روزنامہ نوائے وقت راولپنڈی ۲۹ نومبر ۱۹۷۶ء کے مطابق وفاقی وزیر قانون و پارلیمانی امور جناب ملک محمد اختر نے ارشاد فرمایا ہے کہ عوامی نمائندگی کے بل کے تحت برادری سسٹم، ذات پات، علاقائی عصبیت اور مذہب کے نام پر ووٹ مانگنے کو جرم قرار دے دیا جائے گا جس کی سزا تین سال تک قید ہو سکتی ہے۔
جہاں تک برادری سسٹم، ذات پات اور علاقائی عصبیت کا سوال ہے ملک صاحب کی بات سمجھ میں آتی ہے لیکن ان ناپسندیدہ امور کی فہرست میں مذہب کا اضافہ کس منطق کی رو سے کیا جا رہا ہے جبکہ اس ملک کی بنیاد ہی مذہب پر ہے۔ قیام پاکستان سے قبل جن صوبوں میں ریفرنڈم کرانے کی ضرورت محسوس ہوئی تھی ان میں تحریک پاکستان کے قائدین نے مذہب ہی کے نام پر عوام سے ووٹ مانگے تھے۔ پھر آئین میں اسلام کو مملکت کا سرکاری مذہب قرار دیا گیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ جب ملک کے بنیادی نظریہ اور آئین کی بنیاد مذہب پر ہے تو مذہب کو انتخابی ممنوعات کی فہرست میں کیسے شامل کیا جا سکتا ہے؟ اور کیا ایسا کرنا نظریۂ پاکستان اور آئین کی اسلامی دفعات کے منافی نہیں ہوگا؟
اصل بات یہ ہے کہ حکمران گروہ نے اسلام کے نام پر عوام سے جو وعدے کیے تھے انہیں پورا کرنے میں وہ ناکام رہا ہے اور اس سلسلہ میں عوام کے شدید انتخابی ردعمل سے بچنے کے لیے مذہب کو انتخابی ممنوعات کی فہرست میں شامل کرنا چاہتا ہے۔ لیکن ملک صاحب کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ مذہب کو چڑ بنا کر وہ عوام کے شدید انتخابی ردعمل سے نہیں بچ سکتے۔ عوامی محاسبہ کا دن قریب آرہا ہے اس لیے پناہ گاہیں ڈھونڈنے کی بجائے عوام کے سامنے آنے کا حوصلہ کیجئے۔