سکولوں اور کالجوں کے نصاب تعلیم میں اسلامی حوالوں سے مبینہ تبدیلیوں کا مسئلہ ان دنوں قومی سطح پر زیر بحث ہے اور حکومتی حلقوں کی وضاحتوں کے باوجود اس سلسلہ میں شکوک و شبہات اور بے اعتمادی کی فضا بدستور موجود ہے۔ ملک کے دینی و تعلیمی حلقوں کا کہنا ہے کہ نصاب کی جو نئی کتابیں سامنے آئی ہیں ان میں متعدد قابل اعتراض باتیں موجود ہیں اور بعض مقامات پر قرآنی سورتیں اور آیات نصاب سے خارج کرنے کے علاوہ نئی کتابوں میں ایسا مواد شامل کیا گیا ہے جس کا مقصد نئی پود کے اذہان کو دینی پابندیوں سے آزاد کرنا اور ملک کے نصاب تعلیم کو سیکولر رُخ دینا ہے۔ مغربی حلقوں کی طرف سے ایک عرصہ سے پاکستان اور دوسرے مسلم ممالک پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ جس طرح مغربی ممالک نے اپنے ریاستی نصاب تعلیم سے مذہب کو خارج کر رکھا ہے اسی طرح پاکستان اور دیگر مسلم ممالک کے نصاب تعلیم سے بھی مذہبی مواد اور دینی تعلیمات کو خارج کیا جائے تاکہ مسلم ملکوں کا نصاب تعلیم بین الاقوامی یا مغربی ملکوں کے تعلیمی نظام و نصاب سے ہم آہنگ ہو سکے۔ لیکن پاکستان میں دستوری طور پر اسلام ملک کا ریاستی مذہب ہے اور حکومت ملک میں اسلامی تعلیمات کے فروغ کی آئینی طور پر پابند ہے، نیز پاکستان کے دینی حلقے اور عوام اس سلسلہ میں بیدار ہیں، اس لیے ریاستی نصاب تعلیم سے دینی مواد کو خارج کرنے کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہو رہی۔چونکہ ملک کے نصاب تعلیم کے بارے میں مغربی ملکوں کی خواہشات اور بین الاقوامی اداروں کا دباؤ پاکستانی عوام اور دینی حلقوں کی نگاہوں سے اوجھل نہیں ہے اور وہ اچھی طرح سمجھ چکے ہیں کہ امریکہ اور دوسرے مغربی ممالک پاکستان اور دیگر مسلم ممالک میں کس قسم کے تعلیمی نصاب و نظام کے لیے کوشاں ہیں اس لیے وہ اس سلسلہ میں بے حد حساس ہیں اور کسی جزوی یا معمولی ردوبدل پر بھی ان کے کان کھڑے ہو جاتے ہیں اور ہر طرف احتجاج کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ چنانچہ نصاب تعلیم کے بارے میں قومی حلقوں میں ہونے والی حالیہ بحث اور حکومتی حلقوں کی وضاحتوں کے باوجود عوام اور دینی حلقوں کا پیہم احتجاج اس پر گواہ ہے اور وہ ان تبدیلیوں کے بارے میں حکومتی حلقوں کی کسی وضاحت پر اعتماد کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
ہمارے نزدیک ریاستی نصاب تعلیم کی نئی کتابوں میں سامنے آنے والی مبینہ تبدیلیوں کا مسئلہ توجہ طلب ہے اور ہم اس سلسلہ میں ملک کے دینی اور تعلیمی حلقوں کے احتجاج کی حمایت کرتے ہیں لیکن ہمارے لیے اس سے کہیں زیادہ یہ صورتحال تشویش و اضطراب کا باعث ہے کہ ملک کے تعلیمی نظام کا سلسلہ آغا خان فاؤنڈیشن کے ساتھ جوڑا جا رہا ہے اور اس سلسلہ میں ایسی خبریں سامنے آرہی ہیں جو خاصی پریشان کن ہیں۔ مثلاً یہ کہا جا رہا ہے کہ پاکستان میں متعین امریکی سفیر اور آغا خان فاؤنڈیشن کے چیئرمین کے درمیان باقاعدہ معاہدہ طے پایا ہے جس کے تحت آغا خان فاؤنڈیشن پاکستان کے تعلیمی نصاب و نظام کو بین الاقوامی تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے کام کرے گی اور امریکہ اس مقصد کے لیے اسے مالی امداد فراہم کرے گا۔ پھر یہ خبریں بھی اخبارات کی زینت بن چکی ہیں کہ آغاخان فاؤنڈیشن کے تعلیمی بورڈ کو حکومت پاکستان نے سرکاری طور پر منظور کر لیا ہے اور ملک بھر کے تعلیمی بورڈز کو آغاخان فاؤنڈیشن کے بورڈ کے ساتھ منسلک کیا جا رہا ہے۔ یہ خبریں اگر درست ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آئندہ پاکستان کے سرکاری تعلیمی بورڈز آغاخان فاؤنڈیشن کی راہنمائی میں کام کریں گے اور آغاخان فاؤنڈیشن کو ملک کے تعلیمی نصاب و نظام کی تشکیل اور راہنمائی میں کلیدی حیثیت حاصل ہوجائے گی۔
آغا خان فاؤنڈیشن کا تعلق اہل تشیع کے ایک اقلیتی فرقہ سے ہے جو اسماعیلیوں کی شاخ کے طور پر متعارف ہے۔ اور اسماعیلیوں کا مختصر تعارف یہ ہے کہ حضرت امام جعفر صادق ؒ کی وفات کے بعد اہل تشیع کا اثناعشری فرقہ حضرت موسیٰ کاظمؒ کو ان کا جانشین مانتا ہے، جبکہ اسماعیلیوں کے نزدیک ان کے بڑے بھائی امام اسماعیل ؒ حضرت امام جعفر صادق ؒ کے جانشین ہیں۔ اثناعشریوں کی امامت کا سلسلہ بارہویں امام تک پہنچ کر مکمل ہوجاتا ہے کیونکہ ان کے نزدیک بارہویں امام غائب ہیں اور امام مہدیؒ کی صورت میں وہی دوبارہ دنیا میں آئیں گے، جبکہ اسماعیلی گروہ امام غائب کا قائل نہیں ہے اور ان کے نزدیک امامت نسل در نسل منتقل ہوتی ہوئی پرنس کریم آغا خان تک پہنچی ہے جو آغاخانیوں کے حساب سے اسماعیلیوں کے انچاسویں امام ہیں۔ آغاخانیوں کا عقیدہ ہے کہ امام براہ راست خدا کا نمائندہ ہوتا ہے اور اسے شریعت کی تعبیر تشریح کا حتمی اختیار حاصل ہے، قرآن کریم کی تشریح اور عبادت و عقیدہ کے تعین و وضاحت میں امام کا قول حرف آخر ہے، امام پر ایمان لانا اور اس کی بیعت کرنا ضروری ہے اور ان کے امام کی بیعت نہ کرنے والے دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔ سیاسی حوالے سے آغاخانیوں کا تعارف مبینہ طور پر مغربی استعمار کے آلہ کار کا چلا آرہا ہے، ان کے امام کو آغا خان کا خطاب حکومت برطانیہ نے دیا تھا اور اب بھی عالمی سطح پر آغا خان کمیونٹی کی سرگرمیاں عامۃ المسلمین کی بجائے سیکولر این جی اوز کے عالمی نیٹ ورک کا حصہ ہیں۔
اس پس منظر میں ملک کے تعلیمی نصاب و نظام کو آغا خان فاؤنڈیشن کے ساتھ منسلک کرنے کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں کہ پاکستان کی نئی نسل کے تعلیم و تربیت کے پورے نظام کو ایک ایسے اقلیتی فرقہ کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے جس کے عقائد ملک کی اکثریت کے عقائد سے ہم آہنگ نہیں ہیں اور جس کے سیاسی کردار کے بارے میں بھی عوام کے ذہنوں میں خدشات و تحفظات بڑھتے جا رہے ہیں۔ہم حکومت سے گزارش کریں گے کہ وہ اس سلسلہ میں ملک کے دینی و تعلیمی حلقوں کو اعتماد میں لیتے ہوئے اصل صورتحال کی وضاحت کرے اور تعلیمی نصاب و نظام کی اسلامی بنیادوں کے تحفظ کے لیے اپنی دستور اور ذمہ داریاں پوری کرے۔