۱۰ جولائی کو پلندری جانے کا اتفاق ہوا، جمعیۃ علماء اسلام آزاد کشمیر کے امیر مولانا سعید یوسف خان کے بیٹے کا ولیمہ تھا، اس موقع پر آزاد کشمیر کے بعض سرکردہ علماء کرام نے توجہ دلائی کہ ریاست آزاد و جموں کشمیر میں ضلع اور تحصیل کی سطح پر ججز اور قاضی صاحبان پر مشتمل جو دو رکنی عدالتیں کام کر رہی ہیں، ان کی بساط دھیرے دھیرے لپیٹی جا رہی ہے اور ہائیکورٹ کی سطح پر جو شرعی عدالت مصروف عمل ہے اس کے اختیارات کو محدود کرنے کے لیے ایک صدارتی آرڈیننس سامنے آچکا ہے۔ یہ سن کر افسوس ہوا کہ ہم پاکستان کے باقی علاقوں کے لیے آزاد کشمیر کے اس نظام کو نمونہ کے طور پر پیش کیا کرتے تھے مگر اب وہاں بھی اسے ختم کرنے یا محدود کر دینے کی باتیں سننے میں آرہی ہیں۔
قیام پاکستان کے بعد جب ریاست جموں و کشمیر کے اس حصے کو مجاہدین نے مسلّح جنگ کے ذریعے ڈوگرہ راجہ کے تسلط سے آزاد کرایا تو اس جہاد میں دیگر راہنماؤں کے ساتھ سرکردہ علماء کرام بھی شریک تھے جن میں حضرت مولانا محمد یوسف خان ؒ، مولانا عبد العزیز تھوراڑویؒ، مولانا عبد الحمید قاسمیؒ، مولانا عبد اللہ کفل گڑھیؒ اور دیگر علماء کرام بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ علماء کی بڑی تعداد اس جہاد میں عملاً شریک تھی اور یہ جہاد انہی کے فتووں کی بنیاد پر شروع کیا گیا تھا۔ اقوام متحدہ کے حکم پر سیزفائر کے بعد جب مجاہدین کے زیر قبضہ علاقہ میں سردار محمد ابراہیم خان مرحوم کی سربراہی میں آزاد حکومت قائم ہوئی تو عدالتی نظام کے بارے میں دو الگ الگ عمل سامنے آگئے۔ علماء کرام نے شرعی عدالتیں قائم کر لیں جبکہ جج صاحبان نے اس وقت رائج عدالتی نظام کے تحت مقدمات کے فیصلوں کا سلسلہ جاری رکھا۔ دو متوازی عدالتی نظام قائم ہونے پر صدر ریاست سردار محمد ابراہیم خان مرحوم نے مداخلت کی اور مذکورہ بالا علماء کرام کے مشورہ سے طے کیا کہ سردست جج صاحبان کے ساتھ شرعی معاملات میں راہنمائی کے لیے مفتی صاحبان کا تقرر کر دیا جائے جن کے مشورہ سے مقدمات کے شرعی فیصلے صادر کیے جائیں، اس پر ضلعی سطح پر مفتی صاحبان کا تقرر عمل میں لایا گیا۔
اس کے کچھ عرصہ بعد سردار محمد عبد القیوم خان مرحوم کے دور حکومت میں ریاست میں شرعی قوانین کا باقاعدہ نفاذ عمل میں لایا گیا اور عدالتی نظام کی ترتیب یوں طے پائی کہ ضلعی سطح پر سیشن جج اور ضلع قاضی، جبکہ تحصیل کی سطح پر سول جج اور تحصیل قاضی مشترکہ طور پر مقدمات سنیں گے، جس کے لیے مستند علماء کرام کا بطور قاضی تقرر کیا گیا جائے گا۔ چنانچہ اس وقت سے یہ مشترکہ عدالتی نظام ضلع اور تحصیل کی سطح پر کام کر رہا ہے اور کامیابی کے ساتھ لوگوں کے تنازعات و مقدمات اسلامی شریعت کے مطابق نمٹا رہا ہے۔ پھر ان مشترکہ عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف اپیلوں کی سماعت کے لیے ہائیکورٹ کی سطح پر شرعی عدالت کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اور سپریم کورٹ میں شریعت اپیلٹ پنچ کے قیام کی تجویز پر ریاست کی دینی جماعتوں کی طرف زور دیا جا رہا تھا کہ موجودہ حکومت نے ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعے شرعی اختیارات کو مبینہ طور پر محدود کر دیا ہے، جبکہ ضلع اور تحصیل کی سطح پر دو رکنی کی بجائے ایک رکنی عدالت کے قیام کے لیے قانون سازی کی جا رہی ہے اور اس سلسلہ میں یہ کہا جا رہا ہے کہ چونکہ پاکستان میں اس قسم کا نظام نہیں ہے اس لیے آزاد کشمیر میں بھی اس کی ضرورت نہیں ہے۔
عجیب بات یہ ہے کہ پاکستان کا قیام اسلامی احکام و قوانین کی عملداری کے لیے عمل میں لایا گیا تھا اور دستور پاکستان میں شرعی قوانین کے مکمل نفاذ کی ضمانت دی گئی ہے، مگر عملاً صورتحال یہ ہے کہ قلات، بہاولپور، خیر پور، سوات اور دیگر اندرونی طور پر خود مختار ریاستوں نے پاکستان کے ساتھ الحاق کیا تو ان ریاستوں میں پہلے سے موجود شرعی قوانین اور عدالتی نظام کو بھی ختم کر دیا گیا، جبکہ ریاست آزاد و جموں کشمیر میں محدود سطح پر شرعی قوانین کے نفاذ اور شرعی قاضی صاحبان کے ذریعے مقدمات کے فیصلوں کا عمل شروع کیا گیا جو کامیابی کے ساتھ چل رہا ہے تو اسے ختم یا کمزور کرنے کے لیے بھی پاکستان کا حوالہ دیا جا رہا ہے، جو ملک کے دینی حلقوں کے لیے یقیناً لمحۂ فکریہ ہے کیونکہ یہ پاکستان کے نظریاتی مقاصد اور اسلام کی شناخت کے صریحاً منافی ہے۔
شرعی قوانین کے عملی نفاذ کا ناگزیر تقاضہ یہ ہے کہ قانون کی تعلیم کے نظام پر نظر ثانی کر کے وکلاء اور جج صاحبان کو لاء کالجز میں قرآن و سنت اور فقہ و شریعت کی باقاعدہ تعلیم دی جائے تاکہ وہ شرعی قوانین کے مطابق مقدمات کے فیصلے کر سکیں۔ لیکن جب تک یہ مستقل انتظام نہ ہو جائے جج صاحبان اور علماء کرام کی مشترکہ عدالتیں ہی اس مسئلہ کا واحد حل ہیں اور اسی وجہ سے آزاد کشمیر کے اس مشترکہ عدالتی نظام کو ملک بھر کے دینی حلقوں میں استحسان کی نظروں سے دیکھا جا رہا تھا۔ حتیٰ کہ اب سے کچھ عرصہ قبل جب صوبہ خیبر پختون خواہ میں متحدہ مجلس عمل کی حکومت قائم ہوئی تو ہم نے اسے یہ مشورہ دیا تھا کہ شرعی قوانین کے نفاذ کے لیے مناسب عدالتی نظام فراہم کرنے کی غرض سے آزاد کشمیر کے اس عدالتی نظام کا جائزہ لیا جائے اور اس سے استفادہ کیا جائے۔ بلکہ مالاکنڈ ڈویژن میں نفاذ شریعت کے لیے صوفی محمد صاحب کی پراَمن تحریک کے موقع پر بھی ہم نے یہی عرض کیا تھا کہ وہ اگر فی الواقع شرعی عدالتیں قائم کرنے میں سنجیدہ ہیں تو اس کے لیے آزاد کشمیر کے تجربہ سے فائدہ اٹھائیں، لیکن اس کی بجائے ہمیں اب اس افسوسناک صورتحال سے سابقہ درپیش ہے کہ سرے سے آزاد کشمیر میں ہی اس کامیاب عدالتی نظام اور تجربہ کو ’’ریورس گیئر‘‘ لگا دیا گیا ہے۔
آزاد کشمیر میں اس وقت مسلم لیگ (ن) کی حکومت ہے، ہم پاکستان مسلم لیگ کی قیادت سے گزارش کریں گے کہ وہ اس رویہ پر نظرثانی کرے اور اگر نفاذ شریعت میں مزید پیشرفت اس کے مقدر میں نہیں ہے تو کم از کم اس وقت موجود عدالتی نظام کو سبوتاژ کرنے سے گریز کرے، اس کے ساتھ ہی آزاد کشمیر اور پاکستان کی دینی جماعتوں سے گزارش ہے کہ وہ اس صورتحال کا نوٹس لیں اور ریاستی حکومت کو اس کاروائی سے باز رکھنے کے لیے مؤثر کردار ادا کریں۔