وفاقی شرعی عدالت بحران کی زد میں

   
جون ۲۰۰۶ء

وفاقی شرعی عدالت ان دنوں بحران کا شکار ہے اور روزنامہ پاکستان لاہور ۲۰ مئی ۲۰۰۶ء کی رپورٹ کے مطابق لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس نسیم سکندر نے وفاقی شرعی عدالت کے چیف جسٹس کا منصب قبول کرنے سے معذرت کر لی ہے۔ انہیں وفاقی شرعی عدالت کے چیف جسٹس مسٹر جسٹس اعجاز یوسف کی سبکدوشی کے بعد صدارتی نوٹیفیکیشن کے ذریعے چیف جسٹس مقرر کیا گیا تھا لیکن انہوں نے اس منصب کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ مذکورہ رپورٹ میں اس کی مختلف وجوہ بیان کی گئی ہیں جن میں ایک یہ ہے کہ کسی اعلٰی عدالت کی سربراہی کے لیے دوسری عدالت کے جسٹس کی تقرری کے بعد وہ اس عدالت کا جج نہیں رہ سکتے جبکہ وہ وفاقی شرعی عدالت کے چیف جسٹس کی بجائے لاہور ہائیکورٹ کے جج کے طور پر کام کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ چنانچہ خبر کے مطابق وفاقی شرعی عدالت کو بحران سے بچانے کے لیے مسٹر جسٹس ایس اے ربانی کو قائم مقام چیف جسٹس مقرر کیا جا رہا ہے۔

وفاقی شرعی عدالت کا قیام جنرل ضیاء الحق مرحوم کے دور میں عمل میں لایا گیا تھا اور اس کے بعد فاضل عدالت نے متعدد اہم فیصلے صادر کیے ہیں لیکن اس عدالت کا وجود تب سے بین الاقوامی اور ملکی سیکولر حلقوں کی آنکھوں میں اس لیے کھٹک رہا ہے کہ اس میں قرآن و سنت کی تعبیر و تشریح میں جدید قانون کے ماہرین کے ساتھ جید علماء کرام کو بھی شریک کیا گیا ہے۔ اور اسی بنا پر وفاقی شرعی عدالت کو مسلسل تنقید و اعتراض کا نشانہ بنایا جا رہا ہے حتٰی کہ بعض حلقوں کی طرف سے اسے سرے سے ختم کرنے کا مطالبہ بھی کیا جا رہا ہے۔ اگرچہ اس عدالت کے ارکان کی اکثریت جدید قانون کے ماہرین کی ہوتی ہے اور عدالت کی سربراہی کا منصب بھی کسی جسٹس کے پاس ہوتا ہے، لیکن چونکہ اس میں قرآن و سنت کے ماہر علماء کی شرکت ایک درجہ میں تسلیم کی گئی ہے اس لیے سیکولر حلقوں کو وفاقی شرعی عدالت مسلسل کھٹکتی رہتی ہے۔ حالانکہ اصولی طور پر قرآن و سنت کی تعبیر و تشریح اور شرعی معاملات کے تعین کے لیے وفاقی شرعی عدالت کے تمام ارکان اور سربراہ کے لیے یہ ضروری ہونا چاہیے کہ وہ قرآن و سنت کا مہارت کے درجہ کا علم رکھتے ہوں، مگر سیکولر حلقوں کی ’’مولوی دشمنی‘‘ کا اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ اس صورت میں بھی قرآن و سنت کی تعبیر و تشریح کے دستوری اور قانونی عمل میں علماء کرام کی شرکت کو گوارا کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ وفاقی شرعی عدالت کے ارکان کی اکثریت غیر علماء کی ہو اور سربراہی بھی غیر عالم کے پاس ہو۔

مگر ہمارے نزدیک وفاقی شرعی عدالت کے مذکورہ بالا بحران کی اصل وجہ اور ہے۔ وہ یہ ہے کہ ملازمت کے تحفظ اور قواعد و ضوابط کے حوالے سے وفاقی شرعی عدالت کو قانونی طور پر وہ درجہ حاصل نہیں ہے جو ملک کی دیگر اعلٰی عدالتوں کے لیے طے شدہ ہے۔ اور قواعدِ کار اور ملازمت کے ضوابط کے حوالے سے وفاقی شرعی عدالت کی ملازمت ملک کی دوسری اعلٰی عدالتوں سے کمتر درجہ کی سمجھی جاتی ہے، جس کی وجہ سے کسی ہائیکورٹ کے باقاعدہ جج کو وفاقی شرعی عدالت میں منتقل ہونے میں حجاب محسوس ہوتا ہے اور عدالتی حلقوں میں اسے ترقی یا تبادلہ کی بجائے تنزلی کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔

گزشتہ دنوں ایک خبر شائع ہوئی تھی کہ چیف جسٹس کا تقرر نہ ہونے کی وجہ سے وفاقی شرعی عدالت کا وجود ہی تحلیل ہو سکتا ہے اس لیے کہ اس عدالت کا وجود چیف جسٹس کے منصب کے ساتھ ہے اور اگر اس کا تقرر نہ کیا جائے تو عدالت سرے سے ختم ہو جائے گی، جبکہ دوسری اعلٰی عدالتوں میں یہ صورتحال نہیں ہے۔ اسی طرح مبینہ طور پر وفاقی شرعی عدالت کے جج صاحبان کے تقرر اور ملازمت کے تحفظ کے ضوابط اور دیگر قواعد کار بھی دوسری عدالتوں سے مختلف ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ مذکورہ بالا بحران کے ساتھ ساتھ دوسری اعلٰی عدالتوں اور وفاقی شرعی عدالت کے درمیان مذکورہ بالا مبینہ فرق کا بھی جائزہ لیا جائے اور اسے دور کر کے وفاقی شرعی عدالت کو ہر لحاظ سے دوسری اعلٰی عدالتوں کے برابر لایا جائے۔ تاکہ کسی جج کو اس میں کام کرنے میں حجاب محسوس نہ ہو اور شریعتِ اسلامیہ کے حوالے سے قائم کی جانے والی یہ اعلٰی عدالت اپنے فرائض پورے وقار کے ساتھ ادا کر سکے۔

   
2016ء سے
Flag Counter