عثمانی خلیفہ سلطان عبد الحمیدؒ ثانی کی یادداشتیں (۳)

   
۳۰ ستمبر ۱۹۹۹ء

۱۸۷۶ء سے ۱۹۰۹ء تک عالم اسلام کے ایک بڑے علاقے پر حکمران رہنے والے عثمانی خلیفہ سلطان عبد الحمید مرحوم کی ذاتی ڈائری کے کچھ حصے چند گزشتہ کالموں میں پیش کیے جا چکے ہیں۔ آج تیل کے کنوؤں کی کھدائی کے حوالہ سے سلطان مرحوم کی ڈائری کے اہم اقتباسات پیش کیے جا رہے ہیں۔

سلطان عبد الحمید کا کہنا ہے کہ جس دور میں یورپی ملکوں میں خلافت عثمانیہ کو مختلف حصوں میں تقسیم کر دینے کی تجویز پر بات چل رہی تھی، ایک روز برطانوی سفیر نے ان سے ملاقات کی اور ایک تجویز ان کے سامنے رکھی کہ خلافت عثمانیہ کے مختلف علاقوں بالخصوص حجاز، عراق اور شام میں پرانی تہذیبوں کے آثار موجود ہیں اور تاریخی مقامات کی کھدائی سے نہ صرف پرانے خزانے دریافت ہونے کا امکان ہے بلکہ اگر کوئی اور خزانہ نہ ملا تو پرانے نوادرات اور تاریخی اہمیت کی حامل اشیا خود بھی بہت قیمتی خزانہ ثابت ہوں گی۔ برطانوی سفیر نے کہا کہ برطانوی حکومت تاریخی نوادرات کے ساتھ دلچسپی کے باعث اہم مقامات پر کھدائی کے لیے اپنے ماہرین بھیجنے اور اپنے خرچے پر کھدائی کرانے کے لیے تیار ہے۔ حتیٰ کہ اہم تاریخی نوادرات کسی معاوضہ کے بغیر خلافت عثمانیہ کے سپرد کر دیے جائیں گے۔

سلطان مرحوم نے لکھا ہے کہ وہ ان دنوں برطانوی حکومت کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کے لیے مواقع کی تلاش میں تھے اس لیے انہوں نے یہ پیشکش قبول کر لی اور برطانیہ نے کسی تاخیر کے بغیر ماہرین کی ایک جماعت استنبول بھجوا دی۔ سلطان نے ان سب سے اجتماعی ملاقات کی اور انہیں شام کے کھانے پر مدعو کیا جس میں دوسری حکومتوں کے سفراء کو بھی دعوت دی گئی۔ سلطان مرحوم کے بقول جب وہ کھانے کی دعوت پر برطانوی ماہرین کا خیر مقدم کرتے ہوئے یہ بتا رہے تھے کہ برطانوی حکومت نے سلطنت عثمانیہ کے مختلف علاقوں میں آثار قدیمہ کی دریافت اور تاریخی نوادرات کی تلاش کے لیے اپنے خرچہ پر کھدائی کی پیشکش کی ہے جو انہوں نے قبول کر لی ہے، تو محفل میں موجود روسی سفیر کے لبوں پر انہیں عجیب سی مسکراہٹ کھیلتی دکھائی دی۔ حالانکہ اس سے قبل روسی سفیر گہری توجہ اور سنجیدگی کے ساتھ ان کی گفتگو سن رہے تھے۔

اس کے بعد برطانوی ماہرین نے موصل، بغداد اور دوسرے علاقوں میں کھدائی کا کام شروع کر دیا، کچھ نادر چیزیں مثلاً سکے اور ہتھیار وغیرہ انہیں پیش کرتے رہے کہ کھدائی کے دوران یہ نوادرات ملے ہیں۔ مگر ایک واقعہ نے عثمانی خلیفہ کو شک میں ڈال دیا کہ ایک روز برطانوی سفیر ایک ٹوٹی ہوئی تلوار لے آئے جس پر قیمتی موتیوں کا جڑاؤ تھا اور کہا کہ یہ قیمتی تلوار کسی زلزلہ کے موقع پر زمین میں دھنس کر ٹوٹ گئی تھی اور اس کا یہ حصہ کھدائی میں برآمد ہوا ہے۔ سلطان مرحوم لکھتے ہیں کہ مجھے تاریخ میں کسی ایسی تلوار کا ذکر یاد نہیں تھا اس لیے میں شک میں پڑ گیا اور وہ تلوار میں نے اپنے تاجروں کے ایک گروپ کو دکھائی۔ انہوں نے تلوار کا جائزہ لے کر بتایا کہ یہ تلوار پرانی نہیں ہے بلکہ اسے پرانی ظاہر کرنے کے لیے خاص طور پر اس پر کام کیا گیا ہے۔ اسی دوران سلطان عبد الحمید مرحوم کے اپنے ذرائع نے یہ خبر دے دی کہ آثار قدیمہ کی کھدائی کے نام پر ان علاقوں میں کنویں کھودے جا رہے ہیں جن سے تیل نکل رہا ہے۔ چنانچہ سلطان مرحوم نے کھدائی بند کرنے کا حکم دے کر برطانوی ماہرین کو واپس بھیج دیا جس پر برطانوی حکومت نے شدید غیظ و غضب کا اظہار کیا۔ اور اس کے ساتھ ہی ملک کے اندر ترقی پسند تحریک کا آغاز ہوگیا، دستور کے نفاذ اور پارلیمنٹ کے انتخابات کے مطالبات زور پکڑنے لگے، اور سلطان عبد الحمید کے خلاف اندرونی محاذ گرم کر دیا گیا۔

سلطان عبد الحمید کا کہنا ہے کہ اس کے بعد انہوں نے جرمنی کے ساتھ راہ و رسم بڑھانا شروع کیے، قیصر جرمنی کو استنبول کے دورہ کی دعوت دی اور ان کا پرجوش خیرمقدم کیا۔ جبکہ علماء کی ایک جماعت ہندوستان بھجوائی تاکہ وہاں آزادی پسند مسلمانوں سے رابطہ قائم ہو۔ اس سے ان کی غرض برطانوی حکومت کو یہ باور کرانا تھا کہ وہ جرمنی کے راستے سے ہندوستان کے آزادی پسند مسلمانوں کی مدد کا راستہ بھی اختیار کر سکتے ہیں۔ مگر ہوا یہ کہ جرمنی کے قیصر کے ہمراہ ماہرین کی ایک جماعت آئی اور انہوں نے آثار قدیمہ کے حوالے سے برطانوی ماہرین کے ادھورے چھوڑے ہوئے کام کو مکمل کرنے کی خواہش کا اظہار کیا جس کی اجازت سلطان عبد الحمید مرحوم نے خیرسگالی کے جذبہ کے تحت دے دی۔ مگر جرمن ماہرین نے بھی وہی تکنیک اختیار کی کہ آثار قدیمہ کی کھدائی کے نام سے تیل کے کنوؤں کی کھدائی کے کام کو آگے بڑھانا شروع کر دیا۔ سلطان عبد الحمید نے لکھا ہے کہ انہیں اس بات پر بہت زیادہ افسوس ہوا کیونکہ وہ جرمنی کے ساتھ تیل کے چشموں کی کھدائی کی بات خود مناسب شرائط پر کرنے کو تیار تھے مگر ان کے ساتھ دھوکہ کرنے کی کوشش کی گئی جس پر انہوں نے یہ سلسلہ آگے بڑھانا مناسب نہ سمجھا اور جرمن ماہرین کے کام کو رکوا دیا۔

سلطان مرحوم نے اس کے بعد اپنے ایک خاص معتمد صلاح الدین آفندی مرحوم کو امریکہ بھجوا دیا تاکہ وہاں کی کمپنیوں سے تیل کے چشموں کی کھدائی کے سلسلہ میں بات کی جائے مگر امریکی کمپنیوں نے کوئی توجہ نہ دی اور صلاح الدین آفندی ایک سال کی ناکام تگ و دو کے بعد واپس آگئے۔ انہوں نے رپورٹ دی کہ امریکی ماہرین کے خیال میں خود ان کے پاس تیل کے ذخائر اتنی مقدار میں موجود ہیں جو پوری دنیا کی ضروریات کے لیے کافی ہیں اس لیے انہیں کسی اور علاقے میں تیل کے چشموں کی کھدائی میں کوئی دلچسپی نہیں ہے کیونکہ اس سے خود ان کے اپنے تیل کی قیمتیں متاثر ہوں گی۔

سلطان عبد الحمید مرحوم نے لکھا ہے کہ اس کے بعد انہوں نے ایک وفد جاپان بھجوایا اور جاپان کی کمپنیوں کو پیشکش کی کہ وہ مناسب شرائط پر تیل کے کنوؤں کی کھدائی کا کام ان کے سپرد کرنے کے لیے تیار ہیں۔ جاپان نے یہ پیشکش قبول کر لی لیکن اس کے لیے عملی تیاریوں کا مشورہ ہی ہو رہا تھا کہ سلطان عبد الحمید مرحوم کے خلاف عوامی تحریک زور پکڑ گئی اور انہیں خلافت کے منصب سے الگ ہونا پڑا۔

   
2016ء سے
Flag Counter