روزنامہ اسلام لاہور نے ۱۵ جنوری ۲۰۰۶ء کی اشاعت میں الفالائن کے حوالہ سے خبر دی ہے کہ اقوام متحدہ میں امریکہ کے سفیر جان بولٹن نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کوفی عنان سے اس بات پر شدید احتجاج کیا ہے کہ گزشتہ دنوں فلسطینیوں کی حمایت میں منعقدہ ایک تقریب کے دوران پیش کیے گئے دنیا کے نقشے میں اسرائیل کو شامل نہیں کیا گیا تھا۔ امریکی سفیر کا کہنا ہے کہ اس وقت ایسے اقدام کرنا جب ایران اسرائیل کو دنیا سے مٹانے کے بیانات دے رہا ہے، انتہائی غیر ذمہ دارانہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل کو دنیا کے نقشے میں شامل نہ کرنے کو اسرائیل کے خاتمے کی حمایت سمجھا جا سکتا ہے۔
اسرائیل کا قیام اب سے ساٹھ برس قبل اقوام متحدہ کی طرف سے فلسطین کو تقسیم کرنے اور یہودیوں کو اس کے ایک حصے میں اسرائیل کے نام سے اپنی قومی ریاست قائم کرنے کی اجازت دینے کی بنیاد پر عمل میں آیا تھا اور اسرائیل کو اپنے قیام کے بعد سے اب تک اپنے وجود اور تحفظ میں اقوام متحدہ کی مسلسل سرپرستی حاصل ہے، صرف اتنے فرق کے ساتھ کہ:
- جنرل اسمبلی میں، جہاں صرف قراردادیں پاس ہوتی ہیں، مظلوم فلسطینیوں کی حمایت میں اور ان پر اسرائیل کی طرف سے کیے جانے والے مظالم کے خلاف قراردادیں منظور ہوتی رہتی ہیں،
- جبکہ سلامتی کونسل میں، جو کہ فیصلوں اور ان پر عملدرآمد کی اصل اتھارٹی ہے، امریکہ اور اس کے حواری ویٹو کی قوت کے ساتھ اسرائیل کی حوصلہ افزائی اور پشت پناہی کا عمل جاری رکھے ہوئے ہیں۔
اقوام متحدہ اور مغربی ملکوں کا یہی دوہرا معیار مشرق وسطٰی میں اسرائیل کی غنڈہ گردی اور فلسطینیوں پر ہونے والے صہیونی مظالم کا اصل سبب ہے اور اسی منافقت نے عربوں اور فلسطینیوں کو اسرائیل کی دہشت گردی کے سامنے بے بس کر رکھا ہے۔ بین الاقوامی ادارے، اقوام متحدہ اور مغربی ممالک ایک طرف فلسطینیوں کو تھپکی دیتے رہتے ہیں اور ان کو تسلی دیتے ہیں کہ ان کی آزاد قومی ریاست کے قیام کی منزل قریب ہے لیکن دوسری طرف اسرائیل کے ہر ظلم، جبر، تشدد اور دھاندلی کو دفاع کے حق کے نام سے جواز فراہم کرکے اس کی عملی پشت پناہی میں پیش پیش رہتے ہیں۔ فلسطینیوں کے حوالہ سے تقریب میں پیش کیے جانے والے دنیا کے نقشہ میں اسرائیل کو شامل نہ کرنے کی یہ کارروائی بھی اسی منافقت اور دوغلے پن کا حصہ ہے جس پر امریکی سفیر نے نمائشی ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔
جہاں تک حقائق کا تعلق ہے وہ ساری دنیا کے سامنے ہیں کہ اسرائیل کا قیام دھونس اور دھاندلی کے ذریعے عمل میں آیا تھا اور اس کا وجود بقا بھی اسی دھونس اور دھاندلی کا رہین منت ہے۔ اور یہ بات دنیا کا ہر باشعور شخص جانتا ہے کہ دھونس اور دھاندلی کے فیصلے کبھی باقی نہیں رہا کرتے اور تاریخ انسانیت گواہ ہے کہ تمام تر تشدد اور جبر و استبداد کے باوجود ہمیشہ آخری فتح مظلوموں اور اہل حق کو حاصل ہوئی ہے۔