پاکستان پیپلز پارٹی کے سرپرست اعلیٰ بلاول بھٹو کا کہنا ہے کہ دستور پاکستان کی کوئی شق غیر اسلامی نہیں ہے جبکہ کالعدم تحریک طالبان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد کہہ رہے ہیں کہ آئین کی کوئی شق اسلامی نہیں ہے۔ ہمارے خیال میں یہ دونوں موقف انتہا پسندانہ ہیں اور اصل بات ان دونوں کے درمیان درمیان ہے۔ اول تو کسی چیز کو اسلامی یا غیر اسلامی قرار دینے کی اتھارٹی نہ بلاول بھٹو ہیں اور نہ ہی شاہد اللہ شاہد ہیں، بلکہ اس کی اتھارٹی ملک کے جمہور علماء کرام ہیں۔ اور اگر کوئی ابہام یا کنفیوژن پایا جاتا ہے تو اس سلسلہ میں اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ کو یہ کردار ادا کرنا چاہیے کہ وہ تمام مکاتب فکر کے ذمہ دار مفتیان کرام کو جمع کر کے کنفیوژن کو دور کرنے کی کوشش کرے۔ اس سے ہٹ کر شخصی، گروہی، جماعتی حتیٰ کہ مسلکی طور پر اختیار کیا جانے والا کوئی موقف بھی محض ایک رائے کی حیثیت رکھتا ہے اور ایسی کسی بھی رائے پر اصرار یا اسے بہرحال منوانے کی کوشش کنفیوژن کو بڑھانے اور ایک نئے خلفشار کو جنم دینے کا باعث بن سکتی ہے جس سے ہر اسلام پسند، محب وطن اور با شعور شخص کو گریز کرنا چاہیے۔
جہاں تک دستور پاکستان کی اسلامی حیثیت کا تعلق ہے ہم متعدد بار یہ عرض کر چکے ہیں کہ اس کی بنیاد اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ پر ہے اور قرآن و سنت کی بالادستی کو دستوری طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ قرآن و سنت کے احکام و قوانین کے نفاذ کا وعدہ کرتے ہوئے پارلیمنٹ کو قرآن و سنت کے منافی قانون سازی سے روک دیا گیا ہے۔ اس لیے اس نظریاتی اساس کے ہوتے ہوئے اسے غیر اسلامی دستور کہنا درست نہیں ہے۔ بالخصوص اس وجہ سے بھی کہ اس دستور کی تدوین میں مولانا مفتی محمودؒ، مولانا عبد الحقؒ، مولانا غلام غوث ہزارویؒ، مولانا عبد الحکیمؒ، مولانا نعمت اللہؒ، مولانا صدر الشہیدؒ، مولانا شاہ احمد نورانیؒ، مولانا عبد المصطفیٰ ازہریؒ، مولانا محمد ذاکرؒ، مولانا ظفر احمد انصاریؒ اور پروفیسر غفور احمدؒ شریک رہے ہیں جبکہ اس کے تحت حلف اٹھانے اور مختلف دستوری اداروں میں خدمات سر انجام دینے والوں میں مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ، علامہ شمس الحق افغانیؒ، مولانا حسن جانؒ، مولانا نور محمدؒ، مولانا محمد عبد اللہ شہیدؒ، پروفیسر ساجد میر، مولانا قاضی عبد اللطیفؒ، مولانا عبد الستار خان نیازیؒ، مولانا معین الدین لکھویؒ، قاضی حسین احمدؒ، مولانا گوہر رحمانؒ اور مولانا قاری سعید الرحمنؒ، جیسے اکابر علماء کرام شامل ہیں۔
البتہ دستور کی مختلف تعبیرات اور ملکی نظام پر ان کے اطلاق کا مسئلہ ضرور غور طلب ہے اور اس کے حوالہ سے تحفظات کا ہر دور میں اظہار کیا جاتا رہا ہے۔ یہ تحفظات تعبیر اور اطلاق و تطبیق کے دائرہ کے ہیں جس کی ذمہ داری دستور کی اساس و بنیاد پر نہیں ڈالی جا سکتی۔ بلکہ دستور کو استعمال کرنے والے اور اسے اس کی صحیح روح کے مطابق کردار ادا کرنے میں رکاوٹ پیدا کرنے والے طبقات اور اشخاص اس کے ذمہ دار ہیں۔
دستوری دفعات کی تعبیر اور ملکی نظام و قوانین پر ان کے اطلاق و تطبیق کے ضمن میں خود ہم نے متعدد بار تحفظات کا اظہار کیا ہے جن میں سے مثال کے طور پر صرف دو کا ذکر اس مرحلہ میں مناسب سمجھتا ہوں۔
قرارداد مقاصد کو جب جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم نے اپنے دور حکومت میں دستور کا واجب العمل حصہ قرار دیا اور وہ دستور کا باقاعدہ حصہ بن گئی تو بہت سے قوانین کے بارے میں عدالتوں سے رجوع کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ ان میں سے ایک یہ تھا کہ قصاص کے قانون میں قاتل کی سزا معاف کرنے کا اختیار صرف مقتول کے ورثاء کو ہے جبکہ ہمارے دستور میں یہ حق صدر مملکت کو بھی دیا گیا ہے۔ ہائی کورٹ میں اس قانون کے خلاف اپیل دائر ہوئی کہ صدر کو قاتل کی سزا معاف کرنے کا اختیار دینا غیر شرعی ہے اور چونکہ قرارداد مقاصد کی صورت میں شرعی قوانین کی بالادستی قبول کر لی گئی ہے اس لیے صدر کا یہ اختیار ختم کیا جائے۔ ہائی کورٹ نے یہ موقف تسلیم کر کے صدر کے اختیار کو ختم کر دیا لیکن جب اس کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر ہوئی تو یہ نکتہ زیر بحث آیا کہ کیا قرارداد مقاصد کو دستور کی باقی شقوں پر بالادستی حاصل ہے؟ اگر ہے تو پھر ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ درست ہے اور اگر قرارداد مقاصد بھی دستور کی دیگر دفعات کے برابر دفعہ ہے تو پھر ہائی کورٹ کا مذکورہ فیصلہ درست نہیں ہے۔ اس پر سپریم کورٹ کے فل بینچ نے جناب جسٹس (ر) ڈاکٹر نسیم حسن شاہ کی سربراہی میں یہ فیصلہ دے دیا کہ قرارداد مقاصد بھی دستور کی ایک عام دفعہ ہے جسے دوسری دستوری دفعات پر کوئی فوقیت حاصل نہیں ہے۔ اس لیے ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا گیا۔
اب صورت حال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ والی قرارداد مقاصد دستور کی ایک عام دفعہ تو ہے مگر اسے دستور کی دیگر دفعات پر کوئی برتری حاصل نہیں ہے اور یہ صورت حال ایک اسلامی دستور کے حوالہ سے قابل قبول نہیں ہے۔ یہ کیس قانونی دستاویزات میں ’’حاکم علی بنام سرکار‘‘ کے عنوان سے موجود ہے اور ہم نے اس کا خلاصہ اردو زبان میں اس دور میں ’’قرارداد مقاصد بنام سپریم کورٹ آف پاکستان‘‘ کے نام سے الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کی طرف سے کتابچہ کی صورت میں شائع کیا تھا۔
اسی طرح میاں محمد نواز شریف نے اپنے پہلے دور حکومت میں پارلیمنٹ سے جو ’’شریعت بل‘‘ منظور کرایا تھا اس کی بنیاد قرآن و سنت کی بالادستی پر تھی لیکن اس میں قرآن و سنت کو ملک کا سپریم لاء تسلیم کرتے ہوئے اس شرط کے ساتھ مشروط کر دیا گیا تھا کہ ’’بشرطیکہ سیاسی نظام اور حکومتی ڈھانچہ متاثر نہ ہو‘‘۔ یہ استثنا قرآن و سنت کی بالادستی کو محدود کرنے کے مترادف تھی اور ہم نے اس وقت ملک کے سرکردہ علماء کرام سے اس سلسلہ میں استفسار کیا تھا جس کے جواب میں اکابر علماء کرام نے اس استثنا کو شریعت کے تقاضوں کے منافی قرار دیا تھا اور یہ استفسار اور اس کے جوابات بھی اس دور میں ماہنامہ الشریعہ گوجرانوالہ میں شائع ہوگئے تھے۔
یہ دو حوالے صرف مثال کے طور پر دیے گئے ہیں، ان کے علاوہ اور تحفظات بھی ہیں جو بدستور موجود اور قائم ہیں لیکن ان کا تعلق دستور کی تعبیر اور اطلاق سے ہے، اس کی اساس کے ساتھ نہیں ہے اور نہ ہی ان اقدامات سے دستور کی اصل اساس متاثر ہوتی ہے۔
اس لیے ہماری گزارش یہ ہے کہ دستور اور اس کی تعبیرات کے درمیان فرق کو ملحوظ رکھنا ہی قرین انصاف بات ہے اور ملک میں رائج قوانین و نظام کو دستور کے دائرے سے ہٹ کر دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اس لیے کہ اگر دستور ہمیں ملک میں نفاذ اسلام کی بنیاد فراہم کرتا ہے اور اس کے لیے راستہ اور مواقع مہیا کرتا ہے تو اپنی کوتاہیوں کو دستور کے کھاتے میں ڈال کر اس کی نفی کرنا زیب نہیں دیتا۔ ہم اگر دستور پر صحیح عمل نہیں کر سکے یا نہیں کرا سکے تو اس کا قصور وار دستور نہیں ہے۔
جناب شاہد اللہ شاہد اور جناب بلاول بھٹو دونوں کو اپنے موقف کا از سرِ نو جائزہ لینا چاہیے اور دستور پاکستان کو متنازعہ بنانے کی بجائے اس کی تعبیر و اطلاق کی کمزوریوں کو دور کرنے اور اس پر مکمل عمل درآمد کی بات کو آگے بڑھانا چاہیے۔