہا عثمان! اپنی چادر ٹھیک کرو۔ حضرت عثمانؓ نے کہا چادر ٹھیک ہے اس کو کیا ہے؟ تھوڑا آگے چلے تو ایک اور ساتھی نے یہی بات کی۔ اس پر حضرت عثمانؓ کھڑے ہو گئے اور فرمایا کہ میں سمجھ رہا ہوں کہ تم کیا کہہ رہے ہو، تمہیں ہتک محسوس ہو رہی ہے۔ تم میرے ساتھ چلنا چاہو تو تمہاری مرضی، اگر نہ چلنا چاہو تو تمہاری مرضی، مگر چادر یہیں رہے گی کیونکہ میرا صاحبؐ ایسے ہی چادر باندھتا ہے۔
میں نے حضرات صحابہ کرامؓ کی سنت مبارکہ کے حوالے سے ذوق کی ایک جھلکی عرض کی ہے کہ ان کا حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرنے اور سنت نبویؐ پر اڑ جانے کا ذوق یہ تھا۔
سنت نبویؐ پر عمل کی برکات بھی بے شمار ہیں۔ آج اگر ہم سنت نبویؐ کی برکات دیکھنا چاہیں تو بڑا میدان ہے لیکن ہمارا اس طرف دھیان ہی نہیں جا رہا۔ حضرت عمرؓ کی خلافت کے زمانے میں مصر فتح ہوا تھا۔ مصر اس زمانے میں جزیرہ کہلاتا تھا، جس کے فاتح حضرت عمرو بن العاصؓ ہیں۔ ایک تاریخی واقعہ یہ بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت عمرو بن العاصؓ کے ساتھ آٹھ ہزار کی فوج تھی، مصر فتح کرتے جا رہے تھے لیکن ایک قلعہ فتح نہیں ہو رہا تھا، اس کا محاصرہ کیے رکھا لیکن کافی عرصہ گزر گیا، کامیابی نہیں مل رہی تھی۔ اس قلعہ کا نام مورخین نے بولس سے لکھا ہے۔ تو حضرت عمرو بن العاصؓ نے محسوس کیا کہ کبھی ایسا تو نہیں ہوا کہ ہمیں رکاوٹ پڑی ہو، یہاں ہم کتنے ہفتوں سے پھنسے ہوئے ہیں اور قلعہ فتح نہیں ہو رہا۔ انہوں نے امیر المومنین حضرت عمرؓ کو رپورٹ بھیجی کہ یہ صورتحال ہے، اب ہم کیا کریں؟ آپ فوج بھیجیں اور راہنمائی کریں۔ حضرت عمرؓ کو رپورٹ پہنچی تو انہوں نے چار آدمی بھیجے جن میں حضرت مقداد بن الاسودؓ اور حضرت زبیر بن العوامؓ بھی شامل تھے۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ میں یہ چار آدمی بھیج رہا ہوں جو چار ہزار کے برابر ہیں، یہ تمہارے ساتھ ہوں گے۔ اور اس پر حضرت عمرؓ کا تجزیہ دیکھیں۔ انہوں نے فرمایا کہ میں یہ آدمی تو بھیج رہا ہوں لیکن ایک بات ذہن میں رکھنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی سنت آپ لوگوں سے رہ گئی ہے جس کی وجہ سے برکت نہیں ہے۔ لہٰذا دیکھو کہ کسی سنت پر عمل تو نہیں چھوٹ رہا جس کی وجہ سے یہ بے برکتی ہو رہی ہے؟ حضرت عمرو بن العاص نے لشکر کو حضرت عمرؓ کا خط پڑھ کر سنایا اور کہا کہ تلاش کرو ہم سے کون سی سنت رہ رہی ہے۔
میں اس پر یہ جملہ کہا کرتا ہوں کہ ان کو یہ تلاش کرنا پڑا کہ کون سی سنت ہم سے رہ گئی ہے۔ جبکہ آج ہمیں یہ تلاش کرنا پڑے گا کہ ہم کون سی سنت پر عمل کر رہے ہیں۔ اگر آج ہم یہ فیصلہ کر لیں تو کیا یہ دیکھیں گے کہ کون سی سنت رہ گئی ہے؟ یا یہ دیکھیں گے کہ کون سی سنت پر ہم عمل کر رہے ہیں؟ بہرحال لشکر میں یہ اعلان کیا تو نتیجہ یہ سامنے آیا کہ چونکہ ہم نے قلعے کا محاصرہ کیا ہوا ہے تو مصروفیت کی وجہ سے مسواک کی سنت ہم سے چھوٹ رہی ہے اور پابندی و اہتمام سے مسواک نہیں ہو رہی۔ حضرت عمرو بن العاصؓ نے فرمایا کہ قلعہ فتح نہ ہونے کی وجہ سمجھ آگئی ہے۔ چنانچہ آرڈر دیا کہ سب لوگ مسواکیں پکڑ کر نہر کے کنارے بیٹھ جائیں اور اس سنت نبویؐ پر عمل کریں۔
چنانچہ تمام صحابہ کرامؓ نے ٹولیوں کی شکل میں مسواکیں پکڑی ہوئی ہیں، نہر کے کنارے بیٹھ گئے ہیں اور ہر طرف مسواک ہو رہی ہے۔ جب قلعے والوں نے دیکھا کہ یہ لوگ تو دانت تیز کر رہے ہیں، آج ان کا کچھ اور ہی پروگرام لگتا ہے، کافی دیر سے لگے ہوئے ہیں سب دانت تیز کر رہے ہیں۔ چنانچہ وہ ڈر گئے، انہوں نے مشورہ کر کے سفید جھنڈا لہرا دیا اور قلعہ مسلمانوں کے حوالے کر دیا۔ یہ تاریخی واقعہ ہے کہ سنت کی برکت سے وہ قلعہ جو دو تین مہینوں سے فتح نہیں ہو رہا تھا بغیر لڑائی کے فتح ہو گیا۔
میں نے ذکر کیا ہے کہ ایک ہے سنت کا ذوق، اللہ تعالیٰ ہمیں بھی سنت کا ذوق نصیب فرما دیں، اور دوسری چیز ہے سنت کی برکت۔ ایمانداری کی بات ہے اگر ہم یقین اور ایمان کے ساتھ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں پر چلنے کا عزم کر لیں اور آپؐ کی سنتوں کے احیا کی ترتیب بنا لیں تو اتنی برکات ہوں گی کہ ہم سوچ بھی نہیں سکتے، ہم انہیں شمار بھی نہیں کر سکتے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے ساتھ محبت اور عقیدت عطا فرمائیں اور سنتوں کو زندہ کر کے ان کی برکات حاصل کرنے کی توفیق بھی عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔