۲۷ مارچ کو اسلام آباد میں ایک اہم سیمینار میں شرکت کا موقع ملا جس کا اہتمام سابق وفاقی وزیر مملکت برائے مذہبی امور صاحبزادہ پیر سید محمد امین الحسنات شاہ نے کیا اور انہی کی صدارت میں منعقد ہوا جس میں مولانا عبد الغفور حیدری، راجہ محمد ظفر الحق، مولانا غلام محمد سیالوی، ڈاکٹر قبلہ ایاز، علامہ محمد امین شہیدی، علامہ سید حامدسعید کاظمی، پیر نقیب الرحمن، علامہ امین شہیدی، علامہ عارف واحدی، پیرمعظم الحق، صاحبزادہ سلطان احمد علی، مظہر برلاس، ڈاکٹر محمد حبیب اللہ چشتی، پیر محمد ممتاز احمد ضیاء، علامہ احسان الحق صدیقی، علامہ ساجد چشتی، علامہ رانا عبدالرحیم شوکت اور مختلف مکاتب فکر کے دیگر سرکردہ راہنماؤں نے شرکت کی اور ملک میں رواداری، بین المذاہب ہم آہنگی اور قومی وحدت کے فروغ کے حوالہ سے جدوجہد کو آگے بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ راقم الحروف بھی اپنے رفقاء پروفیسر ڈاکٹر محمد اکرم ورک، حافظ عبد الوحید اور دیگر حضرات کے ہمراہ شریک ہوا اور کچھ معروضات پیش کیں۔ سیمینار میں ایک مشترکہ اعلامیہ منظور کیا گیا جو درج ذیل ہے۔
’’اعلامیہ (میثاق پاکستان)۔
بتاریخ ۲۷ مارچ ۲۰۱۹ء، اسلام آباد ہوٹل، اسلام آباد۔
پاکستان میں امن اور رواداری کے فروغ کے لیے مختلف سیاسی، مذہبی، سماجی حلقوں کی طرف سے متفقہ طور پر جاری کیا گیا۔
- روادار پاکستان ہی ہماری نسلوں کے پر امن مستقبل کا ضامن ہے، اس فکر کے فروغ کے لیے روحانی، علمی، مذہبی، سیاسی، سماجی تمام طبقات اپنا بھرپور کردار ادا کریں گے۔
- مذہبی اور نظریاتی آزادی ہر پاکستانی کا بنیادی حق ہے، جبراً نظریات مسلط کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
- مذہب، عقیدہ اور نظریات سے بالاتر ہو کر ہر مظلوم کے مددگار ہوں گے۔
- غیر ریاستی مسلح جتھے کسی بھی پر امن قوم اور ملک کے ’’اثاثے‘‘ نہیں ہوتے۔ نیشنل ایکشن پلان کے تحت ان کے خلاف کاروائی کی حمایت کرتے ہیں۔
- فکری آلودگی پھیلانے والے تمام ذرائع کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر نفرت انگیز اور حیا باختہ مواد کی اشاعت و ترویج کو روکا جائے۔
- گالی گلوچ اور تکفیری کلچر کی ہر جگہ مذمت اور حوصلہ شکنی کی جائے گی۔
- سانحہ نیوزی لینڈ نفرت اور تعصب کی شکست کا عالمی مظہر ہے۔ ہم نیوزی لینڈ کی قیادت اور قوم کو مثالی یکجہتی پر خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔
- مقبوضہ کشمیر میں مودی سرکار اور بھارتی افواج کے ہاتھوں بے گناہ کشمیریوں کا خون ناحق جاری ہے جو سانحہ نیوزی لینڈ جیسی عالمی ہمدردی کا تقاضہ کرتا ہے۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ اقوام عالم اس قتل و غارت کو رکوانے میں اپنا کردار ادا کریں۔
- مذہبی رواداری اور برداشت کلچر کے فروغ کے لیے صوفیاء کرام کے افکار و نظریات اہم کردار ادا کر سکتے ہیں، جو قومی سطح پر ترویج و اشاعت کا تقاضا کرتے ہیں۔
- تمام درس گاہوں میں اخلاقی اور قومی اقدار کی بحالی سب سے اہم قومی فریضہ ہے، اسے بھرپور طریقے سے ادا کیا جائے۔
- علامہ محمد تقی عثمانی پر قاتلانہ حملہ قابل مذمت ہے اور پاکستان کا امن تباہ کرنے کی بہت بڑی سازش ہے۔ قومی مذہبی شخصیات کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔‘‘
راقم الحروف نے اپنی گفتگو میں عرض کیا کہ پاکستان کی بنیاد ہی رواداری پر تھی کہ تحریک پاکستان کے قافلہ میں قائد اعظم محمد علی جناح کے ساتھ خان لیاقت علی خان، سردار عبد الرب نشتر، اور سر آغا خان کے ساتھ مولانا شبیر احمد عثمانی، پیر صاحب مانکی شریف، مولانا عبد الحامد بدایونی، مولانا ظفر احمد عثمانی، مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی اور تمام مذہبی مکاتب فکر کے زعماء شامل تھے اور سب نے مل کر اس مہم میں سرخروئی حاصل کی تھی۔ جبکہ قیام پاکستان کے بعد بھی مختلف مواقع پر رواداری اور یکجہتی کا بھرپور اظہار ہوتا رہا ہے بالخصوص ملکی سالمیت اور دفاع کے حوالہ سے ۱۹۶۵ء اور ۱۹۷۱ء کی جنگ میں اور حالیہ بھارتی جارحیت کے موقع پر دنیا نے اس کا مشاہدہ کیا ہے۔ ملک کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت میں تحریک ختم نبوت اور تحفظ ناموس رسالت میں قوم کا اتحاد اس کا مظہر ہے اور پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے ۱۹۷۷ء کی تحریک نظام مصطفٰیؐ اور ۱۹۸۷ء کی تحریک نفاذ شریعت بل اس کے شواہد ہیں۔ اس لیے مسئلہ قومی رواداری کے اہتمام کا نہیں ہے کیونکہ جب بھی کسی ملی اور قومی حوالہ سے ضرورت پڑی ہے اس یکجہتی، رواداری اور وحدت کا اظہار ہوا ہے اور آئندہ بھی ہوتا رہے گا، ان شاء اللہ تعالٰی، البتہ اس جذبہ و احساس کو اگلی نسل تک منتقل کرنے اور نچلی سطح پر لانے کی طرف توجہ دینے کی ضرورت اور خلا بدستور موجود ہے۔
قومی سوچ، وحدت، یکجہتی، رواداری اور مذہبی اقدار کی پاسداری کے لیے تین اہم شعبوں کو ہمہ تن متوجہ کرنا ضروری ہے۔ سب سے پہلے یہ ذمہ داری ریاستی تعلیمی نظام کی ہے کہ وہ نئی نسل کو اس کے لیے مناسب تعلیم دے، دوسرے نمبر پر میڈیا کا یہ فریضہ ہے کہ وہ خود کو اس کے لیے وقف کر دے، اور تیسرے نمبر پر منبر و محراب کا یہ کام ہے کہ وہ اپنے خطاب و پیغام میں ان امور کو ترجیح دے۔
بدقسمتی سے پاکستان کی تہذیبی شناخت، بین المذاہب رواداری، بین المسالک ہم آہنگی اور قوم کے تمام طبقات کے درمیان یکجہتی کا اہتمام و فروغ ان اداروں کے بنیادی ایجنڈے کا حصہ نہیں ہے جس کی وجہ سے خلفشار کا ماحول دکھائی دیتا ہے۔ اور قومی سطح پر اسلام، ملک اور ملت کے حوالہ سے جو یکجہتی اور ہم آہنگی ہر ضرورت کے موقع پر دکھائی دیتی ہے وہ نہ تو اگلی نسل تک منتقل ہوتی نظر آرہی ہے اور نہ ہی محلہ، گلی اور گاؤں کی نچلی سطح تک اس کا دائرہ وسیع ہو رہا ہے۔ اس لیے اصل ضرورت تعلیم، میڈیا اور منبر و محراب کو اس رخ پر لانے اور ان کے نظام و ماحول میں تبدیلی پیدا کرنے کی ہے کیونکہ اس کے بغیر یہ اہم قومی مقصد حاصل نہیں ہو سکتا چنانچہ ہم سب کو اس کی طرف سنجیدہ توجہ دینی چاہیے۔