ملک کے معروف تعلیمی ادارہ دارالعلوم تعلیم القرآن (راجہ بازار، راولپنڈی) میں ۱۰ محرم الحرام کو جو المناک سانحہ پیش آیا اس پر ہر صاحبِ درد شخص کا دل تڑپ اٹھا ہے اور کرب و اضطراب نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ شیخ القرآن حضرت مولانا غلام اللہ خانؒ کا قائم کردہ یہ دینی مرکز پون صدی سے تعلیمی و دعوتی خدمات سر انجام دینے میں مصروف ہے اور ہزاروں علماء کرام نے یہاں سے تعلیم حاصل کی ہے۔ عاشوراء کے دن نماز جمعۃ المبارک کے وقت وہاں ماتمی جلوس کے گزرنے پر جو قیامت بپا ہوئی وہ اپنے دامن میں بہت سے سوالات کو سمیٹے ہوئے ہے، ان سوالات کو جتنا بھی دبانے کی کوشش کر لی جائے، رفتہ رفتہ ان کے جوابات ضرور سامنے آئیں گے اور واقعات کی پیچ در پیچ تہیں ایک ایک کر کے کھلتی چلی جائیں گی۔
کہا جاتا ہے کہ راجہ بازار کے اس حصہ سے عاشوراء کا ماتمی جلوس عام طور پر ساڑھے تین چار بجے کے لگ بھگ گزرتا ہے لیکن اس روز جبکہ جمعۃ المبارک کا دن ہونے کی وجہ سے زیادہ احتیاط کی ضرورت تھی، یہ جلوس دو بجے سے پہلے جمعہ کے اجتماع کے دوران ہی ادھر جا نکلا، جبکہ ضلعی انتظامیہ نے صورتحال سے نمٹنے کے لیے کوئی پیشگی منصوبہ بندی نہیں کر رکھی تھی۔
ہمیں گوجرانوالہ میں بھی اسی قسم کی صورتحال کا سامنا تھا، ماتمی جلوس کی گزرگاہ میں ہماری مرکزی جامع مسجد اور اہلحدیث حضرات کی مرکزی جامع مسجد چوک نیائیں انتہائی نازک پوائنٹ ہیں، جلوس کے وہاں سے گزرنے کا وقت وہی تھا جو ان مساجد میں جمعہ کی نماز کے اوقات ہوتے ہیں، مگر ضلع گوجرانوالہ کی انتظامیہ اور ضلعی امن کمیٹی کے ارکان ہم سب کے شکریہ کے ساتھ تبریک کے مستحق ہیں کہ انہوں نے حالات کی نزاکت کو محسوس کیا اور نہ صرف ان دو مقامات بلکہ ضلع بھر میں خطرہ کا باعث بننے والے دیگر مقامات کے حوالہ سے پیشگی منصوبہ بندی کر لی اور متعلقہ فریقوں کو بلا کر اوقات کی ایسی ترتیب قائم کرا دی جس سے کسی بدمزگی کے خطرات کم ہو گئے۔ اس دفعہ دس محرم الحرام جمعۃ المبارک کے روز ہونے کے ساتھ ساتھ گوجرانوالہ میں ایک اور بات بھی شدید خطرہ کا الارم بن چکی تھی کہ شہر کی ایک امام بارگاہ میں محرم الحرام کے اوائل میں فجر کے وقت کسی نامعلوم شخص کی فائرنگ سے اہل تشیع کے تین افراد جاں بحق ہو چکے تھے اور اس حوالہ سے سخت کشیدگی کی فضا قائم ہو گئی تھی، مگر ضلعی انتظامیہ کی فرض شناسی اور امن کمیٹی کی مسلسل محنت سے متنازعہ معاملات پہلے سے آپس میں سیٹ ہو گئے اور اہل تشیع کے ذمہ دار حضرات کے ساتھ طے پا گیا کہ اہلحدیث حضرات کی مسجد (چوک نیائیں) کے سامنے سے ماتمی جلوس جمعہ کی اذان سے پہلے گزر جائے گا اور مرکزی جامع مسجد (شیرانوالہ باغ) کے عقب میں یہ جلوس نماز جمعہ مکمل ہونے پر سوا دو بجے کے بعد آئے گا، اس معاہدہ کی پابندی کی گئی اور تمام تر خطرات و خدشات سمیت یہ دن گوجرانوالہ میں بحمد اللہ تعالیٰ امن و سکون کے گزر گیا۔
اگر ضلع راولپنڈی کی انتظامیہ بھی ان خطرات کو بر وقت محسوس کر لیتی اور وہاں کی امن کمیٹی ان سے نمٹنے کے لیے پیشگی منصوبہ بندی کر لیتی تو شر پسند عناصر کو اس نازک صورتحال سے فائدہ اٹھانے، راولپنڈی کے امن کو تباہ کرنے اور ملک بھر کے اہل دین کے دلوں کو زخمی کرنے کا یہ موقع میسر نہ آتا۔ مگر جو کچھ ہوا بہت برا ہوا اور بہت ہی برا ہوا، اس کی جس قدر مذمت کی جائے کم ہے اور اس پر جس قدر نفرین بھیجی جائے دل کو کسی طرح تسلی نہیں ہوتی۔
- یہ المناک سانحہ کسی منظم سازش کا حصہ تھا یا وقتی اشتعال نے صورتحال کو یہاں تک پہنچا دیا؟
- ضلعی انتظامیہ کی افسوسناک غفلت روایتی بے پرواہی تھی یا یہ بھی کسی منظم منصوبے کا حصہ تھی؟
- اور اس میں کون کون کس کس درجہ میں اور کس کس سطح پر شریک و ذمہ دار ہے؟
اس کے بارے میں عدالتی تحقیقات کے لیے ہائیکورٹ کے ایک معزز جسٹس پر مشتمل کمیشن قائم ہو گیا ہے اور ہمیں امید ہے کہ اس کی تحقیقات اور سفارشات کے نتیجے میں نہ صرف صحیح صورتحال واضح ہو گی بلکہ ذمہ دار عناصر کے خلاف مؤثر کاروائی اور مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا بھی جلد از جلد اہتمام ہو گا۔
ہم دار العلوم تعلیم القرآن کے مہتمم مولانا اشرف علی صاحب اور ان کے رفقاء کے ساتھ ساتھ اس دہشت گردی میں نذر آتش ہو جانے والی مارکیٹ کے مالکان اور راولپنڈی و اسلام آباد کے علماء کرام اور دینی حلقوں کے اس غم میں شریک ہیں، اور شہداء و زخمیوں کے خاندانوں کے ساتھ ہمدردی و تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے دعا گو ہیں کہ اللہ رب العزت شہداء کو جنت الفردوس میں جگہ دیں، زخمیوں کو صحت کاملہ و عاجلہ عطاء فرمائیں، مدرسہ و مسجد اور مارکیٹ کے نقصانات کی اپنے خزانہ غیب سے تلافی فرمائیں اور ملک و قوم کے امن کو تباہ کرنے کے درپے عناصر کو ہدایت سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔