ترکی میں اسلام اور جمہوریت آمنے سامنے

   
اپریل ۱۹۹۷ء

کمیونزم کی شکست اور سوویت یونین کے بکھر جانے کے بعد مغرب نے اسلام کو اپنا سب سے بڑا حریف قرار دے کر اس سے نمٹنے کے لیے منصوبہ بندی کر لی ہے اور اس کی ترجیحات میں سب سے مقدم یہ بات ہے کہ مسلم ممالک میں دینی بیداری کی تحریکات کا راستہ روکا جائے اور کسی مسلمان ملک میں نفاذِ اسلام کی جدوجہد کو کسی قیمت پر آگے نہ بڑھنے دیا جائے۔

الجزائر میں نفاذِ اسلام کی داعی جماعت نے ۱۹۹۲ء کے انتخابات میں ۸۰ فیصد ووٹ حاصل کیے تو اسے فوج کے ذریعے کچل دیا گیا، اور الجزائر کے اہلِ دین کے خلاف ریاستی جبر کا بے رحمانہ مظاہرہ اب بھی بدستور جاری ہے۔

اسی طرح ترکی میں نجم الدین اربکان کی رفاہ پارٹی نے انتخابات میں کامیابی حاصل کر کے اسلامی اقدار و روایات کے احیا کا عمل شروع کیا تو انہیں بھی فوج کی طرف سے مسلسل دباؤ کا سامنا ہے۔

ہفت روزہ ’’العالم الاسلامی‘‘ مکہ مکرمہ ۲۳ فروری ۱۹۹۷ء کے مطابق امریکہ کی وزیرخارجہ میڈلین البرائٹ نے ترکی کی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکی مفادات کا تقاضہ ہے کہ ترکی بدستور سیکولر ریاست رہے اور وہاں دینی بیداری کے رجحانات کو روکا جائے۔

جبکہ روزنامہ جنگ لاہور ۱۴ مارچ ۱۹۹۷ء نے وائس آف جرمنی کے حوالے سے خبر شائع کی ہے کہ ترکی کی قومی سلامتی کونسل نے، جس میں فوجی جرنیلوں کو فیصلہ کن حیثیت حاصل ہے، ایک ہنگامی اجلاس میں وزیراعظم نجم الدین اربکان کو انتباہ کیا ہے کہ ان کے اسلامی اقدامات کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ چنانچہ ترک وزیراعظم کو قومی سلامتی کونسل کے ساتھ اس معاہدہ پر دستخط کرنا پڑے ہیں کہ

’’وہ ملک میں اس قسم کی اسلامی سرگرمیوں کی اجازت نہیں دیں گے جن سے جمہوری اداروں اور جمہوریت پر حرف آتا ہو۔‘‘

خود ہمارے ہاں پاکستان میں بھی جمہوری عمل، پارلیمنٹ کی خودمختاری، اور سسٹم کے تحفظ کے عنوان سے جب بھی بات ہوتی ہے، اس کا بنیادی مقصد یہ ہوتا ہے کہ نفاذِ اسلام اور دینی بیداری کا کوئی عمل جمہوریت کے مغربی تصور کے لیے خطرہ نہ بن جائے۔ اور اس طرح یہ بات دن بدن واضح ہوتی جا رہی ہے کہ مغربی ممالک جب عالمِ اسلام میں جمہوریت کی بات کرتے ہیں تو اس سے ان کی مراد عوام کی مرضی، ان کی اکثریتی رائے، یا ان کا پسندیدہ نظام نہیں ہوتا۔ بلکہ وہ جمہوریت کی اصطلاح صرف اور صرف اسلامی نظام کا راستہ روکنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ورنہ انہیں الجزائر اور ترکی میں فوج کا کنٹرول اور خلیج عرب میں مطلق العنان بادشاہوں پر بھی کوئی اعتراض نہیں ہے، بشرطیکہ وہ اسلام کا راستہ میں رکاوٹ بنی رہیں۔

الغرض اسلام کے عادلانہ نظام اور مغرب کی مادر پدر آزاد جمہوریت کے درمیان کشمکش کا منظر واضح ہوتا جا رہا ہے۔ لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ مغرب تو منصوبہ بندی مکمل کر کے سیاسی، ثقافتی، ابلاغی اور نفسیاتی محاذوں پر جنگ کا باقاعدہ آغاز کر چکا ہے، جبکہ ہماری اسلامی تحریکات اور دینی حلقے صورتحال کو سمجھنے اور حالات کا ادراک حاصل کرنے کے لیے ابھی آنکھیں مل رہے ہیں۔ خدا کرے کہ اہلِ دین کی آنکھیں جلد کھلیں اور یہ یکطرفہ جنگ باقاعدہ معرکہ کی صورت اختیار کرے، آمین یا الٰہ العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter