جوڈیشری سسٹم کو اسلامی شریعت کے مطابق چلانے کی ضرورت

   
تاریخ : 
۲۴ اپریل ۲۰۱۱ء

اسلام آباد کی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کا ایک شعبہ ’’شریعہ اکیڈمی‘‘ کے نام سے کام کر رہا ہے لیکن ہماری ’’الشریعہ اکادمی‘‘ گوجرانوالہ میں اور اس میں دو تین فرق ہیں: (۱) ایک فرق تو ’’الف لام‘‘ کا ہے جو دونوں کے نام میں واضح ہے۔ (۲) دوسرا یہ کہ وہ بڑا اور سرکاری ادارہ ہے اور ہم چھوٹے سے غیر سرکاری ادارے کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ (۳) تیسرا فرق طریقِ کار کا سمجھ لیں کہ وہ ادارہ سرکاری حدود کے دائرے میں اپنا کام کر رہا ہے اور ہم قدرے آزاد ماحول میں اس خدمت کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اسلامی یونیورسٹی کی شریعہ اکیڈمی کو وسائل ہم سے زیادہ میسر ہیں، مواقع کا دائرہ وسیع ہے اور ٹیم بھی بہرحال ہم سے بہتر ہے۔ اس لیے وہ احکام شریعت کی ترویج و اشاعت، تعبیر و تشریح اور اس کے مطابق مختلف طبقات کے منتخب افراد کی ذہنی و فکری تیاری کے میدان میں وقیع خدمات سرانجام دے رہی ہے۔

آج کل شریعہ اکیڈمی کے ڈائریکٹر ہمارے محترم اور فاضل دوست صاحبزادہ ڈاکٹر ساجد الرحمان ہیں اور چونکہ ہمارے اہداف مشترک ہیں اس لیے باہمی تعاون کا سلسلہ بحمد اللہ قائم ہے۔ ان دنوں شریعہ اکیڈمی اسلام آباد میں جج صاحبان کے لیے ایک ریفریشر کورس چل رہا ہے جس کا مقصد جوڈیشری سے متعلقہ ذمہ دار حضرات کو عدالتی نظام اور طریقِ کار کے بارے میں اسلامی تعلیمات کے حوالے سے کچھ ضروری امور پر بریفنگ مہیا کرنا ہے۔ ۱۹ اپریل کو راقم الحروف کو وہاں حاضری کی دعوت دی گئی اور دو نشستوں میں کچھ گزارشات پیش کرنے کا موقع ملا۔ مختلف اضلاع کے سیشن جج اور ایڈیشنل جج صاحبان کے علاوہ بعض اضلاع کے پراسیکیوٹر اور آزادکشمیر کے ایک ضلع قاضی بھی اس کورس میں شریک ہیں۔

میں نے تفصیلی گفتگو تو اس موضوع پر کی کہ دورِ نبویؐ میں انسانی حقوق کا عمومی تناظر کیا تھا اور اسلام کے تصورِ حقوق اور مغرب کے آج کے فلسفۂ حقوق میں کیا فرق ہے؟ لیکن گفتگو چونکہ جج صاحبان سے تھی اس لیے میں نے اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عدالتی نظام کے بارے میں بھی گفتگو چھیڑ دی جو ایک مباحثے کی صورت اختیار کر گئی۔ جی چاہتا ہے کہ اس کے اہم پہلوؤں کو قارئین کے سامنے رکھ دیا جائے۔

عدالتی فیصلوں کے لیے قرآن و سنت سے راہنمائی

میرا پہلا سوال یہ تھا کہ بحیثیت مسلمان ہماری اساس تو قرآن وسنت طے شدہ ہے، جبکہ دستوری طور پر بھی ہماری اساس قرآن و سنت پر ہے، اس لیے اگر جج صاحبان مقدمات کے فیصلے لکھتے ہوئے مروجہ قانون اور دیگر ضروری امور کو سامنے رکھنے کے ساتھ ساتھ قرآن و سنت سے بھی رہنمائی حاصل کریں اور فیصلوں میں اس کا حوالہ دے دیا کریں تو میرے خیال میں اس کے دو فائدے ضرور ہوں گے:

  1. ایک یہ کہ ہم اپنی اعتقادی اساس کے قریب تر رہیں گے۔
  2. اور دوسرا یہ کہ مقدمے کے فریقین کو تسلی ہوگی کہ ان کا فیصلہ ان کے عقیدے اور مذہب کے مطابق ہوا ہے جس سے فیصلے کو قبول کرنے کا رجحان بڑھے گا اور اس کے خلاف اپیل کے حق کے غیر ضروری استعمال میں شاید کمی آجائے، اس طرح عدالتوں پر مقدمات کے بوجھ میں بھی تخفیف ہوگی۔

اس پر جج صاحبان کی طرف سے ملا جلا ردعمل سامنے آیا، بعض نے کہا کہ ایسا ہو سکتا ہے اور اس کے مفید اور مثبت اثرات ہو سکتے ہیں مگر قرآن و سنت کے متعلق مواد تک رسائی شاید سب جج صاحبان کی دسترس میں نہ ہو۔ بعض دوستوں کا خیال تھا کہ سب مقدمات میں ایسا نہیں ہو سکتا، جن قوانین میں یہ شق موجود ہے کہ قرآن و سنت سے رہنمائی لی جائے وہاں تو یہ قابل عمل ہے اور عملاً ہوتا بھی ہے لیکن جن قوانین کے ساتھ یہ سہولت موجود نہیں ہے وہاں پر مشکل ہوگی اور اس کے لیے باقاعدہ قانون سازی کی ضرورت پڑے گی تاکہ جج صاحبان کے لیے ایسا کرنے کی گنجائش نکل سکے۔ اس پر میں نے عرض کیا کہ اسے تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:

  1. ایک حصہ ان قوانین کا ہے جن میں ہدایت موجود ہے کہ مقدمات کے فیصلے میں قرآن و سنت سے رہنمائی حاصل کی جائے۔
  2. دوسرا حصہ ایسے قوانین کا ہے جن میں یہ ہدایات موجود نہیں ہیں اور ایسا کرنے سے مروجہ قانونی پراسیس سے تعارض اور تصادم کی صورت بن جاتی ہے۔
  3. مگر ایسے قوانین کا دائرہ بھی کم نہیں ہوگا جہاں اس قسم کی ہدایت تو موجود نہیں ہے مگر قرآن وسنت سے رہنمائی لینے اور ان کا حوالہ دینے سے مروجہ قانون پراسیس متاثر نہیں ہوتا اور تعارض کی کوئی صورت نہیں بنتی۔

پہلی صورت میں تو ہر بات عملاً موجود ہے، دوسری صورت میں مجبوری کی بات سمجھ میں آتی ہے، لیکن تیسری صورت میں تو اس کام میں کوئی رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے کہ جج صاحبان اپنے فیصلوں میں قرآن و سنت سے صرف رہنمائی ہی نہ لیں بلکہ ان کا باقاعدہ حوالہ بھی دیں، اس کے بہت فوائد ہوں گے اور برکات بھی یقیناً حاصل ہوں گی۔

ثالثی اور کونسلنگ کے ذریعے مقدمات کے فیصلے

میرا دوسرا سوال یہ تھا کہ دنیا کے مختلف ممالک میں کونسلنگ یعنی ثالثی کے ذریعے بہت سے مقدمات نمٹانے کا نظام موجود ہے۔ بھارت میں پنچائیت کا نظام مستحکم بتایا جاتا ہے، امریکہ میں بھی دستوری طور پر یہ سہولت موجود ہے حتیٰ کہ وہاں یہودیوں اور مسلمانوں کو یہ سہولت بھی حاصل ہے کہ وہ نکاح و طلاق وغیرہ یعنی خاندانی قوانین اور حرام و حلال سے متعلق مالیاتی قوانین کے مقدمات میں فیصلے اپنے مذہبی احکام کے مطابق اپنے قاضیوں سے کرا سکتے ہیں، چنانچہ شکاگو اور دیگر شہروں میں ’’شریعہ بورڈ‘‘ کے نام سے مسلمان اس سہولت سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ جنوبی افریقہ کے شہر کیپ ٹاؤن میں راقم الحروف نے دیکھا کہ مسلمانوں کا اس قسم کا نظام ’’مسلم جوڈیشیل کونسل‘‘ کے نام سے قائم ہے، اس کونسل کا طریق کار یہ ہےکہ مسلمانوں کے باہمی تنازعات نمٹانے کی درخواستیں کونسل کے پاس آتی ہیں جنہیں پہلے ثالثی اور کونسلنگ کے ذریعے نمٹانے کی کوشش کی جاتی ہے اور کونسل کے نمائندے فریقین کو قریب لا کر ان کی صلح کرانے میں اکثر کامیاب ہو جاتے ہیں، جبکہ بعض کیس جو ثالثی کے ذریعے طے نہیں ہو پاتے ان کے لیے مسلم علماء کی عدالت لگتی ہے اور باقاعدہ عدالتی سماعت کے بعد فیصلہ سنایا جاتا ہے، جسے جنوبی افریقہ کے ریاستی عدالتی نظام میں بھی تسلیم کیا جاتا ہے۔

کیا پاکستان میں ایسا نہیں ہو سکتا کہ جن مقدمات کے فیصلے قانونی طور پر عدالت سے باہر ثالثی کے ذریعے کیے جا سکتے ہیں ان میں کونسلنگ کو ہی ترجیح دی جائے؟ اس سے لوگوں کو یہ فائدہ ہوگا کہ ان کا وقت اور خرچہ بچے گا اور عدالتوں پر مقدمات کا بوجھ بھی کم ہو جائے گا۔ اس پر مجھے بتایا گیا کہ قانون میں تو اس کی گنجائش موجود ہے اور بعض جج صاحبان ایسا کرتے بھی ہیں لیکن اس کا عمومی رجحان نہیں ہے۔ اسے اگر باقاعدہ مہم کی صورت دی جائے اور عوام کی ذہن سازی کی جائے تو اس کے عمومی فوائد سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اس عمومی رجحان کے کم ہونے کا ایک سبب گفتگو کے دوران یہ بھی سننے میں آیا کہ اگر مقدمات کے فیصلے کونسلنگ کے ذریعے عدالتوں سے باہر ہونے لگے تو اس سے وکلاء متاثر ہوں گے۔ اس پر میں نے گزارش کی کہ کسی ایک طبقے کے متاثر ہونے کے خدشے سے عمومی فائدے کو، جو میرے نزدیک ایک قومی ضرورت کی صورت اختیار کرتا جا رہا ہے، نظرانداز کر دینا کوئی مناسب بات نہیں ہے۔

ضلع اور تحصیل کی سطح پر جج صاحبان اور قاضی حضرات کی مشترکہ جیوری

میں نے جج صاحبان کے سامنے تیسری گزارش یہ رکھی کہ میرے خیال میں پاکستان میں عدالتی نظام کو بہتر بنانے اور قرآن و سنت کے قریب تر لانے کے لیے اس تجربہ سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے جو آزادکشمیر میں کامیابی کے ساتھ چل رہا ہے کہ ضلع اور تحصیل کی سطح پر جج صاحبان اور قاضی حضرات اکٹھے جیوری کی صورت میں بیٹھ کر مقدمات سنتے ہیں اور باہمی مشاورت سے فیصلہ کرتے ہیں۔ اس سے مروجہ قانونی نظام کے تقاضے بھی پورے ہو جاتے ہیں اور متعلقہ مقدمات میں قرآن و سنت کی روشنی میں فیصلے کا مقصد بھی حاصل ہو جاتا ہے جو ہماری دینی ضرورت ہونے کے ساتھ ساتھ ملک کا دستوری تقاضا بھی ہے۔

اس پر بھی کورس کے شرکاء کی طرف سے ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا گیا۔ بعض دوستوں نے کہا کہ اس دہرے نظام کی کیا ضرورت ہے؟ میں نے عرض کیا کہ جج صاحبان چونکہ شریعت کے قوانین کے بارے میں مطلوبہ معلومات اور مہارت نہیں رکھتے اس لیے جب تک قانونی تعلیم کے نصاب میں قرآن و سنت کو پوری طرح شامل نہیں کیا جاتا اس وقت تک یہ کام اس طرح باہمی اشتراک اور ایڈجسٹمنٹ کے ذریعے بھی چلایا جا سکتا ہے، عدالتی نظام کے ذمہ دار حضرات کو اس پر غور کرنا چاہیے۔

   
2016ء سے
Flag Counter