صدر مملکت نے ایک آرڈیننس کے ذریعے سرکاری محکموں کے بالاتر افسران کو یہ اختیار دے دیا ہے کہ وہ جس سرکاری ملازم کو بدعنوان سمجھیں، جسے منصبی ذمہ داریوں میں کوتاہی کرنے والا قرار دیں اور جس کے بارے میں ان کی رائے قائم ہو جائے کہ محکمہ کو اس کی ضرورت نہیں رہی، وہ اسے ملازمت سے فارغ کر سکتے ہیں۔ اور اس برطرفی کے خلاف کسی کورٹ کے پاس داد رسی کے لیے جانے کا کوئی حق اب سرکاری ملازمین کے پاس اس آرڈیننس کی رو سے باقی نہیں رہا۔
ملک کے عام قانونی حلقوں میں اس آرڈیننس کو بنیادی شہری حقوق کے منافی قرار دیا جا رہا ہے اور اس کے خلاف مختلف اطراف سے احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ عام تاثر یہ ہے کہ ورلڈ بینک، آئی ایم ایف اور دیگر عالمی اداروں کی طرف سے حکومت پر ایک عرصہ سے دباؤ تھا کہ وہ سرکاری محکموں کی ”ڈاؤن سائزنگ“ کر کے عملہ کی تعداد میں کمی کرے، فوج کی تعداد کو محدود کر کے دفاعی اخراجات کم کرے اور اس طرح اپنے اخراجات کو گھٹائے تاکہ وہ بجٹ کو متوازن بنانے کے ساتھ ساتھ ملک کے ذمے بین الاقوامی قرضوں کی قسطیں بروقت ادا کر سکے۔ کہا جاتا ہے کہ آئی ایم ایف کا یہ سارا منصوبہ اپنے قرضوں کی قسطوں کی بروقت وصولی کو یقینی بنانے کے لیے ہے اور پاکستان میں قائم ہونے والی ہر حکومت اس قسم کی شرائط کو پورا کرنے پر مجبور ہوتی ہے۔
اگر بات صرف اس حد تک ہو تو ساری خرابیوں کے باوجود اس حد تک یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ آئی ایم ایف سے ہم نے قرضے لے رکھے ہیں اور اسے معاہدوں کے مطابق قرضوں کی قسطیں واپس نہیں مل رہیں، اس لیے وہ اپنے قرضوں کی واپسی کو یقینی بنانے کے لیے حکومت پاکستان پر سرکاری اخراجات کو کم کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہا ہے تاکہ حکومت پاکستان اس کے قرضوں کی قسطیں بروقت ادا کر سکے، لیکن بدقسمتی سے اصل صورتحال یہ نہیں ہے اور اس کے پس پردہ عوامل کی نوعیت قطعی طور پر اس ظاہری منظر سے مختلف ہے۔ کیونکہ اگر صرف اتنا قصہ ہوتا تو اخراجات کم کرنے کے لیے ملازمین کی تعداد میں کمی اور سرکاری محکموں کے غریب اہل کاروں کو قربانی کا بکرا بنانے کے بجائے کوئی متبادل بلکہ اس سے بہتر تجاویز بھی پیش کی جا سکتی تھیں۔ مثلاً:
- سرکاری اخراجات میں کمی کا فطری طریقہ یہ ہے کہ اعلیٰ سطح پر پروٹوکول، پرسٹیج اور بالاتری کے اظہار، عشرت و تعیش اور نمود و نمائش پر جو بے بنیاد اور فضول اخراجات ہوتے ہیں، انھیں ختم کیا جائے۔
- اعلیٰ حلقوں کے معیار زندگی کو درمیانی سطح پر لانے کی کوشش کی جائے، سادگی اور قناعت کو عملاً اختیار کیا جائے۔
- معیار زندگی میں مسابقت کے رجحان کو کنٹرول کرنے کے لیے قانون سازی کی جائے،
- بیرونی ممالک سے غیر ضروری عشرت اور تعیش کے سامان کی درآمد پر پابندی لگائی جائے،
- اور خلافت راشدہ کے دور کو سامنے رکھتے ہوئے قوم کے مختلف طبقات کے درمیان پائے جانے والے معیار زندگی کے ہوش ربا تفاوت کو ایک معقول سطح پر کم کرنے کی مہم چلائی جائے۔
مگر آئی ایم ایف اور دیگر عالمی ادارے اس قسم کی کوئی تجویز دینے کے بجائے غریب ملازمین کی گردنوں پر چھری پھیرنے کے منصوبے پیش کر رہے ہیں جس سے صورتحال میں کوئی بہتری نہیں ہوگی بلکہ بے روزگاری میں اضافہ ہوگا اور نچلی سطح پر معاشی بحران کم ہونے کے بجائے مزید بڑھتا چلا جائے گا۔ پھر ملازمین کی ایک بڑی تعداد کو فارغ کرنے سے جو رقم بچے گی، اسے قرضوں میں ادا کرنے کی کوئی گارنٹی موجود نہیں ہے بلکہ انھی محکموں اور اداروں میں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے کہنے پر بھاری مشاہروں اور مراعات پر مشیر رکھے جا رہے ہیں جو مجموعی طور پر ان ملازمین کی تنخواہوں سے زیادہ رقوم وصول کر لیں گے جنھیں اخراجات میں کمی کے بہانے برطرف کرنا مقصود ہے۔
اس لیے ہمارے نزدیک یہ سارا چکر اخراجات میں کمی اور قرضوں کی قسطوں کی بروقت ادائیگی کے لیے نہیں بلکہ ملک کے معاشی بحران میں اضافے اور سرکاری محکموں اور اداروں پر ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کا قبضہ مزید مستحکم کرنے کے لیے چلایا جا رہا ہے، اور اس کو مکمل کرنے کے لیے وفاقی حکومت میں موجود بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے ملازمین کی کھیپ اور ملک بھر میں بیرونی امداد سے چلنے والی این جی اوز کا ایک مربوط نیٹ ورک مسلسل مصروف عمل ہے۔ اس لیے ملک کے دینی اور سیاسی حلقوں کو اس کے خلاف مؤثر طور پر آواز اٹھانی چاہیے اور اس کا راستہ روکنے کے لیے مضبوط حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت ہے۔
جہاں تک اس صدارتی آرڈیننس کے ذریعے برطرف کیے جانے والے ملازمین سے اپیل کا حق چھیننے کا تعلق ہے، وہ سراسر نا انصافی اور حق تلفی ہے اور ہمیں ایک قانون دان کی اس رائے سے اتفاق ہے کہ یہ طرز عمل تو اللہ تعالیٰ نے شیطان کے بارے میں بھی اختیار نہیں کیا تھا جس نے کھلم کھلا حکم عدولی کرتے ہوئے حضرت آدمؑ کو سجدہ کرنے سے انکار کر دیا تھا، بلکہ اسے راندۂ درگاہ قرار دینے سے قبل اس سے اس حکم عدولی کی وجہ دریافت کرتے ہوئے اسے صفائی کا موقع دیا تھا۔ اس کے ساتھ ہم اس بات کا اضافہ کرنا چاہیں گے کہ قیامت کے دن جو لوگ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں مجرم کی حیثیت سے پیش ہوں گے، ان کے جرم کے بارے میں مکمل اور یقینی علم رکھنے کے باوجود اللہ تعالیٰ صرف اپنے علم کی بنیاد پر ان میں سے کسی کے مقدمہ کا فیصلہ نہیں کریں گے، بلکہ باقاعدہ عدالتی کارروائی ہوگی، فرد جرم عائد ہوگی، وضاحت کا موقع دیا جائے گا، جرم سے انکار پر شہادتیں پیش کی جائیں گی، شہادتوں پر جرح ہوگی، ان کی صفائی اور توثیق کا مرحلہ آئے گا اور یہ سارا عدالتی پراسس مکمل ہونے کے بعد کسی مجرم کو دوزخ میں بھیجنے کا فیصلہ کیا جائے گا۔ حالانکہ خود اللہ تعالیٰ کو اپنے ذاتی علم اور اطمینان کے لیے اس سارے عمل کی کوئی ضرورت نہیں ہوگی، وہ تو ہر بات کو یقینی طور پر اور سب سے بہتر جانتا ہے مگر اس سارے عدالتی عمل کو صرف اس لیے پورا کیا جائے گا تاکہ انصاف کے تقاضے پورے ہوں اور مجرم اور اس کے ساتھ دیگر سب لوگوں کو انصاف ہوتا ہوا نظر آئے۔
اس لیے صدر مملکت جناب محمد رفیق تارڑ اور چیف ایگزیکٹو جنرل پرویز مشرف سے گزارش ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کا یقینی اور حتمی علم کسی مقدمے کے فیصلے کی بنیاد نہیں بن سکتا تو کسی بالا افسر اور مجاز اتھارٹی کے ذاتی علم اور اطمینان کو کسی سرکاری ملازم کے خلاف فیصلہ کی بنیاد بنانا بھی درست نہیں ہے۔