(۲ محرم الحرام ۱۴۴۵ھ کو مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں جمعۃ المبارک کے اجتماع سے خطاب)
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معروف صحابی ہیں حضرت معاذ بن جبلؓ، ان کا تذکرہ ہم روایات میں سنتے رہتے ہیں، معروف انصاری صحابی ہیں۔ انہیں جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیاتِ مبارکہ میں یمن کا گورنر مقرر کیا تھا۔ حضرت عمرؓ کے زمانے میں بھی آپ یمن کے گورنر رہے۔ یمن جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے کنٹرول میں آگیا تھا اور ریاست مدینہ کا حصہ بن گیا تھا۔ یمن کا اکثر حصہ دعوت کے ذریعہ دائرۂ اسلام میں آیا۔ یمن کے بڑے بڑے خاندان بنو حمیر، اشعری، دوس وغیرہ قبائل جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اسلام قبول کیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن کو دو حصوں میں تقسیم کر کے ایک حصے کا گورنر حضرت معاذ بن جبلؓ کو اور دوسرے حصے کا گورنر حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ کو مقرر کیا تھا۔ ان دونوں کا ایک امتیاز یہ بھی ہے کہ یہ دونوں بزرگ بڑے قاریوں میں سے ہیں۔ قرآن مجید کی قرأت کے حوالے سے جن پانچ چھ صحابہ کی حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تعریف کی ہے کہ یہ قرآن مجید اچھا پڑھتے، ان سے قرآن مجید سیکھو، ان میں یہ دونوں بزرگ بھی ہیں۔
حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ کے بارے میں جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا ’’ لقد اوتیت مزمارا من مزامیر اٰل داؤد‘‘ ابو موسیٰ! تمہارے گلے میں سے حضرت داؤد علیہ السلام کی سر فٹ ہو گئی ہے۔ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام میں سب سے زیادہ خوش آوازی اور ترنم حضرت داؤد علیہ السلام کا تھا۔ زبور حمد کی کتاب ہے، حمدیہ کلام ہے، جس میں مختلف زاویوں سے اللہ تعالیٰ کی حمد و تعریف ہے۔ حضرت داؤد علیہ السلام اسے پڑھا کرتے تھے۔ لحنِ داؤدی مشہور ہے۔ کہتے ہیں کہ جب حضرت داؤد علیہ السلام زبور پڑھتے تھے تو پرندے فضا میں رک جایا کرتے تھے۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ سے فرمایا تمہیں تو حضرت داؤد علیہ السلام کے خاندان کا گلا مل گیا ہے، اچھا پڑھتے ہو۔
یہ دونوں یمن کے گورنر تھے۔ ایک دن ان دونوں کی آپس میں ملاقات ہوئی تو ایک دوسرے سے معمولات کے متعلق پوچھنے لگے۔ حضرت معاذ بن جبلؓ نے حضرت ابو موسٰیٰؓ سے پوچھا کہ آپ قرآن مجید کیسے پڑھتے ہیں، قرآن مجید کی تلاوت میں آپ کا معمول کیا ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ میں تو ہر وقت پڑھتا رہتا ہوں۔ کھڑے، بیٹھے، چلتے پھرتے ہر حالت میں پڑھتا رہتا ہوں۔
بعض مزاج ایسے ہوتے ہیں۔ اس کی ہمارے ہاں ایک مثال مولانا حافظ شفیق الرحمن صاحب تھے جو مجھ سے پہلے یہاں مرکزی جامع مسجد میں رمضان المبارک میں قرآن سناتے تھے، انجمن نصرۃ الاسلام جامع مسجد نور و مدرسہ نصرۃ العلوم کے صدر رہے ہیں، سید نگری بازار میں ان کی دکان تھی۔ میں نے ان کو دیکھا کہ ہر وقت قرآن مجید کی تلاوت کرتے رہتے تھے، آتے جاتے، بیٹھے، لیٹے، سودا بیچتے ہوئے ہر حالت میں پڑھتے رہتے تھے۔
اس کے بعد حضرت ابو موسٰیؓ نے حضرت معاذ بن جبلؓ سے پوچھا کہ آپ قرآن مجید کیسے پڑھتے ہیں؟ انہوں نے فرمایا کہ مجھ سے تو ایسے چلتے پھرتے نہیں پڑھا جاتا۔ پہلے میں آدھی رات سوتا ہوں، پھر اٹھتا ہوں، وضو کرتا ہوں، تازہ دم ہو کر مصلے پر بیٹھ کر قبلہ رو ہو کر قرآن مجید پڑھتا ہوں۔
جو بات میں عرض کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ حضرت عمرؓ کے زمانے میں حضرت معاذ بن جبلؓ کو اپنے صوبے سے زکوٰۃ، عشر وغیرہ مختلف مدات سے جو سالانہ آمدنی وصول ہوتی تھی تو انہوں نے ایک بار اس کا کچھ حصہ مدینہ منورہ بھیج دیا۔ مؤرخین بتاتے ہیں کہ صوبے کی سالانہ آمدنی کا ایک تہائی مدینہ منورہ مرکز کو بھیج دیا اور دو تہائی اپنے اخراجات کے لیے رکھ لیا۔ حضرت عمرؓ اس پر ناراض ہوئے اور خط لکھا۔ وہ خط و کتابت امام ابو عبیدؒ کی ’’کتاب الاموال‘‘ میں موجود ہے۔ حضرت عمرؓ نے لکھا کہ معاذ! تمہیں تو پتہ ہے کہ آمدن کی تقسیم کا اصول کیا ہے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں گورنر مقرر کرتے ہوئے یہ ہدایات دی تھیں کہ علاقے سے جو محصولات ہوں وہ اسی علاقے کے لوگوں کا حق ہے۔ اصول یہ ہے ’’تؤخذ من اغنیائھم وترد الی فقرائھم‘‘۔ جس علاقے کے امیروں سے مال وصول کیا جائے اسی علاقے کے غریبوں پر خرچ کیا جائے۔ قرآن مجید میں بھی یہ اصول اس طرح بیان ہوا ہے ’’کی لا یکون دولۃ بین الاغنیاء منکم‘‘ کہ دولت معاشرے میں گردش کرتی رہے تو نظام چلتا ہے۔ دولت ایک جگہ پڑی رہے تو کسی کام کی نہیں ہے۔ مگر یہ گردش اوپر اوپر امراء میں نہیں ہونی چاہیے، اوپر سے نیچے فقراء میں بھی آنی چاہیے۔
ایک عرب شاعر نے دینار اور درہم کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ بڑے فائدے دیتا ہے، اس سے نظام چلتا ہے، لیکن اس میں ایک خرابی ہے کہ جیب میں پڑا پڑا کسی کام کا نہیں ہے۔ میری جیب سے نکل کر دوسرے کی جیب میں جاتا ہے تو پھر کام آتا ہے۔ اس نے کہا کہ دولت کی بے وفائی کا اس سے بڑا اظہار کیا ہوگا کہ درہم اور دینار جیب میں پڑا ہو تو اس کا کچھ فائدہ نہیں، نہ کھانے کے کام کا، نہ پینے کے کام کا۔ اس نے درہم و دینار کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تجھ سے بڑا بے وفا کوئی نہیں ہے۔ جب تو میری جیب سے نکل کر دوسرے کی جیب میں جائے گا تو اس سے فائدہ ہوگا۔ تیری وفا میں فائدہ نہیں ہے، تیری بے وفائی میں فائدہ ہے۔ قرآن مجید نے یہ اصول بیان فرمایا ہے کہ دولت گردش کرتی رہے تو نظام چلتا ہے۔
امام غزالیؒ نے بڑی خوبصورت تعبیر فرمائی ہے کہ جسم کا نظام خون کی گردش سے چلتا ہے۔ دل خون کو پمپ کرتا رہتا ہے تو پورے جسم میں خون دوڑتا ہے۔ خون کی گردش سے جسم کا نظام چلتا ہے۔ اگر خون کی گردش رک جائے تو کہتے ہیں حرکت قلب رک گئی اور کام ختم ہو گیا۔ انہوں نے یہ بات سمجھائی ہے کہ جسم کے جس حصے کو جتنے خون کی ضرورت ہے اتنا ہی ملے گا تو کام چلے گا۔ اگر خون کم ہو جائے گا تو فالج ہو جائے گا اور اگر زیادہ ہو جائے گا تو پھوڑے پھنسیاں بن جائیں گے۔ جسم کے کسی حصے میں خون کی مقدار کم ہو جائے تب بھی کام بگڑ جاتا ہے اور زیادہ ہو جائے تب بھی کام بگڑ جاتا ہے۔ اس لیے جتنا ضرورت ہے اس کے مطابق ملے گا تو کام چلے گا۔ آپؒ فرماتے ہیں یہی بات دولت کی ہے۔ جس کو جتنی دولت کی ضرورت ہے اسے اتنی ملے گی تو کام چلے گا۔ اگر اسے اتنی دولت نہیں ملے گی تو کام معطل ہو جائے گا۔ اور اگر زیادہ دولت ملے گی تو بھی خرابیاں پیدا ہوں گی، تکبر اور فساد پیدا ہو گا۔ جیسے جسم کے جس حصے میں خون زیادہ چلا جائے وہاں پھوڑے پھنسیاں بن جاتی ہیں۔
قرآن مجید نے یہ اصول بیان فرمایا ہے کہ دولت معاشرے میں گردش کرتی رہے تو نظام چلتا ہے اور اس کی گردش اوپر اوپر صرف مالداروں میں نہیں ہونی چاہیے بلکہ اوپر نیچے ہونی چاہیے۔ قرآن مجید نے ایک جملے میں سارا سسٹم بیان فرما دیا ’’کی لا یکون دولۃ بین الاغنیاء منکم‘‘۔ یہ تو سب کو پتہ ہے کہ دولت معاشرے میں گردش کرتی رہے تو نظام چلتا ہے، لیکن ایک گردش ہے اوپر اوپر، کہ دولت مالداروں میں ہی گھومتی رہے۔ قرآن مجید نے بیان فرمایا کہ دولت کی ایسی گردش نہیں ہونی چاہیے، بلکہ گردش اوپر نیچے ہونی چاہیے تب نظام صحیح چلے گا۔
جب حضرت معاذ بن جبلؓ نے اپنے صوبے کی سالانہ آمدنی کا تہائی حصہ مرکز کو بھیج دیا تو حضرت عمرؓ نے ان سے کہا کہ معاذ! تم نے یہ کیا کیا؟ یہ وہاں کے لوگوں کا حق ہے مجھے کیوں بھیج دیا؟ اس پر حضرت معاذ بن جبلؓ نے جواب دیا کہ اس دفعہ میرے صوبے کی ساری ضروریات پوری ہو کر یہ رقم بچ گئی تھی اس لیے آپ کو بھیج دی ہے کہ آپ جہاں چاہیں خرچ کر دیں۔ میرے صوبے کا بجٹ پورا ہے، یہ فاضل رقم ہے۔ آج کی دنیا کی اصطلاح میں اسے فاضل بجٹ کہتے ہیں کہ آمدنی میں سے اخراجات پورے ہو کر رقم بچ جائے۔
یہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر عمل کا نتیجہ ہے۔ یہ برکات ہیں اور اس برکت کے پیچھے ایمان اور دیانت ہے۔ قرآن مجید نے ارشاد فرمایا ہے ’’ولو ان اھل القرٰی امنوا واتقوا لفتحنا علیھم برکات من السماء والارض‘‘۔ اگر بستیوں اور آبادیوں والے اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات پر عمل کریں تو ہم اتنی برکتوں کے دروازے کھول دیں گے کہ آسمان بھی رزق برسائے گا اور زمین بھی رزق اگلے گی۔ اگر اللہ تعالی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات پر عمل ہوگا اور دیانت ہوگی تو اتنی برکتیں ہوگی کہ سمیٹی نہیں جائیں گی۔
اس پر حضرت عمرؓ کا ایک اور واقعہ عرض کر دیتا ہوں۔ جب ایران فتح ہوا، ایران کے کمانڈر رستم کو شکست ہوئی۔ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ ایران کے فاتح ہیں۔ رستم نے حضرت سعد بن ابی وقاصؓ سے شکست کھائی، بھاگتے ہوئے دریا میں کود گیا، پیچھے سے ایک مجاہد نے خنجر مار کر اسے مار دیا تھا۔ لطیفے کے طور پر عرض کیا کرتا ہوں کہ رستم شکست خوردہ ہے جو جنگ میں شکست کھا کر بھاگتا ہوا مارا گیا تھا، لیکن آج ہم پہلوانی کے حوالے سے طاقت کی نسبت اس کی طرف کرتے ہیں۔ رستم گوجرانوالہ، رستم پنجاب وغیرہ۔ آج وہ ہماری طاقت کا سمبل ہے، ہماری ساری پہلوانی رستم کے نام پر ہوتی ہے۔
ایران فتح ہوا، کسریٰ کے خزانے فتح ہوئے۔ غنیمت مدینہ منورہ لائی گئی۔ حضرت عمرؓ نے کسریٰ کے خزانے تقسیم کرنے تھے، لیکن حضرت عبد الرحمن بن عوفؓ فرماتے ہیں کہ ہم نے دیکھا حضرت عمرؓ ان خزانوں میں سے کوئی چیز تلاش کر رہے تھے۔ کبھی ایک گٹھڑی کھول کر اس میں دیکھتے، کبھی دوسری گٹھڑی میں دیکھتے، کوئی چیز تلاش کر رہے تھے جو مل نہیں رہی تھی۔ اسی کیفیت میں سارا دن گزر گیا، حضرت عمرؓ کے رعب کی وجہ سے کوئی آپ سے پوچھ بھی نہیں رہا تھا کہ حضرت! آپ کیا تلاش کر رہے ہیں؟ اگلا سارا دن بھی اسی کیفیت میں گزر گیا کہ گٹھڑیاں اور پوٹلیاں کھول کھول کر کوئی چیز تلاش کر رہے ہیں، چیز مل نہیں رہی، پریشانی بڑھتی جا رہی ہے اور تلاش کرتے ہوئے یہ کہتے جا رہے ہیں یہ نہیں ہو سکتا، یہ نہیں ہو سکتا۔ حضرت عبد الرحمٰن بن عوفؓ کہتے ہیں کہ تیسرے دن میں نے پوچھ لیا کہ حضرت! آپ گھٹڑیاں کھول کھول کر دیکھ رہے ہیں، کیا تلاش کر رہے ہیں؟ ہمیں بھی تو بتائیں کہ کیا تلاش کر رہے ہیں اور کیا نہیں ہو سکتا؟
حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہجرت کے سفر میں حضرت سراقہ بن مالکؓ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو راستے میں روکا تھا اور پھر صلح ہو گئی تھی، ان سے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ سراقہ! میں تمہارے ہاتھوں میں کسریٰ کے کنگن دیکھ رہا ہوں۔ یہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی تھی۔ حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ اب کسریٰ ختم ہو گیا ہے، اس کے خزانے آگئے ہیں، سراقہ بھی موجود ہے، لیکن کسریٰ کے کنگن نہیں مل رہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ کسرٰی کے خزانے آئیں اور ان میں کنگن نہ ہوں۔ میں وہ کنگن تلاش کر رہا ہوں، سارے خزانے ٹٹول کر دیکھ لیے ہیں لیکن مجھے کنگن نہیں مل رہے۔
یہ بحث چل رہی تھی کہ ایک سپاہی آیا اور سلام عرض کیا۔ اس کے پاس ایک پوٹلی تھی۔ جو اس نے حضرت عمرؓ کو پیش کرتے ہوئے کہا کہ حضرت! میں اس لشکر میں تھا جس نے کسریٰ کے خلاف جنگ لڑی ہے، میں واپسی میں راستے میں بیمار ہو گیا تھا، ایک گاؤں میں ٹھہر گیا تھا۔ اب طبیعت ٹھیک ہوئی ہے تو آ گیا ہوں، یہ میرے پاس ایک امانت ہے۔ جب اس پوٹلی کو کھولا تو اس میں کسرٰی کے کنگن تھے۔ سونے کے کنگن اور کسریٰ کے کنگن، سونے کے کنگن کی اپنی قیمت تھی اور کسریٰ کے کنگن کی اپنی قیمت تھی، جنہیں ایک عام سپاہی سنبھال کر لا رہا ہے۔ یہ منظر دیکھ کر حضرت عمرؓ کی آنکھوں میں آنسو آگئے کہ یہ سونے کے کنگن راستے میں کہیں بھی غائب ہو سکتے تھے، جیسے آج کل ہمارے ہاں چیزیں غائب ہوتی رہتی ہیں، کون سی چیز سلامت پہنچتی ہے۔ ایک عام سپاہی ہے، بادشاہ کے کنگن قابو آگئے تو وہ کہیں غائب نہیں ہوئے، بلکہ اس نے خود اٹھائے اور امانت کے ساتھ پیش کر دیے۔ حضرت عمرؓ نے حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ جس قوم کو اتنے دیانت دار سپاہی میسر ہوں اسے کون شکست دے سکتا ہے۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ نے عرض کیا کہ حضرت! یہ بات نہیں ہے، بات یہ ہے کہ جس قوم کا امیر اتنا دیانت دار ہو اس قوم کے سپاہی بھی ویسے ہی ہوں گے۔ یہ آپ کی امانت اور دیانت کی برکات ہیں۔
برکت اوپر سے نیچے چلتی ہے۔ حکمران امانت دار ہو تو برکتیں ہی برکتیں ہوتی ہیں۔ پھر سپاہی اور عملہ سبھی دیانت دار ہوتے ہیں۔ اگر دولت کی گردش صحیح رہے اور حکمران دیانت دار ہوں تو برکتوں کا ماحول یہ ہوتا ہے۔ حضرت عمرؓ تو دنیا میں دیانت کا نمونہ ہیں، صرف ہمارے نزدیک نہیں، بلکہ دنیا مانتی ہے۔ جب بھی امانت، دیانت اور عدالت کی بات ہوتی ہے تو پہلے چار پانچ ناموں میں حضرت عمرؓ کا نام دنیا کی تاریخ میں سر فہرست ہوتا ہے۔
یہ کیفیت آج کل ہم تلاش کر رہے ہیں کہ دیانت، برکت اور معاشی اصلاحات کہاں ہیں۔ جہاں سے یہ چیزیں ملتی ہیں ہم وہاں نہیں جاتے۔ مثلاً مجھے کسی چیز کی ضرورت ہے، میں سارے بازار میں تلاش کر رہا ہوں، لیکن جس دکان پر وہ چیز ہے اس دکان پر نہیں جاتا تو کیا وہ چیز مل جائے گی؟ یہی حال دیانت اور برکت کا ہے۔ دیانت اور برکت کا سودا جہاں سے ملتا ہے وہاں ہم جاتے نہیں۔ اور ہمارے لیے یہی مسئلہ بنا ہوا ہے۔
مؤرخین واقعہ لکھتے ہیں کہ ایران شکست کھا گیا، روم ابھی باقی تھا۔ روم کے بادشاہ نے حضرت عمرؓ کی خدمت میں خوشبو کا تحفہ بھیجا۔ عورتوں والی خوشبو تھی۔ مرد کی خوشبو عطر وغیرہ ہوتا ہے اور عورت کی خوشبو سرخی پاؤڈر ہوتا ہے۔ جب قیصر روم کا تحفہ آیا تو حضرت عمرؓ نے ساتھیوں سے مشورہ کیا کہ خوشبو تقسیم کرنی ہے، کوئی سیانی سی عورت بتلائیں جو مدینہ کی عورتوں میں تقسیم کر دے۔ لوگوں نے عرض کیا کہ آپ کی اہلیہ محترمہ سے زیادہ سمجھدار عورت کون ہو گی، آپ ان کو دیں وہ تقسیم کر دیں گی۔ حضرت عمرؓ نے وہ خوشبو عورتوں میں تقسیم کرنے کے لیے اہلیہ محترمہ کو دی تو فرمایا کہ تم تقسیم کرو گی، اس میں تمہارا حصہ بھی ہوگا، تو اپنا حصہ کتنا رکھو گی؟ عرض کیا کہ جتنا دوسروں کو دوں گی، اتنا ہی خود رکھوں گی۔ اس پر حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ جتنا دوسروں کو دو گی اگر اتنا ہی خود رکھو گی، تو جو دیتے ہوئے انگلیوں کے ساتھ لگ جائے گا وہ کس کھاتے میں جائے گا؟۔ اس لیے اپنا حصہ کم رکھنا تاکہ بیلنس ہو جائے۔ دیانت اس کا نام ہے۔
حضرت عمرؓ کے بے شمار واقعات ہیں۔ ایک اور واقعہ عرض کر دیتا ہوں۔ حضرت عمرؓ بیمار ہو گئے، پیٹ میں کوئی مسئلہ تھا۔ جب گڑبڑ زیادہ ہو گئی تو حکیم بلائے۔ انہوں نے بتایا کہ اور کچھ نہیں ہے، صرف یہ ہے کہ آپ خوش جَو کی روٹی کھاتے ہیں، گھی اور زیتون استعمال نہیں کرتے، اس لیے انتڑیوں میں خشکی پیدا ہو گئی ہے۔ آپ کچھ دن زیتون استعمال کریں، تو ٹھیک ہو جائیں گے۔ آپؓ نے فرمایا کہ میرے پاس تو زیتون کا تیل نہیں ہے، مجھے جو وظیفہ ملتا ہے اس میں اس کی گنجائش نہیں ہے کہ میں روٹی زیتون کے ساتھ کھا سکوں۔ پاس بیٹھے ایک آدمی نے کہا کہ بیت المال میں زیتون کا تیل موجود ہے۔ آپؓ نے پوچھا کہ کتنا ہے؟ اس نے کہا خاصا ہے۔ آپ نے پوچھا پھر بھی کتنا ہے، جو زیتون بیت المال میں ہے وہ تو لوگوں کا حق ہے، اگر وہ مدینہ منورہ کی آبادی پر تقسیم کیا جائے تو میرے حصے میں کتنا آئے گا؟ اس نے عرض کیا حضرت! اتنا تو نہیں ہے۔ دیانت اور انصاف اس سے کہتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے پیٹ پر ہاتھ مارا فرمایا کہ جتنا مرضی ہے گڑگڑ کرتا رہے، تجھے وہی ملے گا جو تیرا حصہ بنتا ہے، تیرے حصے سے زیادہ تجھ میں نہیں ڈالوں گا۔
آج ہم حضرت عمرؓ کو صرف فضائل کے حوالے سے یاد کرتے ہیں، نعرے لگاتے ہیں، ان سے محبت اور عقیدت کا اظہار کرتے ہیں، لیکن ہمارے آج کے مسائل، مشکلات اور ہماری بیماریوں کا حل حضرت عمرؓ کے پاس ہے، ہم وہ نہیں دیکھتے۔ ان کے فضائل بیان کریں گے، نعرے لگائیں گے، عقیدت و محبت کا اظہار بھی کریں گے، لیکن وہ جو کر کے گئے ہیں وہ کرنے کے لیے ہم تیار نہیں ہیں۔
یہ بات ہمیں نوٹ کر لینی چاہیے کہ ہم جب تک حضرت عمرؓ اور خلفاء راشدینؓ کی پیروی نہیں کریں گے، ہمارا سسٹم ٹھیک نہیں ہوگا۔ یہ حضرات صرف برکت کا باعث نہیں ہیں ہمارے لیے آئیڈیل بھی ہیں۔ جب تک ہم ان کی پیروی اور ان کے نقش قدم پر نہیں آئیں گے، بات آگے نہیں چلے گی۔ ہمیں ان کے پیچھے چلنا پڑے گا، ہمیں اور ہمارے حکمرانوں کو بھی۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند سے بلند تر فرمائیں اور ہمیں بحیثیت قوم اپنے بزرگوں کی صحیح پیروی کرنے کی توفیق عطا فرمائیں، آمین۔