۸ اکتوبر کے زلزلہ کی شدت اور سنگینی کا اس بات سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اتنا عرصہ گزر جانے اور ملکی و عالمی سطح پر تمام ممکنہ اور میسر وسائل استعمال کیے جانے کے باوجود نہ تو نقصانات کا پورے طور پر تخمینہ لگایا جا سکا ہے، نہ تمام متاثرہ علاقوں تک رسائی ممکن ہو سکی ہے اور نہ ہی ملبہ میں دب جانے والے انسانوں کو زندہ یا مردہ وہاں سے نکال لینے کی کوئی صورت قابل عمل دکھائی دے رہی ہے۔ امدادی کاروائیاں جاری ہیں اور عالمی برادری، مسلم امہ اور پاکستانی قوم کی بھرپور نمائندگی ان امدادی کاروائیوں میں نظر آرہی ہے، حکومت پاکستان اور پاک فوج پوری طرح مستعد ہیں اور سیاسی و سماجی تنظیمیں بھی سرگرم کردار ادا کر رہی ہیں۔ میڈیا نے دنیا تک اس خوفناک زلزلے کی تباہ کاریوں کی خبریں پہنچانے اور عالمی برادری کو متاثرہ انسانوں کی امداد کی طرف توجہ دلانے میں جو کردار ادا کیا ہے وہ قابل تعریف ہے، اس کے ساتھ تنقید اور اعتراضات کا عمل بھی جاری ہے جو امدادی کام کو صحیح رخ پر اور صحیح رفتار سے آگے بڑھانے کے لیے مہمیز کا کام دے رہا ہے۔
زلزلہ کی تباہ کاریوں نے کچھ علمی و فکری سوالات بھی کھڑے کر دیے ہیں جن پر بحث و مباحثہ کا سلسلہ جاری ہے، ارباب فکر و دانش ان پر اپنے اپنے خیالات کا اظہار کر رہے ہیں اور اس نازک مرحلہ پر قوم کی فکری راہنمائی کے لیے یہ بھی وقت کی ایک اہم ضرورت ہے۔ ہمارے بعض دانشوروں کا خیال ہے کہ اس زلزلہ کو عذاب الٰہی سے تعبیر کرنا درست نہیں ہے اس لیے کہ اقوام کے لیے عذاب الٰہی کا سلسلہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے ساتھ ہی ختم ہوگیا تھا اور اب چونکہ قیامت تک کوئی نبی نہیں آئے گا اس لیے اللہ تعالیٰ کے کسی پیغمبر کو جھٹلانے پر اتمام حجت کے بعد جو عذاب مختلف قوموں پر آیا کرتا تھا اس کا سلسلہ بھی منقطع ہوگیا ہے، البتہ ان ارباب دانش کا خیال ہے کہ اس قسم کی قدرتی آفات اب صرف تنبیہ کا درجہ رکھتی ہیں اور انہیں عذاب الٰہی سے تعبیر کرنا درست نہیں ہے۔ بعض دوستوں نے اسے عذاب قرار نہ دینے کی ایک وجہ یہ بھی بتائی ہے کہ جن علاقوں میں یہ زلزلہ آیا ہے اور جن لوگوں کی اکثریت اس سے متاثر ہوئی ہے وہ دین سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں اور ان میں ایسے جرائم اور بغاوت کا ماحول موجود نہیں تھا جسے ’’عذاب الٰہی‘‘ کے نزول کی وجہ قرار دیا جا سکے، اس لیے اس امر پر تردّد کا اظہار کیا جارہا ہے کہ اس زلزلہ اور اس کی تباہ کاریوں کو قدرت کی طرف سے سزا یا عذاب کی شکل قرار دیا جائے۔
ان سوالات کا جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی روشنی میں جائزہ لیا جائے تو ہمیں ان دونوں سوالوں کا جواب مل جاتا ہے مثلاً:
- ترمذی شریف میں حضرت حذیفہؓ سے روایت ہے کہ جناب نبی اکرمؐ نے فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے تم امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا ضرور اہتمام کرو گے ورنہ قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ تم پر اپنی طرف سے عذاب نازل کرلے پھر ایسا بھی ہوگا کہ تم دعائیں کروگے مگر تمہاری دعائیں قبول نہیں کی جائیں گی۔
- ابو داؤد شریف میں سیدنا حضرت صدیق اکبرؓ سے روایت ہے کہ جناب نبی اکرمؐ نے فرمایا کہ جب لوگ معاشرہ میں منکرات کو دیکھیں گے اور انہیں تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کریں گے تو قریب ہے کہ ان پر اللہ تعالیٰ کا عمومی عذاب نازل ہوجائے۔ اسی طرح آنحضرتؐ نے فرمایا کہ جب لوگ ظالم کو ظلم کرتے دیکھیں گے اور اس کا ہاتھ پکڑ کر ظلم سے نہیں روکیں گے تو اللہ تعالیٰ کے عمومی عذاب کا شکار ہوسکتے ہیں، اس روایت میں یہ بھی ہے کہ جس قوم میں نافرمانی کے اعمال ہو رہے ہوں اور لوگ انہیں روکنے کی قدرت رکھنے کے باوجود نہ روکیں تو قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ ان پر عمومی عذاب نازل فرمادیں۔
- ابوداؤد میں حضرت جریر بن عبداللہؓ سے بھی یہی روایت ہے کہ جناب نبی اکرمؐ نے فرمایا کہ جس قوم میں نافرمانی کے اعمال ہوتے ہوں اور وہ لوگ روکنے کی طاقت رکھنے کے باوجود روکنے کی کوشش نہ کریں تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عذاب کا شکار ہوسکتے ہیں۔
- شرح السنۃ میں حضرت عدی بن عدی کندیؒ سے روایت ہے کہ ان کے دادا محترم نے جناب نبی اکرم ؐ کو یہ فرماتے سنا کہ اللہ تعالیٰ عام لوگوں کو چند افراد کے گناہوں اور بغاوت پر سزا نہیں دیتے لیکن جب یہ کیفیت ہوجائے کہ گناہ اور نافرمانی کے اعمال کھلے بندوں ہو رہے ہوں اور دوسرے لوگ روکنے کی طاقت رکھنے کے باوجود نہ روک رہے ہوں تو اللہ تعالیٰ عام و خاص لوگوں کو عذاب میں مبتلا کر دیتے ہیں۔
- ابو داؤد میں حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ سے روایت ہے کہ جناب نبی اکرمؐ نے فرمایا کہ میری یہ امت مرحومہ ہے اس کے لیے آخرت میں عذاب نہیں ہے بلکہ اس کا عذاب دنیا میں ہی ہے اورو ہ فتنوں، زلزلوں اور باہمی قتل وقتال کی شکل میں ہوگا۔
- ام المومنین ام سلمہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے جناب نبی اکرمؐ سے دریافت کیا کہ اگر نیک لوگ ہمارے درمیان موجود ہوں تب بھی عمومی عذاب آسکتا ہے؟ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب خباثتوں کی کثرت ہوگی تو ایسا ہی ہوگا۔
ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آسمانی آفتوں کی صورت میں عذاب الٰہی کا سلسلہ بالکل منقطع نہیں ہوا بلکہ امت محمدیہ پر آنے والی اس قسم کی آفات کو خود جناب نبی اکرمؐ نے ’’عذاب‘‘ اور ’’عقاب‘‘ کے الفاظ سے تعبیر کیا ہے۔ البتہ آنحضرتؐ کی دعا کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے یہ وعدہ فرما رکھا ہے کہ پوری امت مجموعی طور پر ایسے کسی عذاب کا شکار نہیں ہوگی اور حضورؐ کی امت پر آسمانی عذاب نازل نہ ہونے کی صحیح توجیہ یہی ہے کہ پوری امت بیک وقت کسی آسمانی عذاب کا نشانہ نہیں بنے گی کیونکہ پہلی امتوں پر جب کسی پیغمبر کی تکذیب پر عذاب آتا تھا تو وہ جزوی نہیں ہوتا تھا بلکہ پوری کی پوری قوم اس میں ہلاک ہو جایا کرتی تھی، جناب نبی اکرمؐ کی دعا پر اللہ تعالیٰ نے ان کی امت کو ایسے عذاب سے محفوظ رکھنے کا وعدہ فرمایا ہے۔
اس زلزلے کے حوالہ سے اخبارات میں شائع ہونے والے بعض مضامین اور بیانات میں ایک بات ہمیں یہ کھٹکی ہے کہ بعض بیانات میں قدرتی آفات کا مقابلہ کرنے کا عزم جھلکتا ہے، ممکن ہے مقابلہ کی بات کہنے والوں کا مطلب و مقصد وہ نہ ہو جو اس کے ظاہری مفہوم سے جھلکتا ہے لیکن محسوس ایسا ہی ہوتا ہے کہ جیسے زلزلے کا مقابلہ کرنے کا قصد کیا جا رہا ہے۔ ہمارے خیال میں اس سلسلہ میں احتیاط کی ضرورت ہے اس لیے کہ قدرتی آفات کا مقابلہ نہیں ہوا کرتا اور نہ ہی کوئی آج تک کسی قدرتی آفت کا مقابلہ کرسکا ہے، اس کی بجائے اگر یہ کہا جائے تو زیادہ مناسب بات ہوگی کہ ہم اس زلزلے کے نقصانات کا صبر و حوصلہ کے ساتھ سامنا کریں گے اور ان کی تلافی کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔ ام المومنین حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ آسمان پر بادل اور آندھی کے آثار دیکھ کر جناب نبی اکرمؐ پریشان ہو جایا کرتے تھے اور استغفار کی کثرت کر دیتے تھے۔ ایک روز حضرت عائشہؓ نے اس کے بارے میں دریافت کر لیا تو آپؐ نے فرمایا کہ بعض امتوں پر خدا کا عذاب بادل اور آندھی کی صورت میں آیا تھا، اس لیے میں یہ چیزیں دیکھ کر پریشان ہوجاتا ہوں اور استغفار کثرت سے پڑھنے لگتا ہوں۔ ہمارے لیے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ یہی ہے کہ قدرتی آفات کا مقابلہ کی بات کرنے کی بجائے اجتماعی طور پر توبہ و استغفار کا راستہ اختیار کریں اور قدرت کی ناراضگی پر پریشانی اور اضطراب کا اظہار کریں، البتہ اس کے ساتھ حوصلہ قائم رکھنے اور صبر کا ماحول پیدا کرنے کی بھی ضرورت ہے کہ قومیں صبر و حوصلہ کے ذریعہ ہی ایسے مراحل میں سرخرو ہوا کرتی ہیں۔
ایک اور بات جو ایک دانشور دوست کے مضمون میں اس حوالہ سے کھٹکی ہے یہ ہے کہ انہوں نے حاجی حضرات کو مشورہ دیا ہے کہ حج ترک کرکے اس کی رقم زلزلہ سے متاثر ہونے والوں کو دے دیں یا ان کی بحالی کی مد میں خرچ کر دیں۔ نفلی حج یا عمرہ کی صورت میں تو یہ بات درست ہے اور ہم بھی اس کی تائید کرتے ہیں اس لیے کہ نفلی عبادت سے حقوق العباد بہرحال مقدم ہیں، لیکن فرائض و واجبات کے بارے میں اس بات کی تائید نہیں کی جاسکتی۔ کوئی صاحب اگر فرض حج کے لیے جا رہے ہیں تو انہیں حج ترک کرنے کا یہ مشورہ درست نہیں ہے، فرض بہرحال فرض ہے جو اسی شکل میں ادا کرنے سے ادا ہوگا، اس کی کوئی اور متبادل شکل نہیں ہوتی۔ البتہ نفلی حج یا عمرہ کرنے والے حضرات اس نفلی حج اور عمرہ پر اپنے متاثرہ بھائیوں کی مدد اور اجڑے ہوئے خاندانوں کی بحالی کو ترجیح دیں گے تو وہ دوہرے اجر کے مستحق ہوں گے، نیت کی وجہ سے حج یا عمرہ کا ثواب تو انہیں مل ہی جائے گا جبکہ اپنے متاثرہ بھائیوں کی مدد کا ثواب مستقل ملے گا اور آج کے حالات میں اس سے بہتر اور کوئی اجر نہیں ہے۔
پاکستانی قوم جس ہم آہنگی اور یکجہتی کے ساتھ اپنے متاثرہ بھائیوں کی امداد میں مصروف ہے وہ اس المناک سانحہ کا ایک روشن پہلو ہے اور اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ قوم کو صحیح قیادت میسر آجائے تو اس میں ایک زندہ بیدار اور متحد قوم بننے کی صلاحیت موجود ہے، خدا کرے یہ جذبہ قائم رہے اور جس طرح اپنے متاثرہ اور اجڑے ہوئے بھائیوں کی امداد و تعاون کے لیے ہم ایک نظر آرہے ہیں، دیگر ملی و قومی مقاصد کی طرف پیشرفت میں بھی ہم اسی یکجہتی اور ہم آہنگی کا مظاہرہ کر سکیں، آمین یا رب العالمین۔