دینی مدارس اور برطانوی وزیر اعظم کے خیالات

   
۲۲ جولائی ۲۰۰۵ء

لندن کے بم دھماکوں کے بعد عالمی حلقوں میں جو ارتعاش پیدا ہوا ہے، اس نے ایک بار پھر دینی مدارس کو بین الاقوامی میڈیا میں گفتگو کا موضوع بنا دیا ہے اور نہ صرف پاکستان میں متعدد دینی مدارس پر چھاپوں کا سلسلہ ازسرنو شروع ہو گیا ہے بلکہ برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر کے ایجنڈے میں بھی دینی مدارس اب پہلے نمبر پر نظر آ رہے ہیں۔

لندن کے بم دھماکوں کی دنیا کے ہر باشعور شخص نے مذمت کی ہے کہ اس طرح کسی ملک کے پراَمن شہریوں کی جانوں سے کھیلنے کا بہرحال کوئی جواز نہیں ہے۔ وہ لوگ بھی جو خودکش حملوں کو آزادی اور قومی وقار کی جنگ لڑنے والے مجاہدین کے لیے میدان جنگ کا آخری ہتھیار سمجھتے ہیں اور استعماری قوتوں کے خلاف برسرپیکار حریت پسندوں کے لیے بوقت ضرورت اس ہتھیار کے استعمال کو ان کا جائز اور ناگزیر حق تصور کرتے ہیں، ان کے لیے بھی اس قسم کے اقدامات کی حمایت ممکن نہیں ہے، لیکن ان دھماکوں کے بعد جن امور پر بحث و مباحثہ کا عالمی سطح پر ازسرنو آغاز ہو گیا ہے، ان میں پاکستان کے دینی مدارس کے کردار اور افادیت کا مسئلہ خصوصی اہمیت حاصل کرتا جا رہا ہے۔

دھماکوں کے فورًا بعد برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر نے جس ردعمل کا اظہار کیا تھا، اس میں دنیا کے انصاف پسند حلقوں کے لیے یہ حوصلہ افزا پہلو موجود تھا کہ انہوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مبینہ دہشت گردی کے اسباب کا جائزہ لینے اور ان کے سدِباب کی ضرورت پر زور دیا تھا اور یہ کہا تھا کہ صرف سیکیورٹی کے انتظامات ہی دہشت گردی کا حل نہیں ہیں، بلکہ یہ دہشت گردی جن اسباب و عوامل کے نتیجے میں رونما ہوئی ہے، ان کے خاتمے کے لیے بھی اقدامات ضروری ہیں اور اس کے بغیر دہشت گردی پر قابو نہیں پایا جا سکتا۔ مسٹر ٹونی بلیئر کے اس حقیقت پسندانہ طرز عمل پر دنیا کے منصف مزاج لوگوں کو یہ توقع ہونے لگی تھی کہ اب شاید بعض مسلمان حلقوں کی اس مسلح مزاحمتی جدوجہد، جسے دہشت گردی قرار دے کر اس کے خلاف امریکہ کی قیادت میں جنگ لڑی جا رہی ہے، اس کے اسباب و محرکات کی نشاندہی اور ان کے سدِباب کے لیے اقدامات کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔

لیکن اس کے چند روز بعد برطانوی وزیر اعظم نے حکمران لیبرپارٹی کی پالیسی کانفرنس میں جو تفصیلی خطاب کیا ہے، اس نے اس توقع کا گلا گھونٹ دیا ہے اور یوں نظر آتا ہے کہ ٹونی بلیئر امریکی صدر جارج بش سے بھی زیادہ جارحانہ لہجے میں بات کہنے پر اتر آئے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے اپنے اس خطاب میں مختلف مسلم ممالک کی مزاحمتی تحریکوں کا ذکر کرتے ہوئے صاف طور پر یہ کہہ دیا ہے کہ وہ ان کی کوئی بات سننے کے لیے تیار نہیں ہیں اور وہ اس مبینہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کو ہر قیمت پر جیتنا چاہتے ہیں۔ مسٹر بلیئر نے اس خطاب میں ایک طرف تہذیبوں کے درمیان تصادم کی نفی کی ہے لیکن اس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ اعتراف کیا ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف یہ جنگ دراصل ان کے نظریات کے خلاف جنگ ہے اور وہ اس کے ذریعے سے اپنے طرز زندگی یعنی ثقافت کے تحفظ کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ:

  • یہ دہشت گرد اسرائیل کو ختم کرنا چاہتے ہیں،
  • عالم اسلام میں خلافت قائم کرنا چاہتے ہیں،
  • اور مسلم ممالک میں شرعی قوانین نافذ کرنا چاہتے ہیں۔

جبکہ یہ امور مسٹر ٹونی بلیئر کے نزدیک اس قدر سنگین جرائم ہیں کہ انہوں نے اسے ’’بدی کا نظریہ‘‘ قرار دیتے ہوئے اس سلسلے میں گفتگو اور مذاکرات کا امکان بھی مسترد کر دیا ہے۔ برطانوی وزیر اعظم نے اس ’’بدی کے نظریہ‘‘ کا سرچشمہ پاکستان کے دینی مدارس کو قرار دیا ہے اور ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ ان مدارس کے خلاف کارروائی کا بے چینی کے ساتھ انتظار کر رہے ہیں۔ دوسری طرف لندن کے دھماکوں کے سلسلے میں جن افراد کو خودکش حملوں کا مرتکب قرار دیا گیا ہے، ان کا پاکستان کے بعض دینی مدارس کے ساتھ تعلق ظاہر کرتے ہوئے ان کے خلاف کریک ڈاؤن کی تیاری ہو رہی ہے اور ان سطور کی اشاعت تک اس سلسلے میں خاصی پیشرفت ہو چکی ہوگی۔

جہاں تک دینی مدارس کا تعلق ہے، یہ بات ایک سے زائد بار واضح ہو چکی ہے کہ ان پر طلبہ کو دہشت گردی کی تربیت دینے کا الزام قطعی طور پر غلط ہے اور اب تک جتنے چھاپے بھی مختلف مدارس کے خلاف مارے گئے ہیں، کسی ایک مدرسہ میں بھی ایسے آلات یا ماحول نہیں پایا گیا جسے دہشت گردی کی تربیت کے الزام کے لیے بنیاد بنایا جا سکے۔ حکمران مسلم لیگ کے سربراہ اور سابق وزیر داخلہ چودھری شجاعت حسین ابھی چند ہفتے قبل ایک بھرپور کنونشن میں یہ بات کہہ چکے ہیں کہ انہوں نے اپنے دور وزارت میں پورے ملک کے دینی مدارس کی چھان بین کرائی تھی اور ملک بھر میں ایک مدرسہ بھی دہشت گردی کی تربیت میں ملوث نہیں پایا گیا تھا۔ اس کے علاوہ ملک میں دینی مدارس کے سب سے بڑے فورم وفاق المدارس العربیہ پاکستان کی قیادت کئی بار کھلا کھلم کہہ چکی ہے کہ ملک کے کسی ایک مدرسے کی نشاندہی کی جائے جس میں دہشت گردی کی تربیت دی جاتی ہو۔ اگر کوئی مدرسہ ایسا پایا گیا تو وفاق المدارس اس کے خلاف کارروائی میں حکومت کے ساتھ شریک ہوگا مگر اس کے باوجود ان دینی مدارس کے خلاف معاندانہ پروپیگنڈے کا سلسلہ جاری ہے اور نہ صرف عالمی میڈیا بلکہ برطانوی وزیر اعظم بھی دینی مدارس کی کردارکشی کی اس مہم میں شریک ہیں۔

کہا جا رہا ہے کہ لندن میں جن افراد نے خودکش حملے کیے ہیں، انہوں نے کسی دور میں بعض دینی مدارس میں تعلیم پائی ہے۔ اگر یہ بات درست ہو تو بھی کسی درس گاہ میں تعلیم پانے والے کسی شخص کے کسی جرم کا اس درس گاہ کو ذمہ دار ٹھہرانا کس طرح قرین انصاف قرار پا سکتا ہے؟ کیونکہ اگر اسے ایک اصول کے طور پر تسلیم کر لیا جائے تو دنیا بھر میں سنگین ترین جرائم کے مرتکب افراد کے جرائم کی ذمہ داری ان تعلیمی اداروں پر ڈالی جانی چاہیے جن میں انہوں نے کبھی تعلیم حاصل کی تھی۔ اس طرح ہارورڈ، آکسفورڈ اور کیمبرج یونیورسٹیاں بھی اس الزام کا سامنا کرنے پر مجبور ہوں گی کہ ان کے ہاں تعلیم پانے والے بہت سے افراد مختلف ممالک میں بدعنوانیوں، کرپشن، آمریت، ڈکٹیٹرشپ، قتل و غارت، ڈکیتی اور دیگر سنگین جرائم میں ملوث ہیں، اس لیے وہ ان جرائم کے بدی کے سرچشمہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔

ان مدارس میں تو اسلحہ کی ٹریننگ نہیں دی جاتی اور ملک میں کسی ایک مدرسہ کی اب تک نشاندہی نہیں کی جا سکی جو اپنے طلبہ کو جدید اسلحہ کی اس انداز سے ٹریننگ دیتا ہو، البتہ ملک کی جیلوں اور عدالتوں کا ریکارڈ چھان کر ایسے سینکڑوں افراد کی نشاندہی کی جا سکتی ہے جنہوں نے پاک فوج کی تربیت گاہوں میں اسلحہ کی ٹریننگ حاصل کی اور پھر ریٹائرمنٹ کے بعد یا فوج سے بھگوڑے ہو کر جرائم پیشہ بن گئے۔ ظاہر بات ہے کہ صرف اتنی بات پر کہ انہوں نے ٹریننگ پاک فوج کے انتظام کے تحت حاصل کی تھی، ان کے جرائم کی ذمہ داری پاک فوج پر نہیں ڈالی جا سکتی۔

دینی مدارس کو اگر اس ’’جرم‘‘ کا قصوروار ٹھہرایا جائے تو بات سمجھ میں آتی ہے کہ وہ اسلامی عقیدے کی تعلیم دیتے ہیں، خلافت کا سبق پڑھاتے ہیں، شرعی قوانین کی تعلیم دیتے ہیں، اور زندگی کے ہر شعبے کے بارے میں قرآن و سنت کے احکام و قوانین سکھاتے ہیں۔ کیونکہ ان دینی مدارس کے وجود کا مقصد ہی یہ ہے اور وہ اسی کے لیے کام کر رہے ہیں۔ اگر مسٹر ٹونی بلیئر کے نزدیک یہ جرم ہے تو اس ’’جرم‘‘ کے ارتکاب سے یہ دینی مدارس باز نہیں آ سکتے، مگر انہیں دہشت گردی کی تربیت کے مراکز قرار دے کر انتقام کا نشانہ بنانا کسی طرح بھی حقیقت پسندانہ طرز عمل قرار نہیں دیا جا سکتا۔

   
2016ء سے
Flag Counter