والد گرامی حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ اور عم مکرم حضرت مولانا صوفی عبد الحمید خان سواتیؒ کا تعلق ہزارہ کے علاقہ شنکیاری میں آباد یوسف زئی سواتی قبیلہ سے تھا۔ دونوں بھائیوں نے ۱۹۴۲ء میں دارالعلوم دیوبند کے دورۂ حدیث شریف میں شمولیت کی سعادت حاصل کی، اس سال شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ گرفتار ہوگئے تھے۔ والد گرامیؒ بتایا کرتے تھے کہ حضرت مدنیؒ کی گرفتاری کے بعد طلبہ نے ہڑتال کر دی اور مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوگیا جن کی قیادت کرنے والوں میں وہ بھی شامل تھے حتٰی کہ معاملات کو سلجھانے کے لیے حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ دہلویؒ دیوبند تشریف لائے تو ان کے ساتھ طلبہ کی طرف سے مذاکرات کرنے والے گروپ کے لیڈر وہ تھے۔ اس سال ان ہنگاموں کی وجہ سے دارالعلوم میں سالانہ امتحانات نہیں ہو سکے تھے اور دونوں بھائیوں کو اگلے سال غالباً ۱۹۴۳ء کے دوران سالانہ امتحانات میں شمولیت کا موقع ملا تھا۔ اس کے بعد والد محترمؒ ضلع گوجرانوالہ کے قصبہ گکھڑ میں ایک مسجد کے امام و خطیب کی حیثیت سے آگئے اور اپنی وفات ۲۰۰۹ء تک وہیں رہے، جبکہ حضرت صوفی صاحبؒ نے لکھنو اور حیدر آباد میں کئی سال گزارے اور پھر گوجرانوالہ آکر ۱۹۵۲ء میں مدرسہ نصرۃ العلوم (گھنٹہ گھر چوک) کی بنیاد رکھی اور اپنی وفات ۲۰۰۸ء تک مدرسہ کے اہتمام کے فرائض سرانجام دیتے رہے۔
تقسیم ہند کے دوران حضرت والد محترمؒ مجلس احرار اسلام سے وابستہ تھے اور ان کی اس دور کی یادگار کلہاڑی ہمارے چھوٹے بھائی قاری منہاج الحق خان راشد نے سنبھال رکھی ہے جبکہ چچا محترم جمعیۃ علماء ہند سے متعلق ہوگئے تھے اور حسب موقع خدمات سرانجام دیتے رہے۔ گکھڑ میں حضرت والد محترمؒ کے ایک قریبی ساتھی ماسٹر بشیر احمد کشمیری مرحوم مجلس احرار اسلام سے وابستہ تھے اور امیر شریعت حضرت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ سے گہری عقیدت رکھتے تھے، ان کے ہاں ہمارا اکثر آنا جانا رہتا تھا اور گھریلو نوعیت کے تعلقات ہوگئے تھے، حتٰی کہ ان کی ایک ہمشیرہ محترمہ بعد میں میرے چھوٹے بھائی مولانا عبد القدوس خان قارن کی خوشدامن ہوئیں۔ ماسٹر صاحب مرحوم جماعتی اور تحریکی لٹریچر سے دلچسپی رکھتے تھے اور انہی کے ہاں میں نے بچپن میں چودھری افضل حقؒ کی کتابوں ’’زندگی‘‘ اور ’’تاریخ احرار‘‘ وغیرہ کا مطالعہ کیا تھا۔
شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ کی جب وفات ہوئی تو میری عمر نو یا دس سال تھی۔ ایک دکان سے کچھ خریدتے ہوئے وہاں پڑے اخبار ’’نوائے وقت‘‘ پر نظر ڈالی تو ایک چوکٹھے میں یہ خبر تھی کہ دیوبند میں مولانا حسین احمد مدنیؒ کا انتقال ہوگیا ہے۔ دیوبند کا نام تو سن رکھا تھا مگر حضرت مدنیؒ کے نام سے ذہن آشنا نہیں تھا، میں نے گھر آکر والد محترمؒ سے پوچھا کہ مولانا حسین احمد مدنیؒ کون ہیں؟ پوچھا کیا ہوا؟ میں نے کہا کہ وہ فوت ہوگئے ہیں، کہنے لگے تمہیں کس نے بتایا؟ میں نے بتایا کہ دکان پر نوائے وقت اخبار میں پڑھا ہے۔ ان کی زبان پر تو بے ساختہ انا للہ و انا الیہ راجعون کا ورد جاری ہوگیا اور میں ان کی پریشانی اور بے چینی میں بدلتی ہوئی حالت دیکھنے لگ گیا۔ دکان سے اخبار منگوایا، خبر خود پڑھ کر تسلی کی اور رنج و غم کی گہرائیوں میں ڈوب گئے۔ تھوڑی دیر میں جب حالت سنبھلی تو بتایا کہ وہ میرے سب سے بڑے استاذ تھے اور دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث تھے، پھر ان کی مختلف باتوں کا تذکرہ کیا۔
حفظ قرآن کریم اور صرف و نحو کی ابتدائی تعلیم کے بعد ۱۹۶۲ء کے دوران مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں داخل ہوا تو عم مکرم حضرت مولانا عبد الحمید سواتیؒ کی شب و روز سرپرستی اور شفقت سے مسلسل بہرہ ور ہوتا رہا۔ وہ حضرت مدنیؒ کے شاگرد ہونے کے ساتھ ساتھ مرید بلکہ عاشق زار بھی تھے، کسی نہ کسی بہانے اپنے شیخ و استاذ کا تذکرہ کرتے رہتے تھے اور مزاجاً خالصتاً جمعیتی تھے۔
میری فکری اٹھان احراری ماحول میں ہوئی اس کے بعد جمعیتی ماحول میں منتقل ہوگیا، اس لیے دونوں کا امتزاج رکھتا ہوں اور اس کی نزاکتوں کا ادراک و احساس رکھتے ہوئے مجھے دونوں سے یکساں محبت، استفادہ اور خدمت کا تعلق حاصل ہے۔ پاکستان میں جب جمعیۃ علماء اسلام کی تشکیل نو ہوئی تو حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ اور حضرت مولانا مفتی محمودؒ خاصا عرصہ تک مشترکہ طور پر اس کی قیادت کرتے رہے اور مجھے ان کے ساتھ ایک کارکن کے طور پر رفاقت کا اعزاز حاصل رہا۔ بعد میں جب دونوں کے سیاسی راستے الگ ہوگئے تو میرے جیسے کارکنوں کے لیے یہ بہت پریشانی کا مرحلہ تھا، صوبہ سرحد میں جمعیۃ علماء اسلام کے امیر حضرت مولانا سید گل بادشاہؒ تھے جو تقسیم ہند سے قبل جمعیۃ علماء ہند کے صوبائی صدر رہ چکے تھے۔ وہ اس دوران مدرسہ نصرۃ العلوم تشریف لائے تو میں نے ان کی خدمت میں عرض کیا کہ حضرت! مجھے مولانا مفتی محمودؒ اور مولانا غلام غوث ہزارویؒ کا اختلاف سمجھ میں نہیں آرہا۔ مولانا سید گل بادشاہؒ اس کشمکش میں مولانا مفتی محمودؒ کے ساتھ تھے، فرمایا کہ بھائی! مولانا ہزارویؒ احراری ہیں اور ہم جمعیتی ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ بس حضرت بات سمجھ میں آگئی ہے مزید وضاحت کی ضرورت نہیں۔ میرے اس فکری امتزاج میں ہمارے ایک اور استاذ محترم حضرت مولانا عبد القیوم ہزارویؒ کا بھی خاصا دخل ہے جن سے میں نے تعلیمی اور فکری دونوں شعبوں میں بہت استفادہ کیا ہے۔
فکری امتزاج کی بات چل پڑی ہے تو ایک اور بات بھی ذہن میں آگئی ہے کہ حکیم الاسلام حضرت مولانا محمد طیب قاسمیؒ کے کسی مضمون میں پڑھا کہ شیخ اکبر محی الدین ابن عربیؒ اور شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ کے ذوق و فکر کے امتزاج سے دیوبندیت تشکیل پاتی ہے۔ یہ پڑھ کر مجھے بہت اطمینان ہوا، میں نے دوستوں سے عرض کیا کہ ہمارے گھر میں دونوں بزرگ موجود ہیں۔ ابن تیمیہؒ کے ذوق و فکر کی نمائندگی والد محترمؒ اور ابن عربیؒ کے ذوق و فکر کی نمائندگی چچا محترم کرتے ہیں جبکہ میں خود کو دونوں کے امتزاج سے بہرہ ور محسوس کرتا ہوں۔ ابن تیمیہؒ اور ابن عربیؒ کے ذوق و فہم میں بظاہر دکھائی دینے والے تمام تر ظاہری فرق و بعد کے باوجود بسا اوقات یہ فیصلہ کرنا میرے لیے مشکل ہو جاتا ہے کہ میں ان میں سے کس سے زیادہ محبت رکھتا ہوں اور ذہنی طور پر کس سے زیادہ قریب ہوں۔ چنانچہ یہ بات میرے مزاج کا حصہ بن گئی ہے کہ ہر بات میں خیر اور نفع کا پہلو تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ مجھے اپنے اس طرز عمل کے ہر جگہ صحیح ہونے پر اصرار نہیں ہے لیکن میرا یہ ذوق پختہ ہوگیا ہے کہ اگر کسی بات میں ایک تہائی خیر بھی محسوس ہو جائے تو اسے نمایاں کرنے، اس سے استفادہ کرنے اور اس کے ساتھ تعاون کی راہیں تلاش کرنے کو ترجیح دیتا ہوں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ مولانا محمد ضیاء القاسمیؒ بسا اوقات مجھے دیکھ کر یہ کہتے ہوئے ملاقات و معانقہ کرتے تھے کہ ’’رانجھا سب دا سانجھا‘‘۔