(مولانا زاہد الراشدی کا گزشتہ کم و بیش تیس برس سے معمول ہے کہ عید کی نماز شہر کی قدیمی عیدگاہ (نزد قبرستان کلاں، مبارک شاہ روڈ، گوجرانوالہ) میں پڑھاتے ہیں اور اس موقع پر حالات حاضرہ کی مناسبت سے دس پندرہ منٹ کا مختصر خطاب کرتے ہیں۔ اس سال عید الاضحیٰ کے موقع پر ان کے خطاب کا خلاصہ درج ذیل ہے۔ ادارہ الشریعہ)
آج عید کا دن ہے اور دنیا بھر میں مسلمان عید کی خوشی کے ساتھ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی عظیم قربانی کی یاد تازہ کر رہے ہیں۔ صاحبِ استطاعت حضرات جانور ذبح کریں گے اور اس عزم کا اظہار کریں گے کہ مولائے کریم! آج ہم آپ کی رضا اور خوشی کے لیے جانوروں کی قربانی دے رہے ہیں، کل اگر ضرورت پڑی اور آپ کا حکم ہوا تو اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے سے بھی گریز نہیں کریں گے۔ قربانی دراصل اسی عزم کو تازہ کرنے کا نام ہے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی گردن پر چھری رکھ دی اور اپنی طرف سے انہیں قربان کر دیا۔
آج اسی جذبہ کو زندہ کرنے کی ضرورت ہے اور عالم اسلام کو اس جذبہ کی ضرورت ہے کیونکہ ہم مسلمان دنیا میں سوا ارب سے زیادہ تعداد میں ہونے کے باوجود عزت و وقار کی زندگی بسر نہیں کر رہے اور آج کی دنیا میں ہماری حالت قابل رشک نہیں ہے۔ آج پھر اسلام اور دیندار مسلمان دنیا بھر کے طعنوں کا نشانہ بنے ہوئے ہیں اور اہل دین ایک بار پھر آزمائشوں اور مصیبتوں کا شکار ہیں۔ میں نے آپ کے سامنے سورۃ الکوثر کی تلاوت کی ہے جو قرآن کریم کی سب سے چھوٹی سورت ہے اور اس میں اللہ تعالیٰ نے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کرتے ہوئے بالکل اسی طرح کی کیفیت کا حوالہ دیا ہے۔ جناب رسول اکرمؐ کی حیاتِ مبارکہ کا مکی دور آزمائشوں اور تکلیفوں کا دور تھا، طعنوں اور کردار کشی کا دور تھا، جس کے منہ میں جو بات آتی تھی کہہ دیتا تھا۔ کوئی مجنوں کہہ رہا ہے، کوئی کاہن کہہ رہا ہے اور کوئی شاعر کے لقب سے پکار رہا ہے۔ یہ کردار کشی تھی اور طعن و تشنیع کے تیر تھے جو مسلسل برسائے جا رہے تھے۔ اسی دوران کہنے والوں نے یہ بھی کہہ دیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تو ’’ابتر‘‘ ہیں (معاذ اللہ)۔ یعنی ان کی نرینہ اولاد نہیں ہے، کوئی بیٹا جوان نہیں ہوا جو ان کے بعد اس مشن کو سنبھال سکے اس لیے ان کے دین کا معاملہ ان کی زندگی تک ہے اور ان کے بعد اس دین کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ اس بات نے خود آنحضرتؐ کو پریشان کر دیا جس پر اللہ تعالیٰ نے سورۃ الکوثر نازل کر کے آپؐ کو تسلی دی۔
آج کے عالمی منظر پر ایک نظر ڈال لیں، آج بھی اسلام اور اس کے حاملین کو اسی طرح کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، آج بھی اہل دین کے لیے مجنون کا خطاب ہے اور آج بھی اسلام کے بارے میں یہی کہا جا رہا ہے کہ آج کی دنیا میں اس دین کی کوئی جگہ نہیں ہے اور اس دین کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ اس لیے سورۃ الکوثر میں آنحضرتؐ سے جو کچھ کہا گیا ہے وہ آج کے حالات میں ہمارے لیے بھی راہ عمل ہے اور ہمیں اس سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔
مکہ کے مشرکوں کے طعنوں کے جواب میں جناب رسول اکرمؐ کو تسلی دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آپ گھبرائیں نہیں اور پریشان نہ ہوں ہم نے آپ کو ’’کوثر‘‘ عطا کی ہے۔ کوثر کا معنیٰ جمہور مفسرین نے ’’خیر کثیر‘‘ کیا ہے جس کی تعبیر میں یوں کیا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ جو کچھ ہم نے آپ کو دیا ہے دونوں جہانوں کی خیر اسی میں ہے اس لیے اس کے ہوتے ہوئے آپ کو کسی معاملہ میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، آپ دیکھ لیں گے کہ آپ کو ابتر ہونے کا طعنہ دینے والے خود ابتر ہیں اور دنیا کے نظام میں ان کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریمؐ سے فرمایا کہ آپ کے کرنے کے کام دو ہیں ’’فصل لربک وانحر‘‘ ایک یہ کہ نماز کی پابندی کرتے رہیں اور دوسرا یہ کہ قربانی دیتے رہیں:
- یہاں مراد پانچ وقت کی نماز بھی ہے جس کی پابندی ہر مسلمان پر لازمی ہے اور اس سے مراد عمومی معنیٰ کے لحاظ سے ’’بندگی‘‘ بھی لیا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بندگی پر قائم رہیں اور خود کو اس کے حوالہ کر دیں۔
- اسی طرح ’’نحر‘‘ سے مراد یہ قربانی بھی ہے کہ عید الاضحیٰ کے موقع پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یاد کو تازہ کرتے ہوئے جانور ذبح کریں، اور عمومی مفہوم لیا جائے تو یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر جس چیز کو بھی قربان کرنے کی ضرورت پڑے اس سے دریغ نہ کیا جائے۔ یہ قربانی جذبات و خواہشات کی بھی ہے اور مفادات اور تقاضوں کی بھی کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے جس طرح جانوروں کی گردنوں پر چھری رکھتے ہیں اسی طرح خواہشات اور جذبات کو بھی ذہح کر دیں اور اللہ تعالیٰ کے سچے دین کی سربلندی کی راہ میں جو چیز بھی رکاوٹ بنے اسے قربان کر دیں۔
اللہ تعالیٰ وعدہ کر رہے ہیں کہ ان دو باتوں کا اہتمام آپ کر لیں تو طعنے دینے والے اور کردار کشی کرنے والے دشمن کو شکست دے کر بے نام و نشان میں کر دوں گا۔ یہ وعدہ ہمارے ساتھ بھی ہے اور یہ سبق ہمارے لیے بھی ہے کہ دنیا کے پراپیگنڈا کی پروا نہ کریں، دنیا والے دین اسلام اور دیندار لوگوں کے بارے میں جو کچھ کہہ رہے ہیں، جو طعنے دے رہے ہیں اس سے نہ گھبرائیں، پریشان نہ ہوں بلکہ دین اسلام پر قائم رہیں، نماز اور بندگی جاری رکھیں اور قربانی دیتے رہیں۔ طعنے دینے والوں اور کردارکشی کرنے والوں کا نام و نشان تک مٹ جائے گا، ان کا کوئی مستقبل نہیں ہے، ان کے پاس (فلاح و نجات) کا کوئی پروگرام نہیں ہے اور ان کے پاس کوئی مشن نہیں ہے۔ سب سے بہتر پروگرام تمہارے پاس ہے، سب سے بہتر مشن تمہارا ہے اور اس کے ساتھ مخلص رہو گے تو مستقبل بھی صرف تمہارا ہے۔
اس حوالہ سے آج ہم اپنے آپ کو دیکھیں، اپنا جائزہ لیں اور اپنا احتساب کریں کہ ہم کس مقام پر کھڑے ہیں؟ اس جسارت پر مجھے معاف کریں کہ آج ہم سب اسلام کا نام لیتے ہیں، اسلامی نظام کی بات کرتے ہیں اور اسلام کی سربلندی کے لیے جذبات کا اظہار کرتے ہیں لیکن اسلام کے ساتھ ہمارا طرز عمل کیا ہے؟ ہماری اسلام کے ساتھ وابستگی بالکل اسی طرح مشروط ہو چکی ہے جس طرح طائف والوں نے فتح مکہ کے بعد جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اسلام قبول کرنے کے لیے شرطیں پیش کی تھیں۔ مولانا شبلی نعمانیؒ نے ’’سیرت النبیؐ‘‘ میں اس کی تفصیل بیان کی ہے کہ فتح مکہ کے بعد طائف والوں کا وفد مدینہ منورہ آیا اور آنحضرتؐ کی خدمت میں پیش ہو کر عرض کیا کہ ہم اسلام قبول کرنا چاہتے ہیں مگر ہماری چند شرطیں ہیں۔ پہلی شرط یہ ہے کہ ہم شراب نہیں چھوڑ سکیں گے، دوسری یہ کہ زنا کے بغیر ہمارا گزارا نہیں ہوتا، تیسری یہ کہ ہمارے تمام تر کاروبار کی بنیاد سود پر ہے اس سے دستبردار نہیں ہوں گے، چوتھی یہ کہ نماز کی پابندی ہم سے نہیں ہوگی، پانچویں شرط یہ کہ زکوٰۃ ادا کرنا ہمارے لیے مشکل ہوگا، اور چھٹی شرط یہ ہے کہ ہم جہاد میں آپ کے ساتھ شریک نہیں ہوں گے۔ یہ شرطیں اگر منظور ہیں تو ہاتھ بڑھائیے ہم آپ کے ہاتھ پر بیعت کر کے اسلام قبول کرنے کا اعلان کرتے ہیں۔
ان شرائط پر ایک بار پھر غور کیجئے اور یہ بھی دیکھئے کہ کیا آج اسلام کو قبول کرنے اور اسلامی نظام کو نافذ کرنے کے لیے ہماری عملی شرائط بھی یہی نہیں ہیں؟ ہم زبان سے بے شک نہ کہیں مگر ہمارا طرزِ عمل گواہ ہے اور ہماری اجتماعی زندگی شہادت دے رہی ہے کہ ہم اسلام اور اسلامی نظام سے انہی رعایتوں کے طلبگار ہیں جن کا مطالبہ طائف والوں نے کیا تھا۔ سود کے بغیر ہمارا گزارا نہیں ہو رہا، شراب اور زنا ہمارے کلچر کا حصہ بن گئے ہیں، نماز کی پابندی کے لیے سختی کے سرکاری اقدامات ہمیں قبول نہیں ہیں، زکوٰۃ و جہاد کے احکام بوجھ محسوس ہو رہے ہیں، اور عمل و کردار کے حوالہ سے ہم بھی اسی مقام پر کھڑے ہیں جہاں طائف والے کھڑے تھے کہ پورے کا پورا اسلام ہمیں ہضم نہیں ہو رہا۔
اس لیے آج پھر اس سبق کو دہرانے کی ضرورت ہے اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد گرامی سے راہنمائی حاصل کرنے کی ضرورت ہے جو آپؐ نے طائف والوں کی شرطوں کے جواب میں فرمایا تھا اور شرائط مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسلام میں داخل ہونا ہے تو سب شرطیں چھوڑ کر آؤ اور پورے کے پورے اسلام میں داخل ہو جاؤ۔ چنانچہ طائف والوں کو اپنی شرطوں سے دستبردار ہونا پڑا تھا اور انہوں نے شرطیں واپس لے کر اسلام قبول کرنے کا اعلان کیا تھا۔ آج ہمارے لیے بھی راہ عمل یہی ہے کہ اسلام کو مکمل طور پر اپنائیں، تمام تر شرائط اور ذہنی تحفظات کو جھٹک دیں، اسلام کے ساتھ بے لچک وابستگی قائم کریں، نماز کی پابندی کریں اور قربانی دیتے رہیں۔ جانوروں کی قربانی بھی اور اسلام کی راہ میں رکاوٹ بننے والی خواہشات، جذبات اور تقاضوں کی قربانی بھی۔ اور مخالفانہ پراپیگنڈا، کردار کشی اور طعن و تشنیع کی پروا نہ کرتے ہوئے اسلام کی سربلندی کے لیے کام کریں۔
آج کی عید کا ہمارے لیے یہی پیغام ہے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی میں ہمارے لیے یہی سبق ہے۔ اس کے ساتھ ہی ایک اور بات کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ قربانی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندوں کی مہمانی بھی ہے اس لیے کوشش کریں کہ آپ کے اردگرد کوئی اللہ کا بندہ اس مہمانی سے محروم نہ رہ جائے۔ ان لوگوں کا خاص خیال رکھیں جنہیں عام دنوں میں گوشت میسر نہیں آتا، ان کا بھی آپ کی قربانی میں حق ہے بلکہ ان کا حق زیادہ ہے۔ اپنے اردگرد گلی محلہ میں اور کنبہ برادری میں ایسے لوگوں کو تلاش کریں اور قربانی کے گوشت سے اپنے فریزر بھرنے کی بجائے غرباء اور مستحقین کو کھلائیں اور ان کی مہمانی کریں۔ وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔